چاچا اللہ بخش سدھایو میرے محلہ دار ہیں۔ ماضی میں ایک نجی بینک میں چپراسی تھے۔ جہاں سے انہیں ہر ماہ گزارے لائق پنشن مل جاتی ہے۔ گھر میں فارغ رہا کرتے تھے۔ اس لیے ایک پُرانا سا رکشا خرید کر دن بھر اس میں سواریاں ڈھونڈتے رہتے ہیں۔ انہیں اخبارات پڑھنے کا بھی چسکا لاحق ہے، اس لیے ہر روز محلہ کے گیسو تراش (حجام) منظور عرف منوں کی دکان پر صبح سویرے آنے والے دو تین سندھی اخبارات کا باآواز بلند مطالعہ کرتے ہیں۔ عمر 60 اور 70 برس درمیان ہونے کے باوجود ماشاء اللہ تاحال بغیر عینک لگائے اخبار پڑھتے ہیں، منظور عرف منوں ان کی زبانی جتنی خبریں سنتا ہے بعد میں اپنے ہاں آنے والے گاہکوں کو وہی خبریں دن بھر اپنی طرف سے ان میں نمک مرچ لگا کر سناتا رہتا ہے اور یوں ان پر دنیا کے حالات سے باخبر ہونے کا اپنا رعب جھاڑتا رہتا ہے۔ مجھے منوں کو یوں کرتا دیکھ کر معروف افسانہ نگار سعادت حسن منٹوں کے تحریر کردہ ان کے مشہور اور لافانی افسانہ ’’نیا قانون‘‘ کا کردار منگو کوچواں بے ساختہ یاد آجاتا ہے۔ وہ بھی اسی طرح سے اپنے تانگہ میں بیٹھنے والی پڑھی لکھی سواریوں کے منہ سے دنیا کے حالات کے بارے میں خبریں سن کر بعدازاں اپنے اڈے کے کوچوانوں کو سنا کر ان پر اپنی علمیت اور قابلیت کی دھونس جمایا کرتا تھا۔
آج جب میں اپنے محلہ کی کریانہ کی دکان سے گھر کی ضرورت کا کچھ سامان خریدنے گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں پہلے ہی سے چاچا سدھایو دکان دار شبیر جمالی سے کسی بات پر اُلجھ رہے ہیں۔ میرے استفسار پر چاچا بولے۔ ابھی دو دن پہلے ہی میں نے شبیر سے 5 کلو گندم کا آٹا 130 روپے فی کلو کے حساب سے خریدا تھا۔ اب خریدنا چاہتا ہوں تو یہ بہ ضد ہے کہ آٹا تو 150 روپے فی کلو ہوچکا ہے۔ بھلا یہ کیا بات ہوئی؟ صرف دو دن میں آٹا فی کلو 20 روپے اچانک مہنگا کس طرح سے ہوگیا ہے؟ دکاندار شبیر جمالی جو ایک بھلے مانس ہیں فوراً بھڑک کر بولے۔ ارے چاچا! میں بھلا تمہیں مہنگا آٹا کیوں دوں گا؟ کل مجھے آٹا جس ریٹ پر ملا ہے میں اس کی قیمت میں معمولی منافع شامل کرکے حسب معمول آج تمہیں دے رہا ہوں۔ پاس کھڑا ایک اجنبی گاہک بے ساختہ بول پڑا۔ اس آٹے کی قیمت کو تو اچانک ہی سے پَر لگ گئے ہیں۔ حکومت سندھ نے سستے آٹا کے اسٹال قائم کرنے کا جو اعلان کیا تھا۔ ان پر شروع کے دنوں میں تو آٹا 65 روپے فی کلو کے حساب سے ملتا رہا لیکن تھا وہ بھی بے حد بدبودار اور غیر معیاری، اب تو وہ بھی نہیں مل رہا ہے۔ اُلٹا ہماری پردہ دار گھر کی خواتین کو سستے آٹے کے حصول کی خاطر اسٹالز پر جا کر ہجوم میں بے پردہ ہونا پڑ رہا ہے۔ دکان پر آٹے کے لیے یوں عام افراد کو بحث کرتے دیکھ کر میں بھی بے اختیار سوچنے پر مجبور ہوگیا کہ حالاں کہ ہم ایک زرعی ملک میں رہتے ہیں اور ماضی میں ہمارے ہاں گندم اتنی زیادہ اور وافر پیدا ہوا کرتی تھی کہ ہم اسے بیرون ممالک بھی فروخت کیا کرتے تھے لیکن گزشتہ برس ہم نے 20 لاکھ ٹن گندم امپورٹ کی ہے اور امسال 30 لاکھ ٹن گندم باہر سے حکومت کی جانب سے منگوانے کا فخریہ عزم کیا جارہا ہے۔
سندھ بھر میں گندم کے آٹے کی قیمت اور اس کی قیمت میں روزافزوں اضافے کے خلاف عوامی سطح پر بغیر کسی پارٹی کی کال کے زور دار مظاہرے کیے جارہے ہیں۔ کل ہی کوٹری میں سیکڑوں مظاہرین نے بطور احتجاج نیشنل ہائی وے کو بند کر ڈالا تھا جس کی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی قطار لگ گئی لیکن وفاقی حکومت یا صوبائی حکومت کو اس حوالے ذرہ برابر فکر ہے اور نہ ہی ان سے عوام کے اضطراب اور بے چینی کو ختم کرنے کے لیے کسی سنجیدہ اقدام کی توقع ہے۔ پہلے ہی ملک کے دیوالیہ ہونے کے بارے میں افسوسناک اور ہولناک اطلاعات آئے دن سامنے آرہی ہیں۔ اس پر مستزاد انتشار اور احتجاج کی یہ حالیہ لہر مستقل کے حوالے سے مزید انہونی اور ناگفتہ بہ خدشات کو جنم دے رہی ہے۔
واقفانِ حال کے مطابق سندھ بھر میں حکومت سندھ کے گوداموں میں گندم کے لاکھوں ٹن ذخائر موجود ہیں۔ گزشتہ شدید بارشوں میں ہزارہا گندم کی بوریوں کے ضائع ہونے کی خبریں سوشل، پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا پر ثبوت کے ساتھ سامنے آچکی ہیں۔ گزشتہ برس صوبائی وزرا اور بیوروکریٹس پر مبنی ایک کمیٹی کی سفارش پر صوبائی حکومت نے ایک مخصوص طبقہ کو خوش کرنے کے لیے آئندہ آنے والی گندم کی فصل کے لیے سرکاری خریداری کا نرخ 2200 روپے فی من سے اچانک بڑھا کر 4000 روپے فی من مقرر کرنے کا جو غیر حقیقت پسندانہ اعلان کیا تھا اس پر اس وقت بھی متعلقہ حلقوں نے شدید اعتراضات وارد کیے تھے اور انہی خدشات کا ذکر کیا تھا جو اس وقت آٹے کی قلت اور اس کی مسلسل بے تحاشا بڑھتی ہوئی قیمت کی صورت میں درپیش ہے۔ جب بھی گندم کی تازہ فصل تیار ہو کر مارکیٹ میں آتی ہے سرکاری خریداری کے مراکز بند رہتے ہیں اور اب بھی میڈیا اور اخبارات کی اطلاعات ہیں کہ یہی صورت حال ہے جس کی وجہ سے کاروباری افراد مہنگے داموں پر گندم خرید کر اسے افغانستان بھیجنے میں مصروف ہیں اور تمام حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
سندھ میں ایک مرتبہ پھر آٹے کے شدید بحران نے جو سر اُٹھا رکھا ہے اس کی ساری ذمے داری وفاقی اور صوبائی حکومت کی غیر ذمے دارانہ روش پر عائد ہوتی ہے۔ شنید ہے کہ اس وقت آٹا پنجاب سے منگوا کر سندھ میں 140 روپے تا 150 روپے فی کلو فروخت کیا جارہا ہے۔ قلیل ہی نہیں بلکہ مناسب آمدنی کے حامل افراد بھی آٹے کی قلت اور آئے دن اس کی بے تحاشا بڑھتی ہوئی قیمت سے بے حد پریشان ہیں۔ عوام کو خدشہ ہے کہ اگر یہی صورت حال اور اس پر حکومت کی لاتعلقی اور بے حسی قائم رہی تو آگے چل کر آٹا نایاب ہو جائے گا اور اگر کہیں دستیاب بھی ہوگا تو قیمت فی کلو 200 روپے یا اس سے بھی زائد ہوجائے گی۔ دہاڑی دار اور مزدور طبقہ پر تو اس وجہ سے ایک طرح سے قیامت صغریٰ کی کیفیت طاری ہے۔ گزر اوقات کرنا پہلے ہی مشکل ہوگیا تھا اب اس آٹے کے بحران نے تو انہیں مزید نیم جان کر ڈالا ہے۔ ہوش اور حواس مختل ہورہے ہیں۔
گندم اور دانہ گندم کی اہمیت عیاں، ظاہر و باہر ہے، ایک سندھی محاورے کے مطابق ’’جنھن جی گھر میں دانا۔ ان جا چریا سیانا‘‘ مفہوم بالکل واضح ہے۔ سندھی زبان کے عظیم شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی اور دوسرے بڑے سندھی شاعر شیخ ایاز مرحوم نے بھی اپنی اپنی شاعری میں گندم کی اہمیت اور فوقیت کو برملا بیان کیا ہے۔ آخر میں اردو کے پہلے عوامی شاعر سید ولی محمد المعروف نظیر اکبر آبادی کی شاہکار طویل نظم ’’روٹی نامہ‘‘ کا ایک بند۔
پوچھا کسی نے یہ کسی کامل فقیر سے
یہ مہر و ماہ حق نے بنائے ہیں کاہے کے
وہ سن کے بولا بابا خدا تجھ کو خیر دے
ہم تو نہ چاند سمجھیں نہ سورج ہیں جانے
شدید مہنگائی کی وجہ سے
بابا ہمیں تو یہ نظر آتی ہیں روٹیاں
بدقسمتی سے آج اہل وطن، اہل سندھ بھی اسی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔