یہ عجیب ساعت رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے

800

اس کو رخصت تو کیا تھا مجھے معلوم نہ تھا
سارا گھر لے گیا گھر چھوڑ کے جانے والا
یہ شعر شاعر نے کس کے بارے میں کس تناظر میں کہا تھا معلوم نہیں لیکن حکومت چھوڑتے سندھ حکومت کو گھر کا سارا سامان لپیٹ لینے کی فکر ہوتی ہے۔ لہٰذا وہ حکومت چھوڑنے کے لیے ہی آمادہ نہیں ہوتی کہ گھر کیوں چھوڑیں اور سامان تو ہرگز نہیں۔ پیپلز پارٹی بلدیاتی الیکشن کی اکثریتی پارٹی ہونے کی دعویدار تو بن رہی ہے لیکن سچ ہے کہ اُسے ساعت رخصت کا ڈر ہے۔ کوشش پورے شہر کو رخت سفر بنانے کی ہے لہٰذا رج کے ٹھپے لگائے گئے ہیں کہ
یہ عجیب ساعت رخصت ہے کہ ڈر لگتا ہے
شہر کا شہر مجھے رخت سفر لگتا ہے
پہلے تو اس ڈر سے الیکشن کے لیے ہی کسی صورت آمادہ نہیں تھے لہٰذا سندھ حکومت نے الیکشن نہ کرنے کے لیے سارے حربے استعمال کیے، ساری کوشش کی گئی کہ کسی طرح الیکشن سے جان چھڑائی جائے لیکن دوسری طرف بھی جماعت اسلامی کے حافظ نعیم موجود تھے۔ انہوں نے ایسا پیچھا پکڑا کہ آخر الیکشن کروانے پڑے لیکن پھر سندھ حکومت نے دھاندلی کے ٹیکنیکل طریقے اختیار کیے، ٹھپے لگائے، پریذائیڈنگ آفیسرز کو استعمال کیا اور جیتے ہوئے امیدواروں کو ہرانے لگی۔ سعید غنی کا کہنا ہے کہ پی پی پولیٹیکل مینجمنٹ کی ایکسپرٹ ہے لہٰذا اپنی مہارت کو خوب خوب استعمال کیا۔
حافظ نعیم کا کہنا ہے کہ ہمارے امیدواروں کی فارم 11 کے مطابق کامیابی کی دستاویز موجود ہے۔ انہیں سندھ حکومت نے شکست میں تبدیل کیا۔ نتائج میں انتہائی تاخیر کی گئی، ہماری جیت کو جیت تسلیم کیا جائے، نتائج کے فارم 11 کے مطابق ہم کراچی کی نمبر ون پارٹی ہیں اور اس کو تسلیم کیا جانا چاہیے، ہم الیکشن کمیشن بھی جائیں گے اور عدالت بھی جائیں گے۔ ویسے یہ بھی کمال ہے سندھ کے الیکشن کمیشن کی سست رفتاری کا ریکارڈ ہے کہ چھتیس گھنٹوں کے بعد بھی یوں نتائج نہیں دیے گئے، جب کہ ٹرن آئوٹ کے حساب سے ایک یوسی میں سو سے ڈیڑھ سو تک ہی ووٹ شمار کرنے تھے۔ اتنی تنگی کرنے میں کتنی دیر لگتی ہے۔ اس طرح نتائج کو چھتیس گھنٹوں تک روک کر رکھنا ہی دھاندلی کو ظاہر کرتا ہے۔ جماعت اسلامی اس بات کو زیادہ صاف انداز میں چیلنج کررہی ہے کہ آر او آفس سے جاری ہونے والے نتائج فارم 11 اور 12 کے مطابق نہیں ہیں۔ ان میں تبدیلی کے ذریعے جماعت اسلامی کے امیدواروں کو ہرایا گیا ہے۔ بعض جگہ 6 یا 8 ووٹوں سے ہرایا گیا ہے۔ یعنی پولیس کی سرپرستی پریذائیڈنگ آفیسر کو ساتھ ملا کر بھی ٹھپے لگائے گئے لیکن حال یہ ہے کہ ساری جعل سازی سوشل میڈیا سے کھل گئی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ سندھ میں جمہوریت کے نام پر ڈکٹیٹر شپ نافذ ہے، پیپلز پارٹی سندھ کے وسائل پر قابض ہے، عوام کو اس کا حق دینے پر آمادہ نہیں، وسائل چوری کرتے کرتے وہ ہر چیز چوری کرنے کی عادی ہوگئی ہے۔ آج وہ بلدیہ کے انتخابات میں دھاندلی کرکے پیپلز پارٹی اپنا میئر لانے کے لیے کوشاں ہے لیکن اس میں اسے ناکامی ہوگی۔
جماعت اسلامی نے اپنے لیے ہر طرح کے آپشن کھلے رکھے ہیں، توجہ اس پر ہے کہ اپنی جیتی ہوئی نشستیں پیپلز پارٹی سے بازیاب کرائیں، اس میں انہیں کامیابی بھی ہوئی ہے، اب تک 3 نشستیں جماعت اسلامی کو واپس ملی ہیں جس میں ان کے امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ لیکن ابھی ان 9 نشستوں کا فیصلہ باقی ہے جس میں جماعت اسلامی جیتی ہے اور اس کا مکمل نتیجہ ان کے پاس ہے۔ لاہور میں جماعت اسلامی کے اجلاس میں صورت حال پر غور کی گئی متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ پیپلز پارٹی سمیت سب سے بات ہوگی لیکن پہلے جیتی ہوئی سیٹـوں کا فیصلہ حق کے ساتھ ہو۔ یعنی الیکشن کمیشن دستاویزات کو دیکھے اور عوام کے ووٹوں کی چوری نہ ہونے دے۔ ورنہ ان کے خلاف عدالت جانے کا آپشن بھی موجود ہے۔ اس وقت سندھ حکومت کی اس دھاندلی کے خلاف پورے ملک میں احتجاج جاری ہے، کارکنان جماعت بازبانِ حال کہہ رہے ہیں کہ
ہم سربکف اُٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو انہیں جو لشکر باطل کے ساتھ ہیں