ہم نے وقت کو اپنی سہولت کے مطابق خانوں میں بانٹ رکھا ہے۔ کوئی معاملات کا یومیہ تجزیہ کرتا ہے، کوئی ہفتہ وار۔ کسی کو ہر ماہ جائزہ لینے اور تجزیہ کرنے کی عادت ہوتی ہے اور کسی کو سہ ماہی کی بنیاد پر معاملات پر نظر ڈالنا اچھا لگتا ہے۔ ایک روایت پوری دنیا میں بھرپور شان و شوکت کے ساتھ موجود ہے… سالانہ جائزہ۔ دنیا بھر میں تجزیہ کار اور تجزیہ نگار ایک سال کے دوران جو کچھ بھی دنیا پر گزرتی ہے اس کا تجزیہ کرتے ہیں، اور تجزیے کی بنیاد پر آنے والے یا آئے ہوئے نئے سال کے حوالے سے پیش گوئیوں کا بازار گرم کرتے ہیں۔ لوگ نجی سطح پر بھی سالانہ کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں اور نئے سال میں جوکچھ بھی کرنا ہے وہ طے کرتے ہیں، اور اس حوالے سے اپنی صلاحیت و سکت کو بروئے کار لانے پر متوجہ ہوتے ہیں۔
انفرادی سطح پر کارکردگی کا معیار بلند کرنے کا ایک اچھا طریقہ تو یہ ہے کہ انسان یومیہ بنیاد پر اپنی کارکردگی کا جائزہ لے اور اپنی خامیوں اور کمزوریوں سے نجات پانے پر کمربستہ ہو۔ کامیابی کے لیے ذہن سازی کرنے والے ایسا ہی کرتے ہیں۔ جب کوئی طے کرلیتا ہے کہ کوئی بڑا مقصد حاصل کرنا ہے تو پھر وہ اِدھر اُدھر دیکھنے کے بجائے اپنی منزل پر نظر رکھتا ہے اور منزل تک پہنچانے والے راستے کی ممکنہ مشکلات کو بھی ذہن نشین رکھتا ہے۔ ایسا کرنا اس لیے لازم ہے کہ کوئی بھی بڑا مقصد متعلقہ تیاریوں کے بغیر حاصل نہیں کیا جاسکتا۔
وقت کو ظالم کہنا بھی درست نہیں اور اُسے لتاڑنا بھی احمقانہ امر ہے۔ وقت غیر جانب دار و بے نیاز حقیقت ہے۔ یہ ہمارا دوست ہے نہ دشمن۔ یہ وہی کرتا ہے جو ہم اِس سے کرواتے ہیں۔ وقت کو کس طور بروئے کار لانا ہے یہ ہمیں طے کرنا ہے۔ وقت سب کو یکساں تناسب سے ملتا ہے۔ کسی کا دن چوبیس گھنٹوں سے زیادہ یا کم نہیں ہوتا۔ وقت کسی پر مہربان نہیں ہوتا۔ جب انسان اپنے وقت کو ڈھنگ سے بروئے کار لانے کے بارے میں سوچتا ہے تب کچھ ہوپاتا ہے۔
گزرا ہوا سال پاکستان پر کچھ زیادہ بھاری گزرا۔ ایسا بہت سے ممالک کے ساتھ ہوا۔ کیا یوکرین کو شدید اذیت سے دوچار نہیں ہونا پڑا ہے؟ وہاں تو اب بھی جنگ جاری ہے۔ یوکرین کے معاملے میں یورپ نے اچھے خاصے دوغلے پن کا مظاہرہ کیا ہے۔ امریکا اور یورپ نے روس کے خلاف جن پابندیوں کی بات کی تھی اُن پر بھی عمل برائے نام ہوسکا ہے۔ یورپ کو اپنے مفادات کی پڑی ہے۔ یورپ اور وسطِ ایشیا کی دیگر ریاستوں سے گیس بہت بڑے پیمانے پر درآمد کرکے یورپ اپنا موسمِ سرما ڈھنگ سے گزار پاتا ہے۔ یوکرین کی جنگ نے روس کو یورپ سے برافروختہ کردیا۔ پھر بھی یورپ نے معاملات کو درست کرنے کی سمت خود ہی قدم بڑھایا اور یوکرین کو مایوس کیا۔
سیاسی عدم استحکام نے قومی معیشت کو ڈانوا ڈول رکھا ہے۔ اسٹاک مارکیٹ کا حال بہت برا ہے۔ قومی معیشت اور قومی کرنسی پر لوگوں کا اعتماد اس حد تک ڈگمگا گیا ہے کہ اب ڈالر اور سونے کی شکل میں پونجی کو محفوظ رکھنے پر توجہ دی جارہی ہے۔ ملک بھر میں کاروباری طبقہ پریشان ہے۔ درآمدات میں اضافہ ہورہا ہے اور برآمدات گھٹتی جارہی ہیں۔ ترسیلاتِ زر کا گراف بھی خطرناک حد تک نیچے گرا ہے۔ اسٹیٹ بینک میں زرِ مبادلہ کے ذخائر محض ایک ماہ کا درآمدی بل ادا کرنے کے قابل رہ گئے ہیں۔ حکومت نے مجبور ہوکر چند ایک چیزوں کی درآمد کی اجازت دی ہے۔ برآمدات میں اضافے کی کوئی معقول صورت دکھائی نہیں دے رہی۔ صنعت کار زیادہ پریشان ہیں کیونکہ خام مال کے کنٹینرز بندرگاہ پر کھڑے ہیں اور اُن کی کلیئرنس کے لیے ڈالر جاری نہیں کیے جارہے۔ ایل سیز کھولنے کا عمل تھما ہوا ہے۔ خام مال نہ ہونے سے صنعتی عمل رکا ہوا ہے۔ لاکھوں افراد کا روزگار داؤ پر لگا ہوا ہے۔ یہ حال تاجروں کا ہے۔ بعض شعبے اِس طور رُل گئے ہیں کہ معاملات درست کرنے کا کوئی معقول راستہ دکھائی نہیں دے رہا۔ بعض شعبوں کا مستقبل تو کیا، وجود ہی داؤ پر لگا ہوا ہے۔ جس طور کمپوزنگ سسٹم آنے سے کتابت ختم ہوگئی تھی بالکل اُسی طور نئی ٹیکنالوجیز نے متعدد شعبوں میں پنپنے کی گنجائش ختم کردی ہے اور بعض کے لیے تو بقاء کا سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے۔
جو کچھ دنیا میں ہورہا ہے وہ پاکستان پر اثرانداز نہ ہو ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ یوکرین کی جنگ نے یورپ میں عدم استحکام پیدا کیا ہے۔ امریکا بھی الجھا ہوا ہے۔ ایسے میں یورپ سے ہمارے تجارتی یا کاروباری تعلقات بھی متاثر ہوئے ہیں۔ یورپ میں آباد ہونے کی رفتار بھی سُست پڑگئی ہے اور وہاں سے ترسیلاتِ زر بھی متاثر ہوئی ہیں۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی بھی وطن کی صورتِ حال سے الجھے ہوئے ہیں۔ حکومتی سیٹ اَپ پر اُن کا اعتماد بحال نہیں ہوسکا ہے۔ آئی ایم ایف کا پروگرام لینے کی کوشش کی جارہی ہے مگر اب تک خاطر خواہ کامیابی کا حصول ممکن نہیں بنایا جاسکا ہے۔ یہ کیفیت مزید کچھ مدت تک جاری رہی تو معاملات پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچ جائیں گے۔
صوبے اپنی اپنی پسندیدہ ڈگر پر چل رہے ہیں۔ وفاق ڈھیلا پڑچکا ہے۔ اقتدار کی کشمکش شدید سے شدید تر ہوتی جارہی ہے۔ کوئی بھی اپنے مقام سے ایک انچ بھی پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔ کوئی بھی کچھ قربان نہیں کرنا چاہتا۔ ملک کو ایثار کی ضرورت ہے مگر یاروں کا یہ حال ہے کہ وہ سمجھتے ہی نہیں کہ ایثار کس چڑیا کا نام ہے۔ جس کا جہاں داؤ چل رہا ہے، مزے لُوٹ رہا ہے۔ کوئی کسی کو برائے نام رعایت دینے پر بھی آمادہ نہیں۔ ملک کے لیے تو بالکل نہیں۔ قومی تعمیر و ترقی کی سوچ عنقا ہوکر رہ گئی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیے تو گزرے ہوئے سال نے ہم پر قیامت ہی ڈھائی ہے۔ سیاست اور معیشت دونوں ہی گڑھے میں ہیں۔ قومی سلامتی بھی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ملک کے کئی سرحدی علاقوں میں امن و امان کا مسئلہ ہے۔ دہشت گردی کا دائرہ وسعت اختیار کررہا ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا محض سادہ لوحی کی علامت ہوگا کہ تمام معاملات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ درست ہوتے چلے جائیں گے۔ معاملات کی درستی کے لیے بہت کچھ کرنا ہوگا۔
مہنگائی نے عفریت کی صورت منہ کھول رکھا ہے اور ہمیں نگل رہی ہے۔ اشیاء و خدمات کے نرخ متعین کرنے اور اُنہیں قابو میں رکھنے کا کوئی معقول میکنزم اب دکھائی نہیں دے رہا۔ ہر شعبے میں مافیا موجود ہے۔ یہ مافیا متعلقہ سرکاری مشینری کی مٹھی گرم کرکے اپنی مرضی کے مطابق شعبے کو چلاتی ہے۔ اشیائے خور و نوش کے دام ہوش رُبا رفتار سے بڑھتے جارہے ہیں۔ آٹا، پیاز، گوشت اور خوردنی تیل کے نرخوں کو پَر لگے ہوئے ہیں۔ عام آدمی کے لیے اپنے اور اہلِ خانہ کے لیے تین وقت کی روٹی کا ڈھنگ سے انتظام کرنا انتہائی دشوار ہوچکا ہے۔ ملازمت پیشہ افراد شدید خسارے میں ہیں کیونکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی اُن کی قوتِ خرید کو گھٹاتی چلی جارہی ہے۔ سیلف ایمپلائمنٹ والے اپنی اجرت بڑھاتے رہتے ہیں۔ تاجر اپنا منافع بڑھادیتا ہے۔ ملازمت پیشہ افراد شدید مشکلات میں جی رہے ہیں۔ اس حوالے سے سوچا بھی نہیں جارہا۔ اجرتوں کے حوالے سے پایا جانے والا یہ شدید عدم توازن معاشرے میں بگاڑ کا گراف بلند کررہا ہے۔
نیا سال نئی اُمیدوں کے ساتھ وارد ہوا ہے۔ اہلِ پاکستان کو عزم کرنا چاہیے کہ اِس سال اپنے معاملات کو درست کرنے کے لیے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے۔ یہ سب کچھ محض سوچنے یا عزم کرنے سے نہیں ہوسکتا۔ عمل کی دنیا میں اپنے آپ کو منوانے کے لیے بھرپور تگ و دَو کرنا لازم ہے۔ ایک قوم کی حیثیت سے ہمیں اپنی بقاء یقینی بنانا ہے۔ محض خرابیوں اور عدم استحکام سے دوچار ہونے کا زمانہ گیا۔ اب تو بقاء کا سوال اُٹھ کھڑا ہوا ہے۔ اہلِ سیاست اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان جاری رَسّا کشی ملک کو شدید خرابیوں سے دوچار کررہی ہے۔ اس رَسّا کشی کو چھوڑ کر ملک و قوم کا سوچا جائے۔ اللہ سے دعا ہے کہ یہ سال ہمارے ارادوں کو مزید مضبوط کرے اور نیتوں کا اخلاص بھی بڑھائے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ذاتی مفادات کی سطح سے بلند ہوکر ملک و قوم کے لیے سوچنے کی توفیق نصیب ہو۔