بے چینی کا علاج ہے

451

کہا جارہا تھا کہ آئی ایم ایف کی وجہ سے پٹرول اور ڈیزل کی قیمت میں اضافہ ہو جائے گا حکومت نے یہ کام دو روز پہلے ہی کردیا اور 35,35 روپے فی لیٹر کی بوسٹر ڈوز لگا دی، خبر آئی تھی کہ اوگرا نے حکومت کو پٹرول کی قیمتوں میں 83 روپے فی لیٹر اضافے کی تجویز دی ہے اس طرح پٹرول کی قیمت تقریباً 310 روپے فی لیٹر بنتی تھی اس خبر نے سوشل میڈیا پر گردش کرنا شروع کیا تو سب سے پہلے پٹرول بم مافیا چوکنا ہوا، اس کے بعد عوام میں بے چینی پھیلی، لوگ تیل ذخیرہ کرنے کو نکل کھڑے ہوئے ادھر پٹرول پمپ مالکان نے فروخت کم کر دی، پٹرول پمپوں پر لمبی لمبی قطاریں لگنے لگیں چھوٹے شہروں میں پٹرول نایاب ہو گیا۔ چونکہ ملک میں اس وقت حکومت یا انتظامیہ نام کی کوئی چیز نہیں اس لیے بجائے پٹرول کی فراہمی کو یقینی بنانے اور نئی قیمتوں کا اطلاق قواعد کے مطابق یکم فروری سے کرنے کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس الزام سے بچنے کے لیے ملک میں پٹرول ختم ہو گیا ہے دو دن پہلے ہی نئی قیمتوں کا اطلاق کر دیا۔ یوں خزانے میں اربوں روپے آنے کی راہ بھی پیدا ہو گئی اور سب نے دیکھا کہ قیمتیں بڑھنے کے ساتھ ہی پٹرول پمپوں پر تیل بھی ملنا شروع ہوگیا۔ منافع خور مافیا کو صرف دولت کمانے کی پڑی ہے، کسی کو اخلاقی قدروں اور ایمانداری کی فکر نہیں۔
پٹرول اور ڈیزل کی قیمتیں تو دو چار دن پہلے ہی بڑھانے کا فیصلہ کر لیا گیا مگر درمیان میں مریم نواز کی وطن واپسی آ گئی اگر ان کی واپسی سے پہلے پٹرول و ڈیزل مہنگے ہو جاتے تو استقبال کی چکا چوند ماند پڑ سکتی تھی اس لیے اس اضافے کو موخر کیا گیا اور جب وہ خیریت سے لاہور لینڈ کر گئیں تو قیمتیں بڑھا دی گئیں اسے کہتے ہیں باغباں بھی خوش رہے اور خوش رہے صیاد بھی، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اوگرا کی تجویز کے مطابق اضافہ نہیں کیا گیا بس عوام کسی بڑے ریلیف کی توقع نہ کریں۔ سوشل میڈیا پر تو یہ افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ مزید اضافہ ہو سکتا ہے، کہنے کو اضافہ صرف 35 روپے کا ہوا ہے مگر یہ اضافہ مختلف اشیاء میں منتقل ہو کر کیا قیامت ڈھائے گا ڈیزل کی قیمت بڑھی ہے تو ٹرانسپورٹ کے کرائے بڑھ جائیں گے پہلے ہی تاجر طبقہ ڈالر مہنگا ہونے کا بہانہ بنا کر قیمتوں میں دن رات اضافہ کر رہا ہے اب پٹرول اور ڈیزل مہنگا ہونے کا بہانہ بھی ہاتھ آ گیا ہے۔ سبزیاں، پھل، آٹا، چینی، دالیں، گھی، انڈے، مرغی، بجلی، گیس غرض سب کچھ اب مزید مہنگا ہو جائے گا۔ 35 روپے بڑھے ہیں تو کہیں 350 بڑھیں گے جس طرح پٹرول پمپ مالکان کو قیمتیں بڑھنے سے بیٹھے بٹھائے کروڑوں روپے کا فائدہ ہوا ہے اسی طرح مختلف اشیاء کی قیمتیں بڑھنے سے دکانداروں کے بھی وارے نیارے ہو جاتے ہیں پستا وہی ہے جس کی محدود آمدنی ہے اور جو اپنا بوجھ آگے منتقل نہیں کر سکتا ان میں تنخواہ دار طبقہ اور دہاڑی دار مزدور سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔
ایک سینئر پولیس افسر سے پوچھا گیا کہ جرائم کی تعداد میں ہوشربا اضافہ کیوں ہوگیا ہے؟ کیا پولیس بے بس ہوگئی ہے یا اس کی گرفت نہیں رہی؟ پولیس افسر نے کہا بھائیو! میرا نام نہ کہیں لینا مگر میں دیانتداری سے کہہ رہا ہوں کہ موجودہ حالات میں پولیس چاہے آپ امریکا جیسی بھی لے آئیں وہ جرائم کو نہیں روک سکتی کہ بے روز گاری اور مہنگائی نے خاص طور پر نوجوانوں کو بددل کر دیا ہے، جتنے بھی ملزمان پکڑے جاتے ہیں ان میں زیادہ تر تعداد پڑھے لکھے نوجوانوں کی ہوتی ہے اسٹریٹ کرائمز میں بھی اسی لیے اضافہ ہو رہا ہے کہ غربت اور بے روز گاری نے قانون شکنی کو ایک آسان راستہ بنا دیا ہے، جس کے ذریعے اپنی محرومیاں دور کی جا سکتی ہیں سادہ سا اصول ہے کہ مہنگائی اور بے روزگاری بڑھے گی تو جرائم میں بھی اضافہ ہو گا، دنیا کے مہذب ممالک میں اسی لیے بے روزگاری الاؤنس دیا جاتا ہے کہ بے روزگار آدمی منفی سوچوں کا شکار ہو کر غلط راستے پر چل نکلتا ہے۔