یکم جنوری سے نیا سال ہے
دسمبر میں پوچھوں گا کیا حال ہے
جی ہاں یکم جنوری سے نیا سال ہے اب نئے سال میں کیا گزری یہ تو دسمبر آئے گا تب ہی بتایا جاسکے گا۔ لیکن گزرے سال کے دسمبر میں تو یہ بات پوچھی ہی جاسکتی ہے اور بتائی بھی۔ اور ان باتوں کی روشنی میں نئے سال کی منصوبہ بندی بھی کی جاسکتی ہے۔ کیا سوچا تھا اور کیا حاصل کیا۔ کیا کیا کچھ کرنے سے رہ گیا۔ شکر کہ زندگی رہ گئی، سو کوششیں کی جاسکتی ہیں اور کی جانی چاہیے۔ کہ اپنے ادھورے کام مکمل کیے جائیں، جو کام مکمل نہ ہوسکے اس کے لیے دل برداشتہ ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ بہت سی چیزیں ہمارے اختیار میں نہیں ہوتیں۔ ہم سوچتے ہیں منصوبے بناتے ہیں لیکن عملاً وہ سب نہیں ہوپاتا بلکہ بعض اوقات اس کے برعکس ہوجاتا ہے۔ لہٰذا اگر ایسا کچھ زندگی میں ہوا ہو تو سارے معاملات پر ازسرنو غور کرنا چاہیے، مختلف زاویہ سے دیکھنا چاہیے، اپنے منصوبوں کے لیے کسی نئے لائحہ عمل کے نکات طے کرکے اس برس ان سارے کاموں اور منصوبوں کو مکمل کرنے کے لیے کمرکس لینا چاہیے۔ مشکلات زندگی کا حصہ ہیں، جان لینا چاہیے کہ مشکلات بھی دو قسم کی ہوتی ہیں، ایک وہ جن کا حل اور متبادل ممکن ہوتا ہے، دنیا کے ہر نقصان کا کوئی نہ کوئی متبادل ممکن ہوتا ہے۔ جب ہی تو یہ دنیا چل رہی ہے، دوسری مشکل جس کا متبادل ممکن نہیں ہوتا وہ جان کا نقصان ہوتا ہے جس کو صبر و رضا سے برداشت کرنا ہوتا ہے اور اپنی سوچ کو مثبت رکھنا ہوتا ہے تاکہ زندگی آگے بڑھ سکے۔ ورنہ انسان ذہنی طور پر مفلوج ہوجاتا ہے۔ ڈپریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ آج کہا جاتا ہے کہ انسان نے بڑی ترقی کرلی ہے، کائنات کے دور دراز سیاروں پر بھی اپنے قدم جمالیے ہیں، کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کے ذریعے فاصلوں کے تصور کو ختم کردیا ہے۔ معلومات کے خزانوں تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔ لیکن دوسری طرف انسانیت پریشان حال ہے، زندگی سے فرار کے لیے منشیات اور خودکشی کے راستے کو اختیار کرنا سہل سمجھ لیا گیا ہے۔
چاند کو پھر چھولیا انسان نے یہ ہوچکا
آج بھی لیکن دگرگوں صورت حال ہے
آنے والے نئے سال میں ہم کچھ طریقے ایسے اختیار کرسکتے ہیں جن کے ذریعے خود بھی اور اپنے پیاروں کو بھی مسائل، مشکلات اور الجھنوں کے حل کا راستہ دکھا سکتے ہیں۔ انسان کی زندگی میں اہم ترین دن آج کا ہوتا ہے۔ ماضی کی ناکامیوں کو کندھے پر اُٹھا کر اپنے آج کی منصوبہ بندی کرنا ناممکن ہے۔ جو وقت گزر گیا کتاب زندگی کا وہ باب بند ہوگیا اور جلد ہی آپ کا آج بھی گزرا ہوا کل بن جائے گا۔ لہٰذا اس سے پہلے کہ وقت آئے آپ اپنے ذہن پر سے ماضی کی ناکامی کی گرد کو جھاڑ کر آج کے لیے منصوبہ بندی کریں۔ اپنی توانائیوں کو گزرے ہوئے کل کی ناکامیوں پر آنسو بہا کر ضائع نہ کریں۔ ’’دانا آدمی کے لیے ہر دن ایک نیا دن ہوتا ہے‘‘۔
تو ہمارے عقیدے میں شامل ہے کہ انسان کو وہی کچھ حاصل ہوگا جو اس کی تقدیر میں لکھ دیا گیا ہے لہٰذا شیخ چلی کی طرح خیالی دولت و شہرت اور خوشیوں کے حصول کا خواب دیکھنے کے بجائے ان خوشیوں پر نظر رکھی جائے جو ہمارے اردگرد پھیلی ہماری توجہ کی منتظر ہیں۔ ہم اپنے صحن میں خوشبو دیتی رات کی رانی اور چنبیلی کو نظرانداز کرکے خیالی گلابیوں کی مہک کے منتظر رہتے ہیں۔ سو ہم اپنی آج کی اُن خوشیوں کو بھی گنوا دیتے ہیں جو ہماری دسترس میں ہوتی ہیں اور دوسری طرف اپنے آپ کو خیالی پلائو نہ ملنے کے غم میں بھی مبتلا کرلیتے ہیں۔ مستقبل میں کیا ہے؟ اس سے خوفزدہ نہ ہوں ہر وقت شیر کی آمد کے خوف میں مبتلا رہنا عقل مندی نہیں۔
بدترین نتائج کا ادراک:۔ ذہنی الجھنوں سے نجات حاصل کرنے کا ایک اچھا نسخہ یہ بھی ہے کہ وہ مسائل جو آپ کو پریشان کررہے ہوں ان کے مطابق پیدا ہونے والے تمام نتائج کا جائزہ لیں اور پھر اپنی پوری صلاحیتوں اور توانائیوں کے ساتھ صورت حال سے نمٹنے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ اپنے مسائل کے بارے میں اپنے آپ سے تین سوال کریں۔
آخر اس کے بدترین نتائج کیا ہوسکتے ہیں؟
اگر تقدیر میں یہی لکھا ہے تو کیوں نہ صبر و رضا کے ذریعے اللہ سے مدد حاصل کی جائے؟
ان بدترین نتائج کو بہترین نتائج میں تبدیل کرنے کے لیے کیا کچھ کیا جاسکتا ہے؟
اور پھر اپنے متعین کردہ نکات پر عمل درآمد میں مصروف ہوجائے۔
الجھنوں میں الجھے رہنے سے ہمیں کیا حاصل ہوگا۔ یہ بات بہت اہم ہے کہ ہروقت کے تفکرات سے ہم کو کیا حاصل ہوتا ہے۔ بعض لوگ اپنے آپ کو بے چارہ اور مظلوم کہلوا کر ذہنی آسودگی حاصل کرتے ہیں اسی طرح کچھ لوگ اپنے آپ کو ذہنی اذیت دے کر خوشی محسوس کرتے ہیں۔ حالاں کہ پریشان کن خیالات اور تفکرات انسانی جسم پر بے حد خراب اثرات ڈالتے ہیں۔ ان کے باعث اختلاج قلب، ذیابیطس اور السر جیسی موذی بیماریاں گھیر لیتی ہیں۔ لہٰذا اپنے آپ کو بیماریوں سے بچانے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے آپ کو تفکرات اور پریشانیوں کے گرداب سے نکال کر آج کی ننھی منھی خوشیوں کے ہنڈولوں میں بیٹھ کر جھولنا سیکھیں اور سکھائیں۔ مذہب سے قربت، گہری نیند، مزاج کا عمدہ ذوق ننھے بچوں کے ساتھ کھیل اور پودوں اور باغبانی پر توجہ، یہ وہ باتیں ہیں جو انسان کی پریشانیوں اور تفکرات کو تحلیل کردیتی ہیں۔ لہٰذا نئے سال میں نئے منصوبوں کے ساتھ قدم رکھیں اور نامکمل منصوبوں کو مکمل کریں اور دسمبر میں پوچھنے والے پوچھیں کہ کیا حال ہے؟ تو کہہ دیں۔
نئی جنوری ہے نیا سال ہے
نیا وقت ہے اور نئی چال ہے