کوئی اگر یہ سمجھتا ہے کہ اُسی کے حصے میں پریشانیاں لکھی ہیں تو ایسی سوچ کو محض سادہ لوحی یا حماقت سے تعبیر کیا جائے گا۔ کیا آپ نے غور نہیں کیا کہ عمومی سطح پر ہر انسان یہ سمجھتا ہے کہ جس نوعیت کے حالات کا اُسے سامنا ہے وہ کسی اور کے حصے میں نہیں۔ سب کو اپنی مشکل دنیا کی سب سے بڑے مشکل دکھائی دیتی ہے۔ ایسا ہے نہیں۔ مشکلات سب کے لیے ہوتی ہیں۔ مسائل سبھی کے حصے میں آتے ہیں اور انہیں حل کیے بغیر چارہ بھی نہیں ہوتا۔
ہمیشہ خوشیوں کا حصول کسی کے لیے کبھی ممکن نہیں ہوتا۔ وقت کسی کے لیے بھی ہمیشہ ایک سا نہیں رہتا۔ یہ تو ممکن ہے کہ کسی کی مالی حیثیت غیر معمولی ہو اور وہ مالی سطح پر زیادہ پریشانی کا سامنا کرنے پر مجبور نہ ہو مگر کوئی نہ کوئی پیچیدگی تو بہرحال پیدا ہوتی ہی رہتی ہے۔ کبھی خوشی کبھی غم ہی زندگی کا بنیادی اصول اور وتیرہ ہے۔ کبھی کبھی کوئی پریشانی اتنی شدید ہوتی ہے کہ ہم الجھ کر رہ جاتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ اب اس سے نجات پانے کی کوئی صورت نکلے ہی گی نہیں۔
مشکلات جب بڑھتی ہیں تو ہمیں کمزور اور منفی سوچ کا حامل بنانے لگتی ہیں۔ مثبت سوچ ہم سے دامن چھڑانے لگتی ہے۔ جب ایسا ہوتا ہے تب ہم عموماً منفی سوچ کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں اور مسائل کے حل کے بارے میں سوچنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ہمارے تمام مسائل کا حل ہمارے اپنے ذہن میں ہوتا ہے مگر ہم اس طرف جاتے ہی نہیں اور اپنی کامیابی کو خود ہی روکے رہتے ہیں۔
کسی بھی مشکل وقت یا مشکل صورتِ ھال کا سامنا کرنا کسی بھی مرحلے میں ناممکن نہیں ہوتا مگر یہ راتوں رات اور بہت آسانی سے نہیں ہوتا۔ اس کے لیے سوچ کو بھی بدلنا پڑتا ہے اور حکمتِ عملی بھی حالات کے مطابق ترتیب دینا پڑتی ہے۔ مشکلات کا سامنا کرنا بھی انسانی مزاج ہی کا حصہ ہے۔ ہم اپنے مزاج میں صرف آسان معاملات کو قبول کرتے ہیں اور مشکل معاملات سے گھبراکر ایک طرف ہٹ جاتے ہیں۔
کسی بھی پریشان کن صورتِ حال میں گھبرا جانا فطری امر ہے۔ یہ ابتدائی ردعمل کا معاملہ ہے۔ انسان جب کسی معاملے کو اچانک اپنے سامنے پاتا ہے تو گھبرا جاتا ہے۔ یہ فطری ضرور ہے، ناگزیر ہرگز نہیں۔ کوئی بھی مشکل اس لیے نہیں ہوتی کہ اس سے گھبراکر ایک طرف بیٹھا جائے بلکہ اصولی طور پر اس سے نجات پانے کی کوشش کی جانی چاہیے۔ نجات پانے کا مطلب بھی اسے ایک طرف پھینکنا نہیں بلکہ حل تلاش کرنا ہے۔
کوئی بھی پریشان کن صورتِ حال اصلاً آزمائش کی ایک شکل ہوتی ہے۔ کوئی بھی مسئلہ جب شدت اختیار کرتا ہے تو اپنے حل کے لیے ہمیں فکر و عمل کی تحریک دیتا ہے۔ یہ مشکلات ہی تو ہیں جو ہمیں کبھی کبھی حیران کردیتی ہیں کیونکہ اُن سے نپٹنے کے لیے ہمیں جو کچھ کرنا پڑتا ہے وہ خود ہمارے علم میں بھی نہیں ہوتا! مسائل کو حل کرنے کی کوشش ہمیں ہماری اپنی صلاحیتوں سے متعارف کراتی ہیں۔ آئیے، ذرا جائزہ تو لیں کہ ہم کسی بھی مشکل صورتِ حال کا سامناکس کس طرح کرسکتے ہیں۔
- اپنے آپ کو مثبت سوچ سے ہم کنار رکھ کر
کسی بھی پریشانی سے بہ طریقِ احسن نپٹنے کا ایک اچھا حل تو یہ ہے کہ آپ اپنی سوچ مثبت رکھیں۔ ایسے میں ڈھنگ سے کام کرنا ممکن ہو پاتا ہے۔ منفی سوچ انسان کو امکانات سے دور کردیتی ہے۔ مثبت سوچ امکانات کے بارے میں سوچنا سکھاتی ہے، حل کی طرف بڑھنے کی تحریک دیتی ہے۔ مثبت سوچ یعنی امکانات اور متبادل انتظامات کے بارے میں سوچنا۔
- اپنے وجود پر مکمل بھروسا کرکے
بھروسا کسی پربھی کیا جاسکتا ہے اور نہیں بھی کیا جاسکتا۔ اپنے وجود کا معاملہ سب سے مختلف ہے۔ اپنے وجود پر بھروسا کرنا ہی کرنا ہے۔ آپ اپنے وجود کو کمزور جان کر، اُس پر بھروسا نہ کرکے آگے بڑھ ہی نہیں سکتے۔ کسی بھی مشکل کے تدارک اور کامیابی کے یقینی بنانے کے لیے ناگزیر ہے کہ انسان کسی اور سے بڑھ کر اپنے وجود پر، اپنی صلاحیت و سکت اور مہارت پر یقین رکھے۔
- ہدف پر توجہ مرکوز رکھ کر
کسی بھی مشکل صورتِ حال کا بروقت تدارک یقینی بنانے کے لیے ہدف پر توجہ مرکوز رکھنا لازم ہوتا ہے۔ انسان جو کچھ کرنا چاہتا ہے وہ اس کے ذہن میں ہر وقت تازہ رہنا چاہیے۔ ہدف پر نظر رہنی چاہیے تاکہ اس کے لیے مطلوب محنت کرنے سے جی نہ اکتائے۔ جو لوگ اپنے ہدف پر نظر رکھتے ہیں وہ کسی بھی مشکل کو اپنے حواس پر سوار نہیں ہونے دیتے۔ ایسے میں کام کرنے کا لطف بھی آتا ہے اور کام ڈھنگ سے مکمل بھی ہوتا ہے۔
- کامیاب افراد سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر
ہر کامیاب انسان دوسروں کے لیے سبق کی طرح ہوتا ہے۔ وہ اپنی کامیابی کی کہانی سناکر بہت سوں کو بہت کچھ کرنے کی تحریک دیتا ہے۔ کامیابی راتوں رات ملتی ہے نہ محنت کے بغیر۔ انسان بہت کچھ سیکھتا ہے اور محنت و مشقت کے مرحلے سے گزرتا ہے تب کامیاب ہو پاتا ہے۔ اور پھر کامیابی کو برقرار رکھنا؟ یہ گویا کامیابی کے حصول سے بھی بڑا کام ہوا۔ اگر آپ اپنی مشکلات کو دور کرنے کی حقیقی تحریک پانا چاہتے ہیں تو کامیاب افراد کے بارے میں زیادہ سے زیادہ پڑھیے اور جاننے کی کوشش کیجیے کہ انہوں نے اپنی مشکلات پر کیونکر قابو پایا۔
- خوفزدہ رہنے کی ذہنیت ترک کرکے
کسی بھی مشکل صورتِ حال سے خوفزدہ رہنا ہمارے لیے زیادہ پریشان کن ثابت ہوتا ہے۔ کوئی بھی مشکل اس لیے نہیں ہوتی کہ اس سے ڈر کر عزم و عمل کی راہ ترک کردی جائے بلکہ اصلاً معاملہ یہ ہے کہ مشکلات ہی انسان کو بہادری سے آگے بڑھنے کا سلیقہ سکھاتی ہیں۔ ضرورت صرف اس بات کی ہے کہ انسان منفی سوچ کو ترک کرتے ہوئے مشکل کا حل تلاش کرنے پر متوجہ ہو۔ محض خوفزدہ ہو رہنے سے مسائل کبھی حل نہیں ہوتے۔
- زمینی حقیقتوں کو تسلیم اور قبول کرکے
کسی بھی زمینی حقیقت کو تسلیم نہ کرنے ہماری کوئی مشکل ختم نہیں ہو جاتی۔ ہر حقیقت کو تسلیم اور قبول کرنے ہی سے کچھ کرنے کا حوصلہ اور شعور عطا ہوتا ہے۔ خیال و خواب کی دنیا میں رہتے ہوئے کسی نے کبھی کچھ نہیں پایا۔ ذہن کے پردے پر جو کچھ ابھرتا ہے وہ محض گمان ہوتا ہے۔ اگر گمان زمینی حقیقت سے ذرا بھی میل نہ کھائے تو اس کے پیچھے چل پڑنا محض خسارے کا سودا ہوتا ہے۔ ڈھنگ سے جینے کے لیے ہر حقیقت کو تسلیم اور قبول کرنے کے بعد ہی اپنے لیے جامع حکمتِ عملی طے کی جاسکتی ہے اور مشکلات پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ کسی بھی حقیقت کو جھٹلانے یا نظر انداز کرنے میں نقصان ہمارا ہی ہے۔
***