چند دن پہلے سوشل میڈیا پر دو تصویریں نظر سے گزریں۔ پہلی تصویر میں کسی قحط زدہ علاقے کا بچہ جس کی عمر بمشکل چار یا پانچ سال تک معلوم ہو رہی ہے۔ بالکل ننگ دھڑنگ اتنا کمزور کہ جسم کی کھال ہڈیوں کا پنجر چھپانے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ بچے کو چھوٹا سا کپڑا بچھا کر زمین پر لٹایا گیا ہے۔ اس کے ہاتھ پر بندھی سفید پٹی اس بات کا اشارہ دے رہی ہے کہ اسپتال میں لیٹا ہوا ہے اور اس بیمار بچے کے لیے اسپتال میں کوئی بستر خالی نہیں۔ دیکھیں! یہ بچہ کوئی عام بچہ نہیں، یہ وہ بچہ ہے جسے بہانہ بنا کر، جس کے نام پر ہمارے حکمران دوسروں سے قرضہ یا امداد لیتے ہیں۔ اس تصویر کے ساتھ ہی ایک اور تصویر بھی ہے جس میں ایک نوجوان جس کا تر وتازہ چہرہ اس بات کا اعلان کر رہا ہے کہ یہ خوب فراغت اور خوش خوراکی میں پلا ہوا نوجوان ہے۔ نوجوان مہنگا لباس اور چشمہ زیب تن کیے ہوئے ہے۔ یہ نوجوان لیمو نسل کی مہنگی ترین گاڑی پر بیٹھا ہوا ہے۔ یہ باہر کی گاڑی آپ لوگوں کو اسلام آباد کی سڑکوں پر بھی خال خال ہی نظر آئے گی۔ یہ نوجوان بھی کوئی عام نوجوان نہیں۔ یہ پاکستان کے نام پر قرضہ مانگنے والے وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا بیٹا ہے۔ ان دو تصاویر میں جو تضاد ہے یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پاکستانی عوام کے ہر فرد نے ہوش سنبھالنے کے بعد ملک میں یہی تماشے دیکھے ہوں گے بلکہ یوں کہیں کہ ہم تو ایسی صورت حال دیکھنے کے پکے، سچے عادی ہو چکے ہیں۔ جیسے حال ہی میں میرپورخاص میں ایک درد ناک واقعہ پیش آیا جب ایک غریب آدمی حکومت کی جانب سے دیے جانے والا سستا آٹا لینے پہنچ گیا۔ وہاں رش اور بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔ یہ بیچارا تو اس دھکم پیل میں اپنے آپ کو سنبھال نہ سکا اور لوگوں کے قدموں تلے کچلا گیا۔ سستا آٹا لینے آیا لیکن جان گنوا بیٹھا۔ اس سے بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ متوفی 6 بچوں کا باپ تھا اور بڑی بیٹی کی گھر میں شادی تھی۔ اب چھے یتیم بچے اپنے غریب باپ کا لہو کس کے ہاتھ پر تلاش کریں گے؟ شادی والے گھر میں غم کا کیا عالم ہوگا؟
عوام کو سستے آٹے کا لولی پاپ دینے والے سنگ دل بااختیار کیا جانیں یہ الم و غم۔ اب مذکورہ دو تصویروں کی حقیقت اور میرپورخاص کا متوفی ہمارے ملکی نظام کی اصل خرابی کی طرف متوجہ ہونے اور اس پر غور وفکر کرنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس خراب نظام کی وجہ میں بااختیار و باقتدار طبقہ اور عوام الناس، دونوں قصوروار ہیں۔ بچپن سے کتابوں میں پڑھتے آئے ہیں کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے۔ یہ ملک 70 فی صد زرخیز رقبے کا مالک ہے لیکن اب کیا دیکھ رہے ہیں کہ یہ زرعی زرخیز ملک خوراک کے ایک بنیادی جز گندم میں بھی خود کفیل نہیں۔ ملک میں آٹے کے نرخ دنوں میں آسمانوں کو چھوئے ہیں۔ اس میں قصور وار کسی حد تک ذخیرہ اندوز بھی ہیں لیکن اصل خرابی ہمارے ملک کی نااہل قیادت ہے۔ سب سے پہلے تو زرخیز زمینوں کو ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں بدلنے کی اجازت ہی کیوں دی جاتی ہے کیونکہ سوسائٹی کی بنیاد رکھنے والے بزنس ٹائیکون انہیں بھی خوب نوازتے ہیں اور یہ اپنے تھوڑے سے فائدے کی خاطر ملک کا نفع و نقصان بھول جاتے ہیں۔ آپ موٹروے پر سفر کرکے دیکھ لیں۔ لاہور سے اسلام آباد تک کی زمین ملک کی بہترین زرعی زمین ہے لیکن یہ جا بجا رہائشی سوسائٹیوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ بلکہ اب تو یہ کالونیاں بنانے کا ایسا رواج چل پڑا ہے کہ جس کے پاس چھے سات ایکڑ بھی زرعی زمین ہے وہ اسے کالونی کا ٹیگ لگا کر، اس کے پلاٹ بنا کر، اصل قیمت سے کئی گنا زیادہ قیمت پر بیچ رہا ہے۔ یہ شخص اپنی جیب تو پیسوں سے بھرلے گا لیکن اسے یہ اندازہ بھی نہیں کہ وہ ملک کا کتنا نقصان کر رہا ہے۔ کیا ایک زرعی ملک کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ ایک سال میں کم از کم 10 ارب ڈالر کی چینی، گندم، کاٹن اور دالیں باہر سے منگوائے اور وہ بھی ڈالر اس کے اپنے خزانے کے نہ ہوں بلکہ قرضہ لے کر۔ اب گندم کا معاملہ ہی دیکھ لیں۔ سابقہ حکومت نے اپنی ناکام پالیسی کے تحت گندم افغانستان کو بھیج دی اور اپنے ملک کی ضرورت کا خیال نہ کیا۔ جب ملک میں گندم کی قلت بڑھنے لگی تو انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا لیکن غلطی تسلیم کیے بغیر فوراً روس سے 40 لاکھ ٹن گندم منگوانے کا فیصلہ کیا اور اب موجودہ وزیراعظم شہباز شریف نے 20 لاکھ ٹن گندم روس سے منگوائی ہے۔ یعنی صرف دو سال میں ہم روس سے ساٹھ لاکھ ٹن گندم خرید چکے ہیں اور ادائیگی بھی قرض لے کر کی ہے۔ یہ ہے ہمارے سیاستدانوں کی اعلیٰ ذہانت اور ان کے ماتحت اداروں کی قابلیت کہ وہ اپنے کسان کو تو زرعی ادویات، زرعی آلات، کھادوں پر سبسڈی شاید نہ دے سکیں، ان سے ان کی فصل مناسب قیمت پر نہ خرید سکیں لیکن قرض کی رقم سے دوسرے ملک سے مہنگے داموں گندم بھی خریدی اور بعد میں اس پر سبسڈی بھی دی اور اس سے بھی بڑھ کر شرم کی بات یہ ہے کہ روس جس کے سامنے مہنگے داموں گندم خریدنے کے لیے ہم ہاتھ پھیلائے بیٹھے ہیں کیا ان کی زمینیں پاکستان کی زمینوں سے زیادہ زرخیز ہیں؟
سیاست دان و حکمران، اسٹیبلشمنٹ و بیوروکریسی، اور عوام الناس، پاکستان کی موجودہ حالت کے ہم سب مجرم ہیں۔ ہم سب اپنی اپنی ذات کے خول میں ایسے قید ہیں کہ ملک کے بارے میں کبھی سوچا ہی نہیں۔ جتنا ہم اپنی ذات کے فائدے کے بارے میں سوچتے ہیں، ملک کے بارے میں اس کا دسواں حصہ بھی سوچا ہوتا تو آج نہ تو ہڈیوں کا پنجر قحط زدہ بچہ علاج سے بھی محروم پڑا ہوتا، سستا آٹا حاصل کرنے کی پاداش میں شادی والا گھر ماتم کدہ نہ بنا ہوتا اور چھے یتیم بچے باپ کی میت کے گرد بیٹھ کر بلک نہ رہے ہوتے۔ دوسری طرف وزیر خزانہ کا بیٹا مہنگی ترین گاڑی میں بیٹھ کر ان سب کا منہ نہ چڑا رہا ہوتا۔