امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے بلدیاتی انتخابات کے التوا، بڑھتے اسٹریٹ کرائم، مہنگائی اور شہر کی ابتر صورت حال کے خلاف دھرے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ کارکنان و شرکا خراج تحسین کے مستحق ہیں جنہوں نے مختصر نوٹس پر اتنی بڑی تعداد میں جمع ہوکر اپنی قوت دکھائی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئین کے آرٹیکل 140Aکے مطابق ہمیں ہمارا حق نہیں دیا جارہا۔پورا شہر کراچی کھنڈر بنا ہوا ہے۔سندھ حکومت کراچی پر اپنا قبضہ جمانا چاہتی ہے۔پیپلز پارٹی ایک مرتبہ پھر کراچی میں ایم کیو ایم کے ذریعے سوداگری کررہی ہے اور مذاکرات کے نام پر کارروائی جاری ہے۔
حافظ نعیم الرحمن نے کہا کہ یہ کارروائی نہیں نورا کشتی ہے۔دونوں پارٹیاں ایک ہیں، صرف بظاہر اختلافات کرتے نظر آرہے ہیں۔مردم شماری میں کراچی کی آبادی کو آدھا گنا گیا۔2018 میں پی ٹی آئی اور ایم کی ایم نے مل کر جعلی مردم شماری کو نوٹیفائی کیا۔پی ٹی آئی کے 14 ایم این اے کراچی کے حقوق کی بات نہیں کرتے۔ کراچی کی گنتی آدھی کرنے سے کراچی وسائل پر ڈاکا مارا گیا۔
امیر جماعت اسلامی کراچی کا کہنا تھا کہ وڈیرہ شاہی مائنڈ سیٹ نے پورے سندھ پر قبضہ کیا ہوا ہے اور اب یہ کراچی پر بھی اپنا تسلط قائم کرنا چاہتے ہیں۔ایم کیو ایم حلقہ بندیوں اور مردم شماری کا بہانہ بنا کر بلدیاتی انتخابات ملتوی کروانا چاہتی ہے۔ اگر ایم کیو ایم 35 سال قبل ذاتی مفادات کو چھوڑ کر حلقہ بندیوں کی درستگی اور درست مردم شماری کی بات کرتے تو مسئلہ حل ہوسکتا تھا۔
دھرنے کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم نے کراچی کے اداروں کو سندھ حکومت کی جھولی میں ڈال دیے اور معاوضے میں وزارتیں حاصل کرتے رہے۔ایم کیو ایم الیکشن کمیشن میں بھی حلقہ بندیوں اور بغیر اختیارات کے بلدیاتی حکومت کی بات کررہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے گئے تھے۔
حافظ نعیم کا کہنا تھا کہ 1973 میں 140A آئین کا حصہ بنا تھا 50 سال گزرنے کے باوجود بھی قانون پر عمل نہیں ہوسکا۔ ایم کیو ایم کبھی بھی شہر کے اختیارات کے لیے نہیں روٹھی بلکہ ہمیشہ وزارتوں کے حصول کے لیے ناراض ہوتے رہے۔ایم کیو ایم اب اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب پیپلز پارٹی پارٹیوں کو ملا کر پھر سے کراچی کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔کراچی کے عوام بیدار ہوچکے ہیں اب وہ ان دونوں پارٹیوں کو مسترد کر چکے ہیں۔