مہنگائی:معاشروں کو ڈکارتا عفریت

316

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور کچھ ہو نہ ہو، مہنگائی بڑھتی ہی جارہی ہے۔ اس وقت مہنگائی حقیقی عالمگیر رجحان ہے۔ دنیا بھر میں معاشرے اس عذاب کو سہنے پر مجبور ہیں۔ تقریباً ہر ملک میں کرنسی کی قوتِ خرید گھٹتی جارہی ہے۔ ترقی یافتہ معاشرے بھی روزافزوں مہنگائی کے ہاتھوں الجھن سے دوچار ہیں۔ ہاں، بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا مؤثر نظام موجود ہونے کی بدولت عام آدمی کی زندگی نے وہاں عذاب کی صورت اختیار نہیں کی، مگر پھر بھی بہت کچھ ہے جو اُن کے بس میں نہیں۔

اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مہنگائی کی زد میں سبھی ہیں۔ ہر معاشرے کے تمام طبقات کو مہنگائی برداشت کرنا ہی پڑ رہی ہے۔ ہاں، ترقی پذیر اور پس ماندہ معاشروں کے لیے الجھنیں بہت زیادہ ہیں۔ چند ابھرتی ہوئی معیشتیں کسی نہ کسی طور مہنگائی سے نپٹنے میں کامیاب رہی ہیں، تاہم بیشتر پس ماندہ اور ترقی پذیر معاشرے مہنگائی کے ہاتھوں ایسی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جو کسی بھی اعتبار سے مثالی قرار نہیں دی جاسکتی۔

مہنگائی نے دنیا بھر میں زندگی کا ڈھانچہ بدل دیا ہے۔ اس تبدیلی میں بگاڑ کا تناسب خطرناک حد تک زیادہ ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ہر تخریب میں تعمیر کا سامان بھی ہوا کرتا ہے، مگر اس کے لیے خود کو تیار کرنا پڑتا ہے۔ کسی بھی خرابی سے اپنے مطلب کا نتیجہ کشید کرنا سب کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔ زندگی ہمیں قدم قدم پر بہت سی الجھنوں سے دوچار کرتی ہے۔ یہ الجھنیں اُس وقت زیادہ پریشان کرتی ہیں جب تیاری نہ کی گئی ہو۔ کسی بھی تبدیلی سے اپنے مطلب کے نتائج برآمد کرنے کے لیے علمی اور عملی دونوں سطحوں پر اچھی خاصی تیاری ناگزیر ہوا کرتی ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں بہت کچھ اپنے مقام پر ہے۔ ہر عمر اور ہر طبقے کے لوگ اپنے اپنے مقام پر مستحکم ہیں، اس لیے وہ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں اپنے وجود کو ڈھنگ سے برقرار رکھنے میں کامیاب ہیں۔

مہنگائی کیوں ہے؟ کیا واقعی مہنگائی کا کوئی ٹھوس معاشی یا اخلاقی جواز موجود ہے؟ مہنگائی کن عوامل کے ہاتھوں عملی شکل اختیار کرتی ہے؟ معاشیات کا سیدھا سادہ اصول ہے کہ جب طلب بڑھتی ہے تو (رسد نہ بڑھنے کی صورت میں) قیمت بھی بڑھتی ہے۔ یہ کیفیت بالعموم اُس وقت پیدا ہوتی ہے جب کسی چیز کی پیداوار اچانک گھٹ جائے یا ایسے حالات پیدا ہوجائیں کہ فوری رسد ممکن نہ بنائی جاسکے۔ بیشتر پس ماندہ معاشروں کا یہی المیہ ہے کہ وہاں مختلف شعبوں کا اپنی بہترین ممکنہ حیثیت میں نہ ہونا معاملات کو بہت تیزی سے خرابی کی طرف لے جاتا ہے۔ ایک زمانے سے یہی چلن رہا ہے۔ کوئی بھی پس ماندہ معاشرہ جب کسی بڑے بگاڑ کا شکار ہوتا ہے تو بہت کچھ بگڑتا چلا جاتا ہے۔ پھر ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب کوئی بھی شعبہ اپنی حدود میں مستحکم نہیں رہتا۔ ایسے میں افتراق و انتشار کی کیفیت پورے معاشرے کو لپیٹ میں لے لیتی ہے اور ہمہ گیر و ہمہ جہت تباہی مقدر ہو جاتی ہے۔

ہم ایک زمانے سے مہنگائی کا رونا رو رہے ہیں، مہنگائی کا عذاب بھگت رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ہماری زندگی اور سوچ پر بُری طرح اثرانداز ہوا ہے۔ مہنگائی کو بڑھاوا دینے میں بنیادی کردار معاشیات کے بیان کردہ حالات کے پائے جانے سے کہیں بڑھ کر انسانی مزاج و نفسیات کا ہے۔ لوگ جب لالچ کو زندگی کا محور بنالیں تب ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ دنیا بھر میں مسائل زیادہ ہیں اور وسائل کم ہیں۔ اس کے نتیجے میں مہنگائی کا ایک خاص رفتار سے بڑھنا فطری امر ہے جس سے مفر ممکن نہیں۔ پھر بھی یہ بات تو ماننا ہی پڑے گی کہ جب مہنگائی کا گھوڑا بے لگام ہوتا ہے تو سبھی کو روندتا ہوا گزرتا ہے۔ روزافزوں مہنگائی کسی کے لیے سُودمند نہیں ہوتی۔ جو طبقے یہ سمجھتے ہیں کہ مہنگائی کے ذریعے اُن کے مفادات ہمیشہ تقویت پاتے رہیں گے بالآخر وہ بھی پریشانی ہی سے دوچار ہوتے ہیں۔

مہنگائی کو بڑھاوا دینے میں کلیدی کردار فطری لالچ کے ساتھ ساتھ تربیت کی کمی کا بھی ہوا کرتا ہے۔ انسان کو بہت کچھ چھوٹی عمر سے سکھانا ناگزیر ہے۔ بنیادی تربیت اچھی ہو اور اخلاقی معاملات میں بہت کچھ چھوٹی عمر سے سکھادیا گیا ہو تو انسان معیاری انداز سے جینے کی کوشش کرتا ہے۔ ضمیر تو اللہ نے سبھی کو عطا کیا ہے مگر یہ تربیت ہی کی بدولت بروقت جاگتا اور اپنے حصے کا کام کرتا ہے۔ معاشرے میں بیشتر بگاڑ معیشت کی طرف سے آتے ہیں۔ جب انسان معاشی معاملات میں خرابی کا شکار ہو تو معاشرت کو بھی بچانے میں کامیاب نہیں ہو پاتا۔

معاشی معاملات کی خرابی دو طرف ہوتی ہے۔ ایک طرف تو انسان کسی کی طمع کا ہدف بنتا ہے، اور دوسری طرف کسی کو اپنی طمع کا بھی نشانہ بناتا ہے۔ جب لوگ یہ طے کرلیں کہ ایک دوسرے کو لُوٹنا ہے تو معاشرے کو تباہی سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ ہمارے ہاں یہ کیفیت کم و بیش تین عشروں سے پائی جارہی ہے۔

وہ معاشرہ بھی پاکستانی ہی تھا جس میں سبھی کچھ اپنے اپنے مقام پر تھا۔ مہنگائی برائے نام تھی، روپے کی قوتِ خرید اِتنی تھی کہ لوگ بے فکر ہوکر خرچ کرتے تھے اور مستقبل کے بارے میں زیادہ فکرمند ہونے کی زحمت گوارا نہیں کرتے تھے۔ 1960ء سے 1990ء تک کی دہائیاں اس معاملے میں مثالی حیثیت کی حامل رہی ہیں۔ 1970ء کی دہائی ہر اعتبار سے اِتنی مثالی تھی کہ لوگ آج بھی یاد کرکے اچھا خاصا رنج محسوس کرتے ہیں۔ رنج اِس بات کا ہوتا ہے کہ ایسا اچھا دور گزارنے کے بعد یہ ہم کہاں آ پھنسے ہیں! اگر اُن دہائیوں کا سوچیں تو ایسا لگتا ہے جیسے آج ہم کچرے کے ڈھیر پر جی رہے ہیں۔

ایک عشرے کے دوران مہنگائی کا معاملہ انتہائی شکل اختیار کرگیا ہے۔ عام آدمی کی قوتِ خرید تیزی سے گھٹ رہی ہے۔ زیادہ بچوں والے گھرانوں کے لیے جینا دوبھر ہوگیا ہے۔ کرائے پر رہنے والوں کی تعداد گزری ہوئی دہائیوں میں بھی کم نہ تھی مگر وہ کسی نہ کسی طور گزربسر کر ہی لیتے تھے۔ اب معاملہ انتہائی رُلا ہوا ہے۔ اب عام آدمی نارمل تنخواہ میں کرائے پر رہنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ اس کے نتیجے میں وہ یا تو اُدھار مانگتا پھرتا ہے یا پھر کہیں نہ کہیں سے عطیات اور خیرات کے بل پر جیتا ہے۔ مانگنے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں۔ جو لوگ اپنی آمدنی کی حد میں رہتے ہوئے ڈھنگ سے جی نہیں سکتے وہ اپنا تھوڑا بوجھ دوسروں پر ڈالتے ہیں۔ یہ ’کان چاہے جس طرف سے پکڑو‘ والا معاملہ ہے۔ انتہائی محدود آمدنی والے مجبور افراد میں سے بہت سوں کا یہ حال ہے کہ ہاتھ پھیلانے میں شرم محسوس نہیں کرتے، اور کچھ ایسے ہیں جو معاملے کو ذرا گھما پھراکر درست کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں مہنگائی کی بہت سی وجوہ ہیں۔ یہ بھی ایک الگ بحث ہے کہ ہم نے مہنگائی کے معاملے کو یہاں تک کیسے پہنچنے دیا۔ کنزیومر اِزم نے ہمارے ہاں تین عشروں کے دوران خطرناک تیزی سے فروغ پایا ہے۔ عام آدمی کسی جواز کے بغیر بھی خرچ کرنے کا عادی ہوگیا ہے۔ دنیا بھر میں یہ ہوتا ہے کہ جب آمدنی کم ہوتی ہے تو لوگ بجٹ بناتے ہیں، حساب کتاب سے خرچ کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں بجٹ بناکر خرچ کرنے کا رجحان کبھی پروان نہیں چڑھا۔ یہ حکومت اور میڈیا کی ترجیحات میں بھی شامل نہیں۔ حکومت کو بہ ظاہر اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ لوگ کیسے کماتے اور کیسے خرچ کرتے ہیں۔ اُسے تو صرف ٹیکس وصول کرنے اور سرکاری مشینری کو پُرتعیّش طرزِ زندگی فراہم کرنے سے غرض ہے۔ بیشتر پس ماندہ معاشروں کی طرح ہمارے ہاں بھی اب مجموعی کیفیت یہ ہے کہ ملک بھر کے عوام سے پیسے بٹورکر سرکاری مشینری کو پالا جارہا ہے۔ سرکاری مشینری بھی ناگزیر حقیقت ہے، مگر مہنگائی صرف اُس کے لیے تو نہیں۔ ہمارے ہاں نجی شعبے میں تنخواہیں تین تین چار چار سال تک نہیں بڑھتیں اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ہر سال باقاعدگی سے بڑھائی جاتی ہیں۔ مہنگائی اگر ہے تو سبھی کے لیے ہے۔ کوئی ایسا انتظام ہونا چاہیے کہ معاشرے کے ہر فرد کی تنخواہ یا آمدنی میں معقول حد تک باقاعدہ اضافہ ممکن ہو۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پھر یہی سمجھا جائے گا کہ حکومت عوام کے خرچ پر اپنی مشینری کو پال رہی ہے۔

مہنگائی پر قابو پانے کے بہت سے طریقے ہوسکتے ہیں۔ ہر معاشرے میں کرنسی کی قوتِ خرید گھٹ رہی ہے۔ دوسری طرف آمدنی گھٹنے سے قوتِ خرید میں مزید یا اضافی کمی واقع ہورہی ہے۔ حقیقت پسندی کی بنیاد پر استدلال کیجیے تو اندازہ ہوگا کہ بہت کچھ ہے جو کسی جواز کے بغیر بگڑا ہے یا بگاڑا گیا ہے۔ مہنگائی کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔ کیا ہم اس حقیقت سے انکار کرسکتے ہیں کہ ہمارے ہاں بہت کچھ کسی جواز کے بغیر مہنگا ہوا ہے یا کیا گیا ہے؟ بہت سی چیزوں کا خام مال باہر سے آتا ہے۔ جب خام مال مہنگا ہوتا ہے تو لاگت بڑھتی ہے، یہ بالکل فطری امر ہے۔ مگر اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ لاگت کے بڑھنے کو جواز بناکر بے لگام مہنگائی کی راہ ہموار کی جائے۔ یہاں تو اب چلن سا ہوگیا ہے کہ عالمی منڈی میں ہلچل کا بھرپور فائدہ اٹھایا جائے اور جی بھر کے منافع بٹورا جائے۔ منافع کمانے اور منافع خوری میں تو بہت فرق ہے۔ لوگ اس فرق کو بھلا بیٹھے ہیں۔ دکان دار یا چھوٹے تاجر کسی بھی چیز کی کوئی بھی قیمت وصول کرنے لگتے ہیں اور کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔ یہ معاملہ اخلاقی ذمہ داری کا ہے۔ انسان کو اپنے ضمیر کی عدالت میں کھڑے ہوکر دیکھنا چاہیے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے اس کا اخلاقی جواز کیا ہے۔ اگر وہ ضمیر کی عدالت میں کھڑا نہیں ہوسکتا تو پھر کسی پر رحم بھی نہیں کھا سکتا۔ ایسے میں اُسے یہ توقع بھی نہیں رکھنی چاہیے کہ کوئی اُس پر رحم کرے گا۔

مہنگائی سے لڑنے کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ ایک معقول طریقہ تو بجٹ کے مطابق خرچ کرنے کا ہے۔ جب انسان تعقل کے ساتھ خریداری کرتا ہے تو اچھی خاصی بچت ممکن ہو پاتی ہے۔ آمدنی کم ہو تو انسان کو بجٹ کی حدود میں رہتے ہوئے جینا چاہیے۔ غیر ضروری اخراجات سے گریز کی راہ پر گامزن رہنا ہی گھر کو درست حالت میں رکھتا ہے۔ اگر احتیاط نہ برتی جائے تو ضرورت پڑنے پر اہم کاموں کے لیے پیسہ نہیں بچتا۔ کسی بھی ماحول میں وہی گھرانے ڈھنگ سے جی پاتے ہیں جو اپنے لیے چند حدود کا تعین کرتے ہیں اور اُن حدود میں رہتے ہوئے جینے کی کوشش کرتے ہیں۔

مہنگائی سے کماحقہٗ نبرد آزما ہونے کی دوسری معقول ترین صورت یہ ہے کہ انسان زیادہ کام کرے۔ حالات جب زیادہ خرابی کی طرف چلے جائیں تو ہر انسان کے لیے زیادہ کام کرنا لازم ٹھیرتا ہے۔ ہمارے ہاں وہ منزل آچکی ہے۔ اب کسی بھی فرد کے لیے ایک آمدن کی حدود میں رہتے ہوئے گھر چلانا ممکن نہیں رہا۔ اضافی آمدن کے لیے زیادہ کام کرنا پڑتا ہے۔ اب دوسرے کام کے لیے وقت اور توانائی کہاں سے لائی جائے؟ یہ بھی اللہ کے کرم ہی کی بدولت ممکن ہوپاتا ہے، مگر ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ دُگنی آمدن کے لیے تو گھر سے نکلتے ہیں مگر دُگنا کام نہیں کرتے۔ مہنگائی کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لیے دُگنا کمانا ہو تو انسان دو ملازمتیں کرتا ہے یا اضافی کام کرتا ہے۔ اس کے لیے اضافی وقت بھی نکالنا پڑتا ہے اور توانائی کا اہتمام بھی کرنا پڑتا ہے تاکہ کام کا معیار متاثر نہ ہو۔ ہمارے ہاں یہ ہورہا ہے کہ لوگ دو کام تو کررہے ہیں مگر انصاف کسی ایک کام سے بھی نہیں کررہے۔ دونوں جگہ ڈنڈی ماری جارہی ہے۔ مقصود صرف یہ ہے کہ آمدنی بڑھے۔ کام کوئی نہیں بڑھا رہا، نہ اُس کا معیار ہی بلند کررہا ہے۔ کیا اِس کے نتیجے میں بے برکتی پیدا نہیں ہوگی؟ ضرور ہوگی، بلکہ ہورہی ہے۔

انسان ملازمت پیشہ ہو یا اپنا کام کرتا ہو (یعنی سیلف ایمپلائیڈ ہو) دونوں ہی صورتوں میں زیادہ کمانے پر تو متوجہ ہوتا ہے، زیادہ یعنی کماحقہٗ کام کرنے پر متوجہ ہونے کی زحمت گوارا نہیں کرتا۔ اس کے نتیجے میں الگ سے خرابیاں پیدا ہورہی ہیں۔ کراچی اور لاہور سمیت ملک کے بیشتر بڑے اور چھوٹے شہروں میں لوگ دُگنا کام کرنے پر مجبور ہیں جس سے معاشرتی معاملات بگڑ رہے ہیں۔ لوگ دوسروں کے لیے تو کیا، اپنے لیے بھی وقت نہیں نکال پارہے۔ یہ تو ہوا معاشرتی پہلو… اور معیشتی پہلو یہ ہے کہ انسان اپنا کوئی بھی کام ڈھنگ سے نہیں کر پارہا۔

مہنگائی سے لڑنے کے لیے محض آمدنی بڑھانا کافی نہیں، اخراجات کو معقولیت کی حدود میں لانا بھی لازم ہے۔ یہ دو دھاری خنجر پر چلنے جیسا معاملہ ہے۔ کامیاب وہی ہیں جو تمام معاملات کو معقول انداز سے اور ضمیر کی آواز کے مطابق درست رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہیں کا بوجھ کہیں اُتار پھینکنے سے مسائل حل نہیں ہوتے بلکہ مزید پیچیدگی اختیار کرتے ہیں۔ مہنگائی کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔

آج پوری قوم کو کنزیومر اِزم کے گڑھے سے نکلنے پر متوجہ ہونا چاہیے۔ عام پاکستانی خرچ کے معاملے میں معقولیت کا قائل نہیں۔ وہ جیسے تیسے کماتا ہے اور جیسے تیسے خرچ کرتا ہے۔ اِس کے نتیجے میں مہنگائی کا دائرہ وسعت اختیار کرتا جارہا ہے۔ اب مہنگائی اِتنی زیادہ ہے کہ عام آدمی کے لیے ڈھنگ سے جینا تقریباً ناممکن ہوچکا ہے۔ اب بھی اگر پوری دیانت اور غیر جانب داری سے جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ عام آدمی اپنے اخراجات کو معقولیت کی حدود میں رکھنے پر متوجہ نہیں۔ بیشتر معاملات میں بے سوچے سمجھے خرچ کرنے کا چلن عام ہے۔ یہ روش معاملات کو مزید بگاڑ رہی ہے۔

مہنگائی چونکہ عالمگیر معاملہ ہے اس لیے اِس سے بہتر طور پر نپٹنے کے لیے سبھی سوچ رہے ہیں۔ ہر معاشرے کے ساہوکار اپنے مفادات کو زیادہ سے زیادہ تحفظ فراہم کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ جب تک اُن کا ضمیر نہیں جاگتا تب تک عوام کو اپنے لیے معقول طریقِ حیات منتخب کرنا ہوگا۔ غیر ضروری اخراجات سے گریز اور بجٹ کی حدود میں رہتے ہوئے جینے کی روش اپنانا ہوگی۔ اس حوالے سے اخلاقی تعلیمات کی بھی بہت اہمیت ہے۔ رائے عامہ پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت رکھنے والی شخصیات کو آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ عوام کو بتانے کی ضرورت ہے کہ دینی تعلیمات کی روشنی میں کم آمدنی سے بھی ڈھنگ کی زندگی بسر کی جاسکتی ہے۔ اس کے لیے ضبطِ نفس ناگزیر ہے۔ یہ وصف راتوں رات پیدا نہیں ہوتا۔ اِس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔ جب تک حکومتی مشینری اور مہنگائی میں اضافے کے ذمہ دار دیگر طبقات درست نہیں ہوتے تب تک عوام اپنے معاملات درست کرنے اور درست رکھنے پر توجہ دیں تو تھوڑی بہت بہتری ضرور یقینی بنائی جاسکتی ہے۔