پاکستان ڈیفالٹ کررہا ہے۔ پاکستان تکنیکی ڈیفالٹ کرگیا ہے۔ موجودہ حکومت (ہر موجودہ حکومت) ناکام ہے۔ عوام مہنگائی کی چکی تلے پس رہے ہیں۔ کوئی پرسانِ حال نہیں۔ روزگار نہیں ملک کی عزت نہیں حکمران نااہل ہیں (تمام)۔ یہ ساری باتیں پاکستان میں بلاامتیاز ہر حکومت کے خلاف اور ہر اپوزیشن کی جانب سے سنتے آرہے ہیں اور ہر ایک کی بات پر یقین بھی کرلیتے ہیں۔ ہم نہ بھی کریں تو کیا ہوا پوری قوم تو یقین کرتی ہے۔ اب بھی ایسا ہی ہورہا ہے لیکن گزشتہ چالیس سال کی صحافت کے دوران اتنا اندازہ تو ہو ہی چکا ہے کہ یہ سب باتیں کیوں پھیلائی جاتی ہیں۔ کبھی کسی نے تجزیہ نہیں کیا کہ ہر حکومت کے دور میں اپوزیشن یہی کہتی ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے والا ہے، تباہ ہورہا ہے۔ آٹا غائب، تیل نہیں ہے، گوشت مہنگا ہوگیا ہے، شکر غائب ہوگئی ہے وغیرہ وغیرہ۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس اپوزیشن کی حکومت آتے ہی بیانات دینے والے اپنے اپنے بیانات کا آپس میں تبادلہ کرلیتے ہیں۔ اپوزیشن والے سب اچھا ہے کا حکومتی بیانیہ حکومت میں آتے ہی اختیار کرلیتے ہیں اور حکومت سے جاتے ہی اپوزیشن بنتے ہی سابقہ حکومت اپنی اپوزیشن اور نئی حکومت کا سابقہ بیانیہ ملک تباہ ہورہا ہے، ڈیفالٹ ہورہا ہے، اپنا لیتے ہیں۔ یہی کام عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ بھی ہوا۔ ادھر وہ حکومت سے گئے ان کی نظروں میں ملک تباہ ہونے لگا اور جو لوگ حکومت میں آئے ان کی نظر میں ملک بچالیا گیا۔ اس معاملے میں نہایت غیر ذمے دارانہ رویہ اختیار کیا گیا۔ عمران خان جب اقتدار سے باہر تھے تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کو چور کہتے تھے۔ ملک کی حالت دیکھ کر ہی یقین کیا جاسکتا تھا کہ ایسا ہی ہے۔ اور تھا بھی ایسا ہی لیکن تقریباً چار سال اقتدار میں رہ کر انہوں نے آئی ایم ایف کا قرضہ اُتارا، نہ اس سے جان چھڑائی بلکہ اُلٹا دوبارہ اس کے چنگل میں ملک کو پھنسادیا۔ وہ اسے خودکشی کہتے تھے اور وہ کر گئے۔ لیکن اس خودکشی میں وہ نہیں قوم کو مرنا پڑا۔ جب ان کے سابق دشمن ’’دوچوروں‘‘ کو احساس ہوا کہ الگ الگ رہ کر تو ہم چور ہی رہیں گے تو انہوں نے اتحاد کیا اور عمران خان کو نکال باہر کیا۔ عمران خان اقتدار میں آنے کے اگلے دن آئی ایم ایف کے قرضے اس کے منہ پر نہ مارسکے۔ لوٹی ہوئی دولت واپس نہ لاسکے۔ ملک کو ترقی نہ دے سکے۔ کشمیر کو نہ بچا سکے، لیکن چور چور کا ورد یا وظیفہ جاری رکھا۔
خرابی اور غیر ذمے داری یہ ہوئی کہ جوں ہی عمران خان اقتدار سے نکلے ملک دیوالیہ ہونے لگا، تباہی ہونے لگی، ڈالر مہنگا نظر آنے لگا، پٹرول، گیس، ڈیزل، آٹا، چینی، تیل سب مہنگا ہوگیا۔ مارچ تک سب ٹھیک تھا اپریل مئی سے سب خراب ہوگیا۔ حکومتوں کے کاموں کا اثر اگلے مالی سال سے پڑتا ہے۔ یہ حکومت اپریل میں بدلی گئی جو کچھ وہ گزشتہ جولائی سے اپریل تک کرتے رہے اس کے اثرات جون سے آگے اور اب تک آرہے ہیں اور نئی حکومت جو کچھ کررہی ہے اس کے اچھے برے اثرات جون 2023ء کے بعد سامنے آئیں گے۔ لیکن سوشل میڈیا کے دو دھاری ہتھیار سے اپنے ہی خلاف زبردست مہم چلائی کہ حکومت کے اقدامات سے ملک تباہ ہورہا ہے۔ حالاں کہ اس حکومت کے اقدامات کا اثر تو ابھی آنا ہے لیکن سابقہ حکومت کے سوشل میڈیا نے اپنی ہی حکومت کے اقدامات کا سارا ملبہ نئی حکومت پر پہلے ہی ڈال دیا۔ المیہ تو یہ ہے کہ قوم کا ایک بڑا طبقہ اس پر یقین بھی کر بیٹھا ہے۔ اور جو عمران خان کے مخالف ہیں وہ بھی اس شرابے میں اس الزام کو اسی طرح دہراتے آرہے ہیں کہ ہاں ملک کی حالت تو خراب ہے یہ سب باتیں لکھنے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ موجودہ شہباز، زرداری حکومت دودھ کی دھلی ہوئی ہے اور اس کا موجودہ معاشی تباہی میں کوئی حصہ نہیں۔ بلکہ یہ اس تباہی میں بڑے حصے کی ذمے دار ہے۔ لیکن جس قسم کا پروپیگنڈا ہورہا ہے وہ کسی بھی طرح تسلیم کرنے کے قابل نہیں ہونا چاہیے۔ عمران خان کی محبت میں گرفتار لوگ اور شریفوں اور زرداریوں کے اسیروں کے لیے اتنا ہی کہا جاسکتا ہے کہ
اتنی نہ بڑھا پا کیٔ داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بند قبا دیکھ
یہ سب ایک ہی تصویر کے مختلف رخ ہیں، پہلے تو صرف دو رخ ہوتے تھے اب تو فورجی اور فائیو جی پتا نہیں کون کون سی ٹیکنالوجی ہے۔ ان سارے گروہوں کے پروپیگنڈے، بیانات ڈیفالٹ ڈیفالٹ کے خدشات میں ایسا لگتا ہے کہ وہ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اللہ کرے ڈیفالٹ ہوجائے۔ اللہ کرے سری لنکا بن جائے، بس کہنے کی ہمت نہیں۔ اب ذرا پروپیگنڈے کو لے لیں، آج کل کیا ہورہا ہے کہ ڈالر کے ذخائر تاریخ کی کم ترین سطح پر آئے ہیں۔ بینکوں نے ایل سی کھولنے سے انکار کردیا ہے، ڈالر کے انخلا کی رفتار تیز ہوگئی ہے، دوائیں دستیاب نہیں ہیں، یہ سب کچھ کم و بیش ہو ہی رہا ہے لیکن ہر چیز اس طرح نہیں ہورہی جس طرح عوام کو باور کرائی جارہی ہے۔ دوائیں ضرور غائب ہیں لیکن اس کا سبب نئی حکومت یا پرانی حکومت نہیں۔ یہ ایک پرانا سلسلہ ہے، ذخیرہ اندوز اور ناجائز منافع خور یہ سب کچھ کرتے رہتے ہیں۔ پیناڈول کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ مارکیٹ سے شارٹ ہے۔ لیکن حکومت نے کروڑوں گولیاں ضبط کی ہیں۔ کہاں گئیں وہ گولیاں اور چھوٹے چھوٹے اسٹور پر 80 روپے کا پتا مل رہا ہے اور بڑے اسٹورز جو 20 روپے میں بیچ رہے تھے ان کو ڈیلرز دے ہی نہیں رہے۔ تو پھر چھوٹے اسٹورز کے پاس کہاں سے آرہی ہیں۔ یہ حکومت کی نالائقی ہے یہ نالائقی ہر حکومت کے دور میں ہوتی ہے۔ یہ جو ڈالر اپریل میں 178 کا تھا اب 220 کا ہے۔ اس کی بھی قیمت اوپر نیچے ہو کر 42 روپے بڑھی ہے۔ جبکہ خان صاحب کی حکومت میں یہی ڈالر ایک دن میں 70 روپے سے زیادہ بڑھا تھا۔ کسی نے اس کا تجزیہ نہیں کیا۔ 100 روپے والا ڈالر کیسے 220 تک پہنچا۔ اب شہباز شریف نے بیان دیا کہ مجھے تو اندازہ نہیں تھا کہ معاشی بحران اتنا شدید ہے یہ تو اب پتا چلا۔ حالانکہ مارچ تک وہ یہ کہتے تھے کہ ہمیں آنے دو نااہل اور ناتجربہ کار عمران کو نکالو ہم سنبھال لیں گے۔ اس بیان میں مزا نہیں آئے گا جب تک یہ نہ بتایا جائے کہ عمران خان بھی اقتدار میں آنے سے قبل یہی کہتے تھے۔ آتے ہی اگلے دن آئی ایم ایف کا قرضہ اتار دوں گا۔ کیونکہ آئی ایم ایف کے پاس جانا خودکشی ہے لیکن سب سے پہلے بڑا قدم یہی خودکشی کرنے کا اٹھایا۔ پھر کچھ دن بعد یہی بیان دیا جو آج شہباز شریف دے رہے ہیں کہ مجھ کو پتا نہیں تھا کہ خزانہ خالی ہے۔ شہباز شریف اور زرداری نے حکومت بناتے ہی شکر ادا کیا کہ شکر ہے عمران کو نکال کر ملک بچالیا۔
یہی بات عمران خان (ن) لیگ کی حکومت کو نکال کر اپنی حکومت بنانے کے بعد کہی کہ شکر ہے چوروں کو نکال کر ملک بچالیا۔ مزیدار بات یہ ہے کہ ان سے پہلے بھی ملک بچایا گیا تھا۔ جب بھٹو نے نعرہ لگایا تھا۔ خدا کا شکر ہے پاکستان بچ گیا۔ مگر قیمت کیا دی گئی۔ آدھا پاکستان… ان دونوں نے بقیہ پاکستان کو باری باری دائو پر لگادیا۔ ایک نعرہ امپورٹڈ کا بھی لگتا ہے اور ایک سلیکٹڈ کا بھی لگتا تھا۔ چار سال سلیکٹڈ کا نعرہ لگا اور فوج اور پی ٹی آئی دونوں طرف سے اس کی تصدیق کی گئی، حالانکہ دونوں ہی باری باری سلیکٹ ہوتے آئے ہیں۔ اور جس کو امپورٹڈ کہا جارہا ہے وہ امپورٹڈ بھی ہیں لیکن وہی نہیں۔ اس ملک میں اور بھی امپوٹڈ آئے ہیں۔ معین قریشی درآمد کیے گئے، وزیراعظم بنے اور انتخابات کراکر چلے گئے۔ عمران خان بھی ایک اعتبار سے امپورٹڈ ہیں۔ درآمد کیے گئے لیکن تازہ نہیں ہیں۔ ان کے وزیر خزانہ حفیظ شیخ درآمد شدہ، شوکت ترین درآمد برآمد شدہ، ان کے گورنر اسٹیٹ بینک درآمد شدہ وہ جو بارودی سرنگیں بچھا گئے وہ ایک ایک کرکے دھماکے سے اڑائی جائیں گی۔ ن لیگ کے اسحق ڈار بھی پہلے برآمد شدہ پھر درآمد شدہ لیکن آنے کے بعد صرف استعمال شدہ ہیں۔ ان سارے درآمد شدہ برآمد شدہ میں سے کسی نے ملک کو کوئی معاشی پالیسی نہیں دی۔ یہ صرف مخالف پر الزام لگا کر زندہ ہیں۔ 8 ماہ دیں یا 5 سال یہ کچھ بھی نہیں کرسکیں گے۔ لیکن قوم تو سوچنا شروع کرے۔