سب ایکسپوز ہو گئے

739

سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنے حالیہ ایک بیان میں کہا کہ ’’اس وقت پاکستان سب سے زیادہ خوفناک صورت حال سے گزر رہا ہے۔ ایک طرف بے روزگاری دوسری طرف مہنگائی اور مزید مہنگائی۔ یہ پچاس سال میں سب سے زیادہ مہنگائی ہے۔ آٹا، پٹرولیم، بجلی، پیاز، ٹماٹر، دالیں، ہر چیز کی سو فی صد سے دو سو فی صد قیمتیں بڑھ گئیں۔ اس وقت 15 لاکھ ٹیکسٹائل مزدور اپنی نوکریاں کھو بیٹھے ہیں۔ انڈسٹریاں بند ہوتی جا رہی ہیں۔ دو ارب روپیہ مہینے کی کمی آنا شروع ہو گئی ہے۔ ڈالر 260 تک جمپ لگا رہا ہے‘‘۔ مزید کہا کہ ’’شہباز شریف تو ایکسپوز ہو گیا‘‘۔
اب عمران خان ان سب ملکی مسائل کا حل یہ بتا رہا ہے کہ ملک میں صاف اور شفاف الیکشن ہوں اور اسے پھر بطور وزیراعظم چن لیا جائے۔ دوسری طرف ’’پی ڈی ایم‘‘ انتخابات کروانے ہی سے دور بھاگ رہی ہے بلکہ وہ تو شاید بلدیاتی الیکشن کے بھی حق میں نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ملک کی موجودہ بگڑی صورت حال پچھلی حکومت کی نااہلی کا خمیازہ ہے جو ہم بھگت رہے ہیں۔ اگر ملک تنزلی کا شکار ہے تو اس میں ہماری آٹھ ماہ کی کاوشوں کا کوئی قصور نہیں۔ یہ تو ہیں موجودہ حکومتی اور اپوزیشن ریمارکس۔ اب آتے ہیں عوام کی طرف جنہیں نہ سابقہ حکومت سے سروکار ہے نہ موجودہ سے۔ وہ اس سخت سردی میں جہاں گیس اور بجلی سے محروم ہیں وہاں مہنگائی کا لٹھ بھی مسلسل ان کے سروں پر ضربیں لگا رہا ہے۔ مرغی کا گوشت 600 اور انڈے 300 روپے درجن تک پہنچ چکے ہیں۔ ہر اناج کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ ’’مشکلات اور مہنگائی صرف ہمارا ہی نصیب ہے حکومت کی عیاشیوں پر تو کوئی فرق نہیں پڑا۔ ہر آنے والی حکومت صرف اپنا پیٹ بھرتی ہے۔ عوام کی حالت نہ کبھی بدلی تھی نہ بدل رہی ہے‘‘۔ ملک میں حکومت، اپوزیشن اور عوام کے درمیان ایک ٹرائیکون لیول چل رہا ہے۔ اگر دیکھا جائے تو حکومت اور اپوزیشن کا غم مشترکہ ہے۔ دونوں کا نصب العین اور طلب صرف اختیار و اقتدار ہے۔ عوام کے لیے نہ کسی نے سوچا تھا اور نہ سوچ رہے ہیں۔
عمران خان جو اب مائیک کے سامنے چیخ چیخ کر موجودہ حکومت کی ناکامی کا مرثیہ پڑھ رہا ہوتا ہے کیا اسے ملک کے لیے کام کرنے کا موقع نہیں ملا؟ تب کیا ہوا نہ توشہ خانہ محفوظ رہا نہ ہیلی کاپٹر سے پاؤں اترا۔ ان کی بیگم صاحبہ نے کس حق کے تحت اپنی من مرضیاں کیں؟ یہ بندہ اب کیوں عوام کے درد میں تڑپ رہا ہے حالانکہ سب کو معلوم ہے کہ اس کی یہ تڑپ عوام کے لیے نہیں بلکہ اپنی کرسی کے لیے ہے۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ کرسی کا نشہ ایسا نشہ ہے اگر اس کی لت لگ جائے تو بندہ مر تو سکتا ہے لیکن نشہ ختم نہیں ہو سکتا۔ بس اسی نشے کی دھت نے اسے بے آرام کر رکھا ہے۔ یہ بندہ نہ دن دیکھتا ہے، نہ رات۔ موسم دیکھتا ہے، نہ بیماری۔ درد عوام عرف درد اقتدار میں سر پر کفن باندھے مجاہد کی طرح ہر حال میں میدان ہوس اقتدار میں رہتا ہے۔ یہ اپنی چکنی چپڑی باتوں سے اپنے سپورٹروں کو بھی تیار کر لیتا ہے۔ اسی طرح پی ڈی ایم جو ایک نہیں کئی سیاسی جماعتوں کے خستہ خیالات لوگوں کا گلدستہ ہے۔ کیا یہ سب بارہا آزمائے لوگ نہیں۔ کیا انہیں کئی بار پاکستان کی خدمت کرنے کا موقع نہیں ملا؟ لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ ان کی سرپرستی میں پاکستان نے بجانب ترقی کتنا سفر طے کیا؟ ہاں! میں مانتی ہوں کہ ان حکومتوں میں پاکستان میں کچھ اچھے منصوبے بھی مکمل ہوئے لیکن وہ بھی کرپشن کا ٹھپا لگا کر۔
ہر آنے والے نے ملک کو آئی ایم ایف اور چین کے چنگل ہی میں پھنسایا۔ ثابت ہو گیا ہے کہ صرف شہباز شریف ہی نہیں بلکہ یہ سب مل جل کر ملک کو کھانے والے بھی ایکسپوز ہو چکے ہیں۔ بس انتخابات کا زمانہ آنے کی دیر ہے یہ سب لوگ ایسے متحرک ہو جائیں گے جیسے انرجی کی خصوصی ڈرپس لگوا لی ہیں۔ پھر کھڑے ہو ہو کر عوام کو اپنی اپنی سیاسی جماعتوں کے منشور پڑھ پڑھ کر سنائیں گے اور یہ منشور کی شقیں بھی تو صرف انہی دنوں میں سننے کو ملتیں ہیں باقی تو سارا عرصہ ان مساکین منشوروں کو عوام تو کیا یہ لوگ خود بھی نہیں دیکھتے۔ ان اقتدار کے بھوکوں کا بندر تماشے کا اسٹیج تو ایسے ہی لگا رہے گا لیکن اگر پیارا پاکستان بچانا ہے تو ہم عوام کو شعور، عقل و فہم کو پکڑنا ہو گا۔ الیکشن منعقد کروانا انہی میں سے کچھ لوگوں کی شدید خواہش ہے۔ اب عوام کا کام ہے کہ ان کی خواہش ان کے سروں پر ہی الٹ دیں۔ رہی بات محتسب اداروں کی تو یہ ادارے بھی مقتدر طبقے کی من مرضی سے چلتے ہیں جیسے حال ہی میں اسحاق ڈار کو کلین چٹ ملی۔ ایک جمہوری حکومت میں سب سے بڑے محتسب عوام ہوتے ہیں۔ عوام پارٹی بندی چھوڑ کر ان کے کرتوتوں پر گہری نگاہ رکھیں اور جو ان کا قدم ہمارے ملک کے خلاف ہے ان سے فوراً جواب طلب کریں۔ ہمیں پارٹی نہیں بلکہ اپنا ملک عزیز رکھنا ہے اور اپنا ملک چلانے کے لیے انہی افراد کا انتخاب کرنا ہے جو اقربا پروری اور عیش پرستی کے بجائے پاکستان کے لیے کچھ کرنے کی اہلیت رکھتے ہوں۔