کراچی کا فیصلہ میئر حافظ نعیم الرحمن

768

اے ابن آدم کئی سال سے کراچی والوں کے ساتھ حکومت سندھ ایک مذاق کررہی تھی مگر شاباش ہے جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن کو وہ میدان میں کھڑے رہے اور عدالتوں سے رجوع کیا۔ آخر مرتا کیا نہ کرتا پورے کراچی نے یہ تماشا دیکھا کہ یہ بلدیاتی الیکشن کس طرح سے منعقد کیے گئے، عوام ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کیا 15 جنوری کو الیکشن ہوں گے، میری شاگرد ناہید خان جو پولنگ آفسر تھیں مجھے فون کرکے پوچھتی ہیں استاد کیا اتوار کو الیکشن ہوں گے، مجھے تو ڈی سی آفس سے اب تک کوئی کال موصول نہیں ہوئی۔ میں نے کہا کہ متحدہ نے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا ہے اور دھمکیاں دے رہی ہے کہ بلدیاتی الیکشن کو آگے بڑھا دیا جائے کیونکہ الیکشن سے قبل متحدہ کے دھڑے پھر ایک ساتھ مل گئے تھے۔ سوائے ایم کیو ایم حقیقی کے۔ میں نے جب الیکشن کمیشن کے حتمی نتائج دیکھے تو سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ دھاندلی کی بھی کوئی حد ہوتی ہے، پیپلز پارٹی 93، جماعت اسلامی 86، پی ٹی آئی 40، جبکہ میں نے آدھے کراچی کا خود دورہ کیا تھا صبح سب سے پہلے میں نے جماعت اسلامی کو ووٹ ڈالا، میرے نارتھ کراچی جہاں میں رہتا ہوں شرافت حسین بھائی کو جماعت اسلامی نے کونسلر کا ٹکٹ دیا تھا، الیکشن سے 2 دن قبل میں نے ایک سوشل میڈیا پر ویڈیو اپ لوڈ کی، اپنے ساتھ شرافت حسین بھائی کو کھڑا کرکے اُس کے بعد تو بس اس میری اور شرافت حسین کی ویڈیو کو عوام نے اتنا شیئر کیا اس میں میں نے اپنی تحریک ابن آدم کی طرف سے ترازو پر مہر لگانے کی اپیل کی تھی میں اگر یہ نہیں بھی کرتا پھر بھی جیت جماعت اسلامی کی تھی۔
سوشل میڈیا پر پی پی پی اور پی ٹی آئی اور تحریک لبیک کے جھگڑے نظر آئے، کھلی دھاندلی نظر آتی رہی، میں نے کئی مقامات پر یہ دیکھا کہ پی پی پی کا کوئی کپ تک نہیں مگر رزلٹ اُن کے حق میں آرہا ہے۔ میری شاگرد خواتین بوتھ میں ڈیوٹی دے رہی تھی وہاں خواتین کے ٹوٹل 81 ووٹ پڑے جس وقت گنتی ہوئی وہ موجود تھی میں نے اس سے رزلٹ پوچھا تو پتا چلا 70 ووٹ تو جماعت اسلامی کو ملے کسی کو 6 اور کسی کو 5 اور وہاں سے پی پی پی کس طرح سے کامیاب ہوسکتی ہے، حلقہ UC-2 بلدیہ کے سابق ناظم جو مسلم لیگ (ن) کے تھے رفیق خان انہوں نے اس مرتبہ الیکشن نہیں لڑا۔ انہوں نے مجھے لکھ کر دیا کہ ان کے حلقے میں دھاندلی ہوتی رہی، وارڈ نمبر 1 کے علاوہ وارڈ نمبر 4 سے جماعت اسلامی کے کونسلر نے 107 ووٹ سے جیت لیا مگر دوسرے دن تیسرے نمبر کی پارٹی پی پی پی جس کے کونسلر کو 10 ووٹ ملے وہ آر او آفس میں جیت گیا۔ پولنگ اسٹیشن کے رزلٹ فارم 11 پر 10 ووٹ کو 101 بنادیا گیا، نہ جانے کس کس مقامات پر پی پی پی والوں نے یہ کام کیا ہوگا۔ میرے مطابق کراچی میں اگر صاف شفاف الیکشن کا انعقاد ہوتا تو پیپلز پارٹی کو 25 سیٹ سے زیادہ مل ہی نہیں سکتی تھیں۔ جماعت کو کم از کم 150 سیٹ ملتی۔ مگر وزیراعلیٰ سندھ اور اُن کے حواری یہ نعرہ لگاتے رہے کہ کراچی کا میئر تو جیالا ہوگا، اتنی دھاندلی کے باوجود مجھے اُمید ہے کہ پیپلز پارٹی ناکام ہوگی کیونکہ پی ٹی آئی اگر ملے گی تو وہ جماعت اسلامی سے ہی ملے گی۔
کراچی کے عوام تو گھروں سے باہر نکلے ہی جماعت اسلامی کے لیے تھے، میں نے بے شمار لوگوں سے پوچھا اُن سے بھی پوچھا جو الطاف حسین کے چاہنے والے تھے انہوں نے بھی جماعت اسلامی کو ووٹ ڈالا۔ جماعت اسلامی نے الیکشن سے 2 دن پہلے جو انتخابی مہم چلائی ابن آدم اُن کے ٹیم ورک، ہمت، جرأت اور حوصلے کو سلام پیش کرتا ہے۔ میں سوال کرتا ہوں الیکشن کمیشن سے اُس نے یہ کس طرح کے اقدامات کیے۔ سوال تو اُن کی کارکردگی پر اُٹھتا ہے، اتنی دھاندلی پر عدلیہ بھی اب تک خاموش ہے، دراصل کراچی میں متحدہ پاکستان کے بائیکاٹ کے بعد مقابلہ صرف جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی میں تھا۔ 15 سال سے پیپلز پارٹی سندھ پر حکومت کررہی ہے اور جو حال کراچی کا وہ کرچکی ہے کراچی والوں کے دل سے اُتر گئے کیونکہ وزیراعلیٰ سندھ اور وزیر مشیر صرف اخباری بیانات تک ہی کام کرواتے رہے، عملی طور پر کراچی شہر میں کوئی بڑا ترقیاتی کام نہیں کیا گیا، اب بھی وقت ہے کراچی کو اس کی بلدیاتی قیادت جس کو عوام نے ووٹ دے کر کامیاب کیا ہے اس کو بااختیار بنا کر بلدیہ کو ان کے سپرد کردیا جائے کیونکہ پیپلز پارٹی کا ناظم اعلیٰ کا خواب پورا نہیں ہوگا کیونکہ پی پی پی 91 اور مخصوص نشستوں کے ساتھ تقریباً 140 پر ہے جماعت اسلامی 88 اور مخصوص نشستوں کے ساتھ 135 پر ہے۔ تحریک انصاف 44 اور مخصوص نشستوں کے ساتھ 60 پر ہے۔ مسلم لیگ 9، جے یو آئی 4، آزاد 4، تحریک لبیک 3 اور ایم کیو ایم حقیقی کی 1 سیٹ۔ اس طرح آزاد امیدواروں اور چھوٹی پارٹیوں کی نشستوں کی کل تعداد ملا کر 21 ہوگئی ہے۔ کراچی کا میئر بنانے کے لیے ایک جماعت کو 356 کے ایوان میں 179 نشستوں کی ضرورت ہوگی۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے اعتماد کی صورت میں عام اور مخصوص نشستوں کی تعداد 195 ہوگی۔ پیپلز پارٹی سب جماعتوں اور آزاد کو ملا بھی لے تو تعداد 160 ہوجائے گی۔ اب اُن کا میئر تو گیا۔ سچ تو سچ ہی ہوتا ہے اور جیت سچ کی ہوگئی۔ آفاق احمد کا ایک ووٹ اور تحریک لبیک بھی جماعت اسلامی کا ساتھ دے گی، اگر آزاد کو کراچی کی حالت پر رحم آگیا تو وہ بھی جماعت اسلامی کا ساتھ دیں گے۔ کیونکہ حافظ نعیم الرحمن کی کراچی کو فوری ضرورت، کراچی والوں کی آخری امید حافظ نعیم الرحمن ہے، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ سب کو آزما کر دیکھ لیا ہے سب نے مال کمایا ہے اور اگر کسی پارٹی میں ایماندار قیادت ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی ہے۔ ان شاء اللہ کراچی کی اُمید ضرور پوری ہوگی۔