ڈیفالٹ کے شور کے نقصانات

600

کئی ماہ سے پاکستان ڈیفالٹ کررہا ہے نہ سری لنکا بن رہا ہے، شور سن سن کر ہم نے برآمدکنندگان اور تاجروں سے رابطے کیے تو بہت سی غلط فہمیاں بھی دور ہوئیں بلکہ پاکستانی اسٹاک اور بزنس کی دنیا کے معروف نام عقیل کریم ڈھیڈی نے بڑی ہمت بندھائی خوف ختم کیا۔ ہم نے سیدھا سوال داغ دیا کہ بھائی پاکستان ڈیفالٹ کررہا ہے۔ ڈالر باہر جارہے ہیں۔ ملک تباہ ہورہا ہے تو کہنے لگے۔ ارے بھائی ناراض مت ہو، گھبرائو نہیں پاکستان کا مسئلہ ڈیفالٹ نہیں توانائی ہے۔ اگر آئی ایم ایف سے بچنا ہے تو بھی تیاریاں کرنی پڑیں گی۔ فی الحال تو آئی ایم ایف سے جو وعدہ کیا ہے اس پر عمل کریں۔ پیسہ ملے گا اور دوسرے ملک بھی دیں گے۔ اگلے دو سال میں آپ اپنے معاشی اقدامات کریں پاکستان ڈیفالٹ رسک پر نہیں ہے ہمیں مضبوط فیصلے کرنے ہوں گے۔ اگر یہاں عقیل کریم کی پوری گفتگو پیش کرنا ممکن ہوتا تو کردیتا لیکن چیدہ چیدہ باتیں کی جاسکتی ہیں۔ اے کے ڈی سے بھی لوگوں کو بہت سی شکایات ہیں لیکن اس وقت جو باتیں وہ کررہے ہیں ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ڈیفالٹ کے بارے میں واضح طور پر کہا کہ اس کو چھوڑیں یہ باتیں نہ کریں۔ آج آئی ایم ایف سے جو بات کی ہے اس پر عمل کریں اس سے اتنا نقصان نہیں ہوگا، اپنی مصیبت کو سب ٹھیک کرنا چاہتے ہیں ہمیں بھی فیصلہ کرنا ہوگا۔ پاکستان کے مسائل اتنے زیادہ نہیں کہ ہم نمٹ نہیں سکتے۔ دنیا بھر سے پیسے ملنے کے بعد آپ کو دو اچھے سال ملیں گے۔ پھر آپ دنیا بھر کو ساتھ لے کر اپنے مفاد کی پالیسیاں بنائیں۔ اس کے نتیجے میں ہم اپنی معیشت میں بہتری لاسکیں گے۔ لیکن آئی ایم ایف سے بھاگنے سے کیا ملے گا۔ اگر حکومت آئی ایم ایف کے معاملے میں سنجیدہ ہے تو اس کی شرائط مانے۔
لوگوں کو خوفزدہ کیا جارہا ہے، ڈیفالٹ ڈیفالٹ کی باتیں ہورہی ہیں اگر حکمران کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے تعلقات اچھے بنانا ہوں گے تو یہ کام ایک دو ماہ قبل کیوں نہیں کیا، کیوں تاخیر کی جارہی ہے، کتنے لوگ ملک سے بھاگ رہے ہیں اور کتنا بزنس ملک سے منتقل ہورہا ہے۔ اس کا ذمے دار کون ہوگا۔ دو تین ماہ تاخیر کا مشورہ کس نے دیا تھا۔ ہم ڈیفالٹ رسک پر نہیں ہیں بلکہ مسئلہ تو ہم خود پیدا کررہے ہیں۔ 22 کروڑ آبادی والے ملک کو مضبوط فیصلوں کے بغیر نہیں چلایا جاسکتا۔ یہ درست ہے کہ مہنگائی ہورہی ہے یقینا ہے لیکن لوگ اسے برداشت کرسکتے ہیں، اگر ہم اپنے وعدے پورے نہیں کریں گے تو مسائل بڑھتے جائیں گے۔ یہ کہنا کہ آئی ایم ایف دشمن ہے دوست نہیں، اصل مسئلہ یہ ہے کہ جو پیسہ دیتا ہے وہ اس کا تحفظ بھی چاہتا ہے اور یہ بھی کہ پاکستان کا نظام اصولوں کے مطابق منظم ہو۔ منتظم ہوں گے تو ملک سنبھل سکے گا۔ دیکھیں آئی ایم ایف آج کل دنیا کو چلا رہا ہے۔ اس کا سرٹیفکیٹ ہوگا تو سب کا اعتماد پاکستان پر بڑھ جائے گا۔ میں نئے سرے سے جانے کو تو نہیں کہہ رہا جو وعدہ کیا ہے اس کو تو پورا کریں۔ ڈیفالٹ ڈیفالٹ تو ہم نے خود سوار کر رکھا ہے۔ پاکستان کے لیے اتنے مسائل نہیں ہیں، ہم اس طرح اپنی ترسیل زر کو بھی کمزور کررہے ہیں، باہر سے لوگ ایسے ملک میں پیسہ کیوں بھیجیں گے جو ڈیفالٹ ہونے جارہا ہے۔ جتنا شور مچائیں گے ڈیفالٹ کا اتنا ہی نقصان ہوگا۔ ڈیجیٹل اکائونٹ بھی کمزور ہورہا ہے، ایکسپورٹ کو روک کر کمزور کررہے ہیں۔ اب مزید تاخیر کرکے مزید نقصان ہوگا۔ آئی ایم ایف کی شرائط ماننے سے انکار تو نہیں تاخیر کی جارہی۔ اس کا مطالبہ کیا ہے گیس مہنگی کرو، بجلی مہنگی کرو، سبسڈی ختم کرو۔ نئے ٹیکس لگائو، درآمدی بل کو کم کرنا ہے تو کچھ فیصلے کرنے ہوں گے۔
اصل بات یہ ہے کہ حکومت آمدنی بڑھائے کوئی تو راستہ ہوگا۔ لیکن کیا کریں عوام کا سامنا کرنے سے بھی تو ڈرتے ہیں کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے جو مہنگائی ہوگی تو لوگ پکڑیں گے۔ ارے عمران خان نے بھی تو فیصلے کیے تھے لیکن مہنگائی کم نہیں کرسکے تھے۔ حکومت کا کام تو یہ ہے کہ چھوٹے بڑے سارے چوروں کو جیل میں ڈالے۔ دس ہزار کی چوری کرنے والے کو تو جیل میں بھی ڈالتے ہیں گولی مار دیتے ہیں۔ بڑے چوروں کے خلاف کارروائی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اصل بات لوگوں کا خوف دور کریں اعتماد بحال کریں پھر ملک چلے گا۔ اسٹاک مارکیٹ سب سے سستی مارکیٹ ہے، اچھے فیصلے کریں اسٹاک خود بخود اُٹھ جائے گی۔ ترسیلات زر میں اضافہ ہوجائے گا۔ ڈالر کی قیمت کم کریں تا کہ لوگوں کی ترسیلات میں اضافہ ہو۔ ان میں سے بیش تر باتیں وہ ہیں جو سنجیدہ سیاسی رہنما بھی کہتے ہیں لیکن کسی بزنس مین کی طرف سے آسائشیں چھوڑنے، رات کو مارکیٹیں بند کرنے، بڑی دعوتیں نہ کرنے، بار بار حج و عمرہ نہ کرنے، غیر ضروری غیر ملکی سفر نہ کرنے اور لگژری گاڑیاں بند کرنے کی بات زیادہ موثر ہوگی۔ سب سے اہم بات جس پر سب کو توجہ دینی ہے کہ ملک کے بارے میں جتنی منفی خبریں پھیلیں گی اس کا نقصان ملک ہی کو ہوگا حکومت کو نہیں ہوگا۔ افواہیں بند کریں، ملک کی بدخوابی کی باتیں نہ کریں۔