متعصب کون؟

640

تعصب کیا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے دو تین باتوں کا سمجھنا بہت ضروری ہے۔ عصب، پٹّھا، پٹّھے یا اعصاب ایک قسم کے سفید باریک ریشے ہیں جو دماغ اور حرام مغز سے نکل کر تمام جسم میں پھیلتے ہیں اور حس و حرکت اور حواس خمسہ سب انہیں سے متعلق ہوتے ہیں۔ جبیر بن مطعمؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی طرف بلائے اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی وجہ سے ایک دوسرے سے لڑے اور وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عصبیت کی بناء پر مرے‘‘۔ (ابوداؤد) تعصب کے معنیٰ اپنے آباؤ واجداد اور اپنی قوم پر فخر کرنا، ان کی حمایت کرنا، لیکن اسلامی اصطلاح میں تعصب کا مفہوم رسول اکرمؐ نے واضح الفاظ میں بیان فرمایا، جب واثلۃ بن الاسقعؓ نے پوچھا یارسول اللہؐ! عصبیت کیا ہے، فرمایا: عصبیت یہ ہے کہ تو ظلم پر اپنی قوم کی حمایت کرے۔
مندرجہ بالا تحریر سے جو بات بہت واضح ہو کر سامنے آ رہی ہے وہ یہ ہے کہ قبیلہ یا قوم کی اپنی پہچان ہونا ایک الگ بات ہے لیکن قومی یا قبیلہ جاتی شناخت یا پہچان کا یہ مطلب ہرگز ہرگز نہیں ہونا چاہیے کہ کسی دوسری قوم کے ساتھ زیادتیوں کو جائز سمجھ لیا جائے یا اپنی ہی قوم یا قبیلہ کی جانب سے کسی دوسری قوم یا قبیلے پر کیے جانے والے ظلم پر اپنی قوم کے ساتھ کھڑا ہوا جائے۔ ایسا کرنا نہ صرف خلافِ اسلام ہے بلکہ خلاف انسانیت بھی ہے۔
عصبیت کے سو رنگ ہو سکتے ہیں۔ علاقہ، زبان، نسل، حتیٰ کہ غربت اور امارت، ان سب کو بنیاد بنا کر، سب کو اپنے سے کمتر سمجھ کر کوئی بھی ایسا فعل جو کسی دوسرے کے ساتھ زیادتی کا موجب بنے اور پھر بجائے انصاف کرنے، اس پر اپنی اپنی زبانوں یا علاقے والوں کی حمایت میں کمر بستہ ہو جایا جائے، یہ سراسر ظلم اور نہایت تعصب کی بات ہوگی اور یہی وہ عمل ہے جس کو تعصب یا عصبیت کا نام دیا جاتا ہے۔
پاکستان بن جانے کے بعد لسانی عصبیت نے عروج حاصل کیا اور جس امت کو یہ فخر حاصل تھا کہ وہ کسی بھی امتیاز کے بغیر ایک قوم ہے اور صرف اور صرف مسلمان کے نام سے جانی و پہچانی جاتی ہے، زبان کے تعصب کا شکار ہو کر دو حصوں میں یوں تقسیم ہوئی کہ اپنے اپنے خطہ زمین بھی الگ کر بیٹھی۔ اس تقسیم سے سبق حاصل کرنے کے بعد اسے پھر سے اسلامیت کی جانب پلٹ آنا چاہیے تھا تاکہ آنے والے ماہ و سال میں پوری قوم ایک مضبوط اور ناقابل ِ تسخیر و تقسیم قوم بن کر دنیا کے سامنے ابھرتی لیکن بد قسمتی سے پاکستان ایک قوم کی صورت میں ابھرنے کے بجائے متعدد اکائیوں میں تقسیم کی جانب گامزن ہے اور یہ تقسیم در تقسیم کا سلسلہ کسی بھی مقام پر ٹھیرتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔
پاکستان میں بہت ساری عصبیتوں میں ایک عجیب و غریب تقسیم 1973 کے آئین کی منظوری کے ساتھ ہی سامنے آئی جب آئین کی شق میں یہ بات رکھ دی گئی کہ ’’دیہی‘‘ اور ’’شہری‘‘ دو قومیں ہیں جن کے قانونی و آئینی حقوق ایک دوسرے سے جدا ہیں۔ گویا دیہی کو شہری پر کئی درجے فوقیت حاصل ہے یا با الفاظِ دیگر کوئی فاتح ہے کوئی مفتوح یعنی ایک حاکم ہے اور ایک ’’ذمی‘‘۔ اس پر ستم یہ ہے کہ جو متعصبانہ قانون صرف بیس سال کے لیے بنایا گیا تھا وہ توسیع پاتے پاتے آخر کار ہمیشگی اختیار کر گیا۔ اس سلسلے کی سنگین ترین بات یہ ہے کہ پاکستان میں بسنے والی ساری اقوام اور تمام قبیلے اسے نہ صرف یہ کہ تعصب نہیں سمجھتے بلکہ جو طبقہ اس سے متاثر ہو کر صدائے احتجاج بلند کر رہا ہے اسے تعصب پسند کہا جا رہا ہے گویا جن کو مارا جا رہا ہے ان سے کہا جا رہا ہے کہ تم کو رونے اور چلانے کا کوئی حق بھی نہیں ہے۔ تعصب یہ نہیں کہ اپنی پہچان کے ساتھ زندہ رہا جائے، تعصب یہ ہے کہ اپنی پہچان پر فخر اس انداز سے کرنا کہ دوسری قوم پر زد پڑے یا اس کے حقوق متاثر ہوں۔ ان دو نقطہ نظر کو سامنے رکھ کر پورا پاکستان یہ بتائے کہ اہل کراچی ہوں یا سندھ، بلوچستان اور کے پی کے والے، کون کس کے ساتھ حقیقتاً متعصبانہ سلوک روا رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان میں قبیلے ہوں یا قومیں، کیا سب اپنی اپنی پہچان کے ساتھ نہیں رہ رہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ تمام لوگ جو تقسیم کے بعد اس خطہ زمین میں آکر آباد ہوئے جس کو آج پاکستان کہا جاتا ہے، ان کو اپنی پہچان کے ساتھ برابری کا حق حاصل نہ ہو۔ وہ مہاجر کہلانے میں اگر خوش ہیں تو اس میں باقیوں کے ناراض ہونے کی کیا بات ہے۔ البتہ اگر اس بنیاد پر وہ کسی کے ساتھ زیادتی کرتے ہیں تو یہ بات کسی قیمت پر بھی برداشت نہیں کرنی چاہیے۔ فی الحال تو جو بات بالکل الم نشرح ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی ساری اقوام کوٹا سسٹم پر انگوٹھوں پر انگوٹھے چھاپتی چلی آ رہی ہے ان کو اپنا جائزہ لیکر اس بات پر دیانتداری سے غور کرنا چاہیے کہ 1973 سے لیکر تا دمِ تحریر متعصبانہ رویہ کون روا رکھے ہوئے ہے۔ جس دن انہیں حقیقی معنوں میں احساس جرم ہو گیا، پاکستان کی تقدیر بدل جائے گی۔