ہندوستان میں آج بھی زمانہ ٔ جاہلیت سے بھی بدترین ذات پات کے نظام کا راج ہے، چھوٹی ذاتوں سے تعلق رکھنے والے کروڑوں انسان شدید مشکلات کا شکار ہیں، چند فی صد برہمنوں نے پورے ہندوستان پر قبضہ کیا ہوا ہے، ہندوستان کے اندر چھوٹی ذات سے تعلق رکھنے والوں کو بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں، سول سروس میں اہم عہدوں پر برہمن، فوج کے اہم عہدوں پر برہمن، لوک سبھا میں برہمن، عدالتوں میں برہمن، پولیس میں برہمن دیگر اہم جگہوں پر برہمن، ہندوستان میں اپنے ہی مذہب سے تعلق رکھنے والے دیگر لوگوں کے ساتھ یہ سلوک برہمن روارکھے ہوئے ہیں دیگر مذاہب کے لوگوں کے ساتھ تو اول روز سے برہمنوں کی کھلی دشمنی چلی آرہی ہے۔ برہمنوں نے انگریزوں کے دور میں بھی ان سے ساز باز کرکے عہدے حاصل کیے اور چھوٹی ذاتوں کو اقتدار کے قریب نہیں آنے دیا۔ محرومیوں اور مایوسیوں کی گہری کھائی میں گرتا دیکھ کر چھوٹی ذاتوں اور ریاستوں نے علم بغاوت بلند کیا اور ان کے خلاف ہتھیار اٹھائے ہوئے ہیں۔ اقتدارکو اپنی ذاتی جاگیر باقیوں کو صرف خدمت گزاری کے قابل سمجھنے والے برہمن طاقت کی بنیادپر ان تحریکوں کو کچلنے کی سازش کررہے ہیں جو ان کے لیے اور خطرناک بنتی جارہی ہیں۔
ہندوستان کا سماج پہلے ہی آگ میں جل رہا تھا اوپر سے نریندر مودی نے جلتی پر تیل ڈال دیا، نریندر مودی نے ہندوتوا اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کو سرکاری سرپرستی میں آگے بڑھانے کا اعلان کردیا اور کہا کہ ہندوستان کے اندر تمام اقلیتوں کو زبردستی ہندو بنایا جائے گا اور ہندوستان کے اندر تمام مساجد، عیسائیوں کے مقدس مقامات سمیت تمام مذاہب کے مقدس مقامات کو گراکر ان کی جگہ مندر تعمیر کیے جائیںگے۔ اس علان نے ہندوستان کو گرم توا بنادیا ہے۔
ہندوستان میں گئی ریاستیں ایسی ہیں جن پر ہندوستان نے تقسیم کے فوری بعد جبری فوجی قبضہ کرکے انہیں ’’انڈین یونین‘‘ میں ضم کیا اور پھر ان ریاستوں میں ہندوتوا نظریے اور آر ایس ایس کے ایجنڈے کے مطابق اپنی تہذیب، کلچر، ماحول، تمدن، سوچ و فکر، لٹریچر اور آرٹ و زبان کا نفاذ کرنا چاہا جب کہ ان ریاستوں کی اپنی ایک تہذیب ہے، ثقافت ہے، ادب ہے اور زبان و طرزِ معاشرت ہے۔ وہ انتہا پسند ہندوئوں کے ان رویوں سے سخت نالاں ہیں، ہند، ہندی، ہندوستان کے نظریے کے مطابق ہر کسی کو ہندو بنانے کے لیے طاقت کا استعمال کیا گیا اور کیا جارہا ہے۔ جس نے ہندوستان کو بارود کے ڈھیر پر لاکھڑا کیا ہے۔ 47ء میں برصغیر کی تقسیم کے بعد ہندوستان پر برسر اقتدار آنے والی قیادت اور سرکار نے وہی سلوک روا رکھا جس سے وہ ڈر رہے تھے اور اس سلوک کی وجہ سے ان ریاستوں کے اندر لاوا پکتا رہا ہے اور حالات کے جبر سے مجبور ہوکر وہاں کے غیور لوگوں نے ہتھیار اٹھالیے اور آج تک وہ ہندوستان کے خلاف لڑرہے ہیں اور ان انہوں نے عہد کیا ہے کہ وہ اپنی آزادی تک لڑتے رہے ہیںگے۔
نریندر مودی کے متعصبانہ اقدامات واعلانات کی وجہ سے ہندوستان پہلے ہی گرم توا بنا ہوا تھا ساتھ بی جے پی کے سینئر رہنما نے بنیؐ کی شان میں گستاخی کرکے ایک اور نیا محاذ کھول دیا۔ نبیؐ کی شان میں گستاخی پر سوا ارب مسلمانوں سراپا احتجاج بنے ہوئے تھے خاص کر عرب ممالک میں اس کا شدید ردعمل ہوا اور عرب ممالک اور دیگر اسلامی ممالک میں ہندوستان کی ایشیا کے بائیکاٹ کی مہم چلائی گئی جس سے ہندوستان کی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان ہوا۔
ہندوستان کے ناروا روئیے کی وجہ سے تامل علٰیحدگی پسند تحریک اور سکھوں کی ’’اکالی دل‘‘ اور ’’خالصتان‘‘ نامی تحریکیں ہندوستان کو سبق سیکھا رہی ہیں۔ خالصتان تحریک کو دبانے کے لیے ہندوستانی فوج کے مظالم دنیا کو حیرت میں ڈال دیتے ہیں سکھوں کی آبادیوں پر ٹینک چڑھا دیے گئے‘ خالصتان تحریک کے رہنماؤں کے گھروں اور دفتروں پر چھاپے مارے گئے، انہیں پابند سلاسل کیا گیا، ان کا قتل عام کیا گیا اور آخر کار سکھوں کے مقدس ترین مقام گولڈن ٹیمپل کو مسمار کر دیا گیا‘ اگرچہ ہندوستان یہ دعویٰ کررہا ہے کہ اس نے قتل عام کرکے خالصتان کی تحریک کو دبا دیا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے آزاد خالصتان کا نظریہ آج بھی زندہ ہے ان کی جلاوطن حکومت قائم ہے اس کے باقاعدہ اجلاس ہوتے ہیں، مزاحمت جاری ہے اور لاوپک رہا ہے، یہ تحریک کسی بھی وقت شعلہ جوالہ بن کر تخت ِ دلی کو ہلا سکتی ہے۔
ہندوستان میں 70کے قریب علٰیحدگی پسند تحریکیں اٹھ کھڑی ہوئیں۔ ان تحریکوں کے پیچھے وہ مظالم اور انسان کش پالیسیاں ہیں جو ہندوستان جاری رکھے ہوئے ہے، ریاستی تنگ نظری‘ فکری گراوٹ‘ بے حسی اور متعصبانہ رویوں کی وجہ سے ہندوستان انجام کی طرف گامزن ہے۔ ہندوستان کے اپنے میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق صرف آسام میں 34باغی تنظیمیں کام کر رہی ہیں جو ملک کے 162 اضلاع پر مکمل کنٹرول رکھتی ہیں۔ شمال مشرقی ہندوستان کی سیون سسٹرز (سات بہنیں) کہلا نے والی سات ریاستیں آسام، تریپورہ، ہماچل پردیش، میزورام، منی پور، میگھالیہ اور ناگالینڈ باغی تحریکوں کا مرکز ہیں۔ اس کے علاوہ بہار، جھاڑ کھنڈ، چھتیس گڑھ، مغربی بنگال، اڑیسہ، مدھیا پردیش، مہاراشٹر اور آندھرا پردیش میں بھی علٰیحدگی پسند گروپ سرگرم ہیں لیکن ناگالینڈ کے ناگا باغی اور نکسل باڑیوں کی تحریک بھارتی وجود کے لیے حقیقی خطرہ بن چکی ہے۔ یہ علٰیحدگی پسند تنظیمیں جن میں زیادہ تر مسلح تنظیمیں ہیں، ہندوستان کے ساتھ کسی قیمت پر رہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
نکسل تحریک مغربی بنگال کے ایک گاؤں نکسل باڑی سے شروع ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک بڑے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ چونکہ یہ باغی چین کے عظیم انقلابی رہنما ماؤزے تنگ کے نظریات سے متاثر ہیں اس لیے انہیں ماؤسٹ یا ماؤ باغی بھی کہا جاتا ہے۔ اب تک ہزاروں ماؤ باغی‘ عام شہری اور بھارتی سیکورٹی فورسز کے اہلکار اس تحریک کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں اور ایک رپورٹ کے مطابق ہندوستان کے ہزاروں فوجی مارے جا چکے ہیں ان کو کچلنے کے لیےGreen Hunt کے نام سے آپریشن شروع کیا گیا جو ناکامی سے دوچار ہوا اور ماؤ بغاوت کو ختم نہ کیا جا سکا۔ ایک بھارتی ادارے ’’انسٹی ٹیوٹ آف کونفیلکٹ مینجمنٹ‘‘ سمیت دیگر اداروں اور تجزیہ کاروں کے مطابق ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں میں ماؤ باغی اپنی قوت بڑھانے میں کامیاب ہوئے ہیں اور وہ خود کو مزید طاقتور بنانے کے لیے جہاں شمال مشرقی ریاستوں میں کئی علٰیحدگی پسند تنظیموں کو اپنے ساتھ ملا رہے ہیں وہیں پورے ملک کے آزادی پسندوں کے ساتھ بھی تعاون کر کے اپنا دائرہ اثر وسیع کررہے ہیں۔ 70کے قریب ان علٰیحدگی پسند تحریکوں میں مندرجہ ذیل زیادہ منظم سمجھی جاتی ہیں۔
ریاست آسام میں یونائٹیڈ لبریشن فرنٹ، نیشنل ڈیموکریٹک فرنٹ برچھا کمانڈوز، یونائیٹڈ لبریشن ملیشیا، مسلم ٹائیگر فورس، آدم سینا، گورکھا ٹائیگر فورس اور پیپلز یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ قابل ذکر ہیں۔ پنجاب میں ببر خالصہ انٹر نیشنل، خالصتان زندہ باد فورس، خالصتان کمانڈوز، بھنڈرانوالہ ٹائیگرز، خالصتان لبریشن فرنٹ، خالصتان نیشنل آرمی اور ریاست منی پور میں پیپلز لبریشن آرمی، منی پور لبریشن ٹائیگر فورس، نیشنل ایسٹ مائنارٹی فرنٹ، کوکی نیشنل آرمی، کوکی ڈیفنس فورس اور ناگالینڈ میں نیشنل سوشلسٹ کونسل اور تری پورہ میں آل تری پورہ ٹائیگر فوس، تری پورہ آرمڈ ٹرائبل والنٹیئر فورس، تری پورہ مکتی کمانڈوز، بنگالی رجمنٹ اور میز و رام میں پروفیشنل لبریشن فرنٹ سمیت کئی تنظیمیں ہندوستان پر قابض برہمنوں کو سبق سیکھا رہی ہیں آسام میں آزادی تحریک کی بنیاد ’’یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف آسام‘‘ نے ڈالی اور مسلح جدو جہد کا راستہ اختیار کیا جبکہ بعد میں مزید علٰیحدگی پسند جماعتیں بھی سامنے آئیں۔
ریاست تری پورہ میں ’’نیشنل لبریشن فرنٹ آف تری پورہ‘‘ کے نام سے ایک تحریک چل رہی ہے جو ایک مضبوط عسکریت پسند گروہ سمجھا جاتا ہے۔ علاوہ ازیں آل تری پورہ ٹائیگر فورس بھی قابل ذکر تحریک ہے۔ میگھالیہ ریاست میں علاقائی خود مختاری کے حصول کے لیے سرگرم عمل ’’نیشنل لبریشن کونسل‘‘ کام کر رہی ہے اور اسی طرح ایسٹ انڈیا لبریشن فرنٹ ریاست اروناچل پردیش میں بھارتی تسلط کے خلاف نبرد آزما ہے۔
ہندوستان نے اپنے حق کے لیے لڑنے والی تنظیموں کو کچلنے کے لیے کالے قانین بناکر نافذ کیے جس کا مقصد فوج کو خصوصی اور لامحدود اختیارات دے کر علٰیحدگی پسند رجحانات کو دبانا تھا۔ اس کے تحت ایک عام سپاہی کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ کسی بھی شخص کو غدار قرار دے کر اسے قتل کر سکتا ہے۔ اس قانون کا بھیانک انداز میں استعمال کیا گیا، منی پورہ، آسام ودیگر ریاستوں میں نہ صرف علٰیحدگی پسندوں بلکہ عام شہریوں کے خون سے بھی ہولی کھیلی گئی‘ بے دریغ قتل عام ہوا‘ املاک جلائی گئیں‘ خواتین کی آبرو ریزی کی گئی‘ غرض بھارتی فوج نے اس کالے قانون کی آڑ میں ہر جائز و ناجائز ذریعہ اور ظلم و جبر کے تمام حربے استعمال کرڈالے‘ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ علٰیحدگی پسند تحریکوں میں مزید تیزی آتی گئی اور ان کی تعداد میں اضافہ ہوا۔ اس قانون کے تحت فورسز شتر بے مہار ہو گئیں اور وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہ رہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیمیں اس قانون پر کڑی نکتہ چینی کرتی ہیں اور اس کے خاتمے کے لیے آواز بلند کرتی آئی ہیں۔
ہندوستان میں ان ریاستوں میں اس لیے بھی علٰیحدگی کے رجحانات پائے جاتے ہیں کیونکہ ایک تو انہیں ان کی مرضی کے خلاف ’’انڈین یونین‘‘ کا حصہ بنایا گیا تھا اور پھر بجائے بنیاد ی حقوق فراہم کر نے ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ ان کی تہذیب و تمدن، شناخت اور زبان تک ختم کرنے کی کوششیں کی گئیں اور آخر کار ان ریاستوں کے باشندے بغاوت کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے۔
ہندوستان کے اندرونی حالات بتارہے ہیں کہ ہندوستان کا وجود خطرے میں ہے، کوئی بھی ملک اور معاشرہ کفر پر قائم رہتا ہے مگر ظلم پر قائم نہیں رہ سکتا، ہندوستان کے مظالم کی طویل فہرست ہے ہندوستان کے اپنے عوام بھی ہندوستان کے دستبرد سے محفوظ نہیں رہ سکے جو مجبور ہوکر آزادی کے لیے سرگرم ہیں۔ نریندر مودی کی سرکاری سرپرستی میں ہندو معاشرہ انتہا پسندی کی انتہا کو چھو رہا ہے، فاشسٹ مودی اور ا س کی حکومت نازی ازم کی راہ پر گامزن ہے، ہندوستان کے اندر ہندوئوں میں نفرت کی آگ لگائی جارہی ہے اب ہندوستان کے اندرکوئی بھی فرد اپنے آپ کو محفوظ خیال نہیں کررہا ہے۔
ان ابتر حالات کے پیش نظر بیرونی ممالک کے سرمایہ کار ہندوستان میں سرمایہ کاری کرنے سے اجتناب ہی برت رہے ہیں، نبی ؐ کی شان میں گستاخی کے باعث درجنوں کمپنیوں نے ہندوستان چھوڑ دیا ہے، ان کمپنیوں میں غیر مسلم عیسائیوں کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ مودی حالات کو جس ڈگر پر لے کرجارہے ہیں کسی بھی وقت جنوبی ایشیا ایٹمی جنگ کی لپیٹ میں آجائے گا ایسے میں کون ہے جو ہندوستان میں سرمایہ کاری کرکے اپنے سرمائے کو ڈبوئے گا۔ ہندوستان کی مارکیٹ ختم ہوچکی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بہتر ہوگا کہ ہندوستان کی مارکیٹ لنڈا بازار میں بدل چکی ہے۔ ہندوستان کا معاشرہ خانہ جنگی کی دھانے پر ہے۔ مودی اور بی جے پی کی حکومت میں ہندوستان انجام کو پہنچ جائے گا۔