برطانیہ کے جیک اسٹرا کوگجرات یاد ہے اور مسلمان حکمران یہ کہہ کر بھول گئے ہیں کہ یہ بھارت کا اندرونی مسئلہ ہے اور اگر ہم نے کچھ کہا تو امریکا اور آئی ایم ایف دونوں ہم سے ناراض ہو جائیں گے اس کے ساتھ ہماری معیشت ڈوب جائے گی لیکن جیک اسٹرا 2002 میں برطانیہ کے وزیر ِخارجہ تھے تو انہوں ایک خفیہ تفتیشی کمیٹی بنائی جس نے بھارتی گجرات جاکر انتہائی رازداری سے گجرات قتل عام کی تحقیق کی۔ جیک اسٹرا رپورٹ 17جنوری 2023ء کو بی بی سی کے ایک پروگرام میں نشر کر دی گئی اور اس کی دوسری قسط میں جو حقیقت سامنے آئی ہے اس میں چند باتیں بہت اہم ہیں۔ سب سے پہلے تو یہ کہا گیا ہے کہ مسلمانوں کے قتل عام میں براہ راست مودی شامل تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ آر ایس ایس کے غنڈوں کو مسلمانوں کے قتل عام کی ہدایت مودی دے رہے تھے اور خواتین کو بے آبرو کر نے کی ویڈویو مودی کو بھیجی جارہی تھی۔ مودی کے پاس وزیر اعلیٰ ہاؤس میں مسلمان گھرانوں میں موجود لڑکیوں کا تفصیلی ریکارڈ موجود تھا اور آر ایس ایس غنڈوں کو ان لڑکیوں کے بارے میں پوری تفصیل بتائی جارہی تھی۔ 18 دسمبر 2022 ڈی ڈبلیو نیوز کے مطابق گجرات فسادات کے مجرمان کے خلاف اپیل خارج کردی گئی اور ان کو رہا کر دیا گیا۔ عدالت عظمیٰ نے مجرموں کی رہائی کے خلاف دائر کردہ بلقیس بانوں کی دو میں سے ایک درخواست خارج کر دی۔ فسادات کے دوران ان افراد نے بلقیس کا ریپ کرنے کے ساتھ ہی خاندان کے 14 افراد کو قتل کر دیا تھا۔
بھارتی ریاست گجرات میں فروری اور مارچ 2002ء میں ہونے والے یہ فرقہ وارانہ فسادات اس وقت شروع ہوئے جب گودھرا ریل آتشزدگی سے 59 انتہاپسند ہندو ہلاک ہو گئے جن کے بارے میں کہا گیا ہے یہ بھی آر ایس ایس کی خفیہ کارروائی ہے۔ اس کا الزام مسلمانوں پر لگایا گیا اور گجرات میں مسلمانوں کے خلاف یہ فسادات ریاستی حکومت کی درپردہ اجازت پر کیے گئے۔ جیک اسٹرا رپورٹ کے مطابق یہ مسلمانوں کی نسل کشی تھی۔ اس میں تقریباً 2500 مسلمانوں کو بے رحمی سے قتل یا زندہ جلا دیا گیا۔ سیکڑوں مسلمان خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ ہزاروں مسلمان بے گھر ہوئے۔
ان فسادات کو روکنے کے لیے پولیس نے کوئی کردار ادا نہ کیا۔ بلکہ گجرات کے وزیر اعلیٰ مودی نے اس قتل و غارت کی سرپرستی کی۔ اس وقت کی بھارت کی وفاقی حکومت، جو بی جے پی کی تھی، نے بھی گجرات میں فسادات روکنے کی کوشش نہیں کی۔ اب تک کسی ہندو کے خلاف عدالتی کارروائی نہیں کی گئی۔ یورپی یونین نے اس نسل کشی پر کھلے عام احتجاج کرنے سے گریز کیا اور یہی طرز عمل امریکا کا بھی رہا تھا۔ اب بھی مسلمان اس ریاست میں مہاجروں کی طرح رہ رہے ہیں اور دوسرے درجے کے شہری سمجھے جاتے ہیں۔ بھارتی عدالت عظمیٰ نے گجرات کے مسلم کش فسادات کی متاثرہ خاتون بلقیس بانو کی وہ درخواست خارج کر دی ہے، جس میں انہوں نے اپنے ساتھ ہونے والی جنسی زیادتی اور خاندان کے دیگر افراد کو قتل کرنے والے گیارہ مجرموں کی رہائی کے خلاف اپیل دائر کی تھی۔
2002 میں گجرات کے مسلم کش فسادات کے دوران بلقیس بانو کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے کے ساتھ ساتھ ہندو بلوائیوں نے ان کے خاندان کے متعدد افراد کو ان کے سامنے ہی قتل کر دیا تھا۔ اس کیس میں گیارہ افراد کو عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی تاہم گجرات کی بی جے پی حکومت نے انہیں اسی برس 15 اگست کو جیل سے رہا کر دیا تھا۔ مودی کی مرکزی حکومت نے ان مجرموں کے حوالے سے اس رپورٹ کو منظور کر لیا تھا کہ قید کے دوران ان کے سلوک میں بہتری آئی ہے اس لیے وہ رہائی کے مستحق ہیں۔ حالانکہ ملک کی تازہ ترین پالیسی کہتی ہے کہ گینگ ریپ اور قتل کے مجرموں کو جلدی رہائی نہیں دی جا سکتی۔ تاہم عدالت عظمیٰ نے اس دلیل سے اتفاق کیا کہ اس حوالے سے 2008 کی وہ پالیسی ان مجرموں پر عائد نہیں ہوتی ہے، جس کے تحت ایسے مجرموں کی رہائی ممنوع ہے اور ان پر 1992 کی وہ پالیسی نافذ ہوتی ہے، جس کے تحت ہر طرح کے مجرموں کو اچھے سلوک کی بنیاد پر جیل سے جلدی رہا کیا جانے کی بات کہی گئی ہے۔ متعدد عالمی حلقوں نے مودی کو فسادات بھڑکانے کا ذمے دار ٹھیرایا تھا۔ اس واقعے پر ملک اور بیرون ملک زبردست ردعمل کے بعد عدالت عظمیٰ نے اس کی تفتیش کے لیے خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی اور ایک طویل قانونی جنگ کے بعد گیارہ افراد کو مجرم قرار دیا گیا تھا اور انہیں دوہزار آٹھ میں عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
چند ہفتے قبل بھارتی وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ میں پاکستان پر دہشت گردی کو فروغ دینے کا الزام عائد کرتے ہوئے جب یہ دلیل پیش کی کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں ہلاک کیے گئے تھے۔ تو اس کے جواب میں پاکستانی وزیر خارجہ بلاول زرداری نے نیویارک میں کہا، ’’میں جے شنکر کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ اسامہ بن لادن مر چکا ہے، لیکن گجرات کا قصاب زندہ ہے اور وہ (بھارت) کا وزیر اعظم ہے‘‘۔ بلاول کا مزید کہنا تھا، ’’ان (نریندر مودی) کی اس ملک (امریکا) میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔ یہ آر ایس ایس کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ ہیں جو ہٹلر سے تحریک حاصل کرتے ہیں‘‘۔ گجرات حکومت کی دلیل ہے کہ اس نے چودہ برس سے زیادہ مدت قید میں گزارنے والے عمر قید سزا یافتہ مجرموں کو معافی دینے کی ریاستی اسکیم کے تحت ہی ان تمام گیارہ افراد کو 15 اگست کو بھارت کی یوم آزادی کے موقع پر رہا کیا تھا۔ ان مجرموں کی رہائی کے بعد حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے مختلف گروپوں نے ایک تقریب میں ان مجرموں کا شاندار استقبال کیا تھا۔ انہیں پھولوں کے ہار پہنائے گئے، آرتی اتاری گئی اور لوگوں میں مٹھائیاں تقسیم کی گئی تھیں۔ بی جے پی کے ایک رکن اسمبلی نے کہا تھا، ’’یہ لوگ برہمن ہیں اور اچھے اخلاق کے مالک ہیں‘‘۔
رپورٹ کے مطابق 28فروری 2002 کو تین برطانوی شہریوں اور ان کے ڈرائیور کو ایک ہجوم نے قتل کر دیا۔ کیس کی معلومات کے مطابق برطانیہ سے آنے والے عمران داؤد نامی شخص اپنے تین رشتہ داروں کے ساتھ گاڑی میں سفر رہے تھے۔ ہجوم نے گاڑی کو روک کر ایک ہی جگہ پر دو افراد کو نذر آتش کر دیا۔ دو افراد جان بچا کر بھاگے لیکن ہجوم نے ان کا پیچھا کیا اور انہیں مار ڈالا۔ پولیس کی مدد سے عمران داؤد خود کو بچانے میں کامیاب رہے۔ پولیس نے اس معاملے میں چھے لوگوں کو گرفتار کیا تھا لیکن ان سبھی کو نچلی عدالت میں رہا کر دیا گیا۔ اب بھارت نے گجرات کے تمام کیس کو بند کر دیا ہے لیکن جیک اسٹرا کوگجرات مسلم کش قتل عام یاد اور مسلمان حکمران اس کو کب یاد کریں گئے؟ یاد رہے کہ برطانیہ کے ہندو وزیر اعظم نے جیک اسٹرا کی رپورٹ کو گمراہ کن قرار دیتے ہوئے مودی کو بے قصور قرار دے دیا ہے۔