کیا سقوط ڈھاکا سے ہم نے کوئی سبق سیکھا ؟

593

مشرقی اور مغربی پاکستان کا اگر تجزیہ کیا جائے کہ آخر وہ کون سی وجوہات تھیں جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان کے لوگ جو پاکستان سے بے انتہاء محبت کرتے تھے آخر وہ محبت کیوں اور کیسے نفرت میں تبدیل ہوئی اور بالآخر بنگال سے وہ علاقہ بنگلا دیش میں تبدیل ہوگیا۔ اس موضوع پر بہت کچھ لکھا گیا، کمیشن بنے کچھ رپورٹیں شائع ہوئیں اور کچھ مخفی رکھی گئیں لیکن حال ہی میں جنرل باجوہ نے اپنی سبکدوشی سے کچھ دن پہلے دوبارہ اس بحث کو چھیڑ دیا کہ یہ فوجی ناکامی نہیں تھی بلکہ سیاسی ناکامی تھی۔
پاکستان وہ خطہ ہے جو ۱۹۷۳ء تک بے دستور خطہ چلتا رہا ۱۹۵۶ء کا آئین بنا بڑی مشکل سے کچھ اتفاق ہوا لیکن ۱۹۵۸ء میں فوجی مارشل لا نے اس کو منسوخ کر دیا پھر فوجی جنرل نے اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے ۱۹۶۲ء کا دستور بنایا جس کو کسی نے بھی قبول نہیں کیا۔
بنگلا دیش بننے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ مشترکہ پاکستان کی اعلیٰ قیادتیں یا تو فوت ہو گئیں یا شہید کر دی گئیں یا پھر ان کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیے گئے۔ قائد اعظم ؒ جلد فوت ہو گئے۔ لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا جبکہ محترمہ فاطمہ جناح، مولوی تمیز الدین، محمد علی بوگرہ، خواجہ ناظم الدین اور حسین سہر وردیؒ اور شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ توہین آمیز سلوک کیے گئے جس کی وجہ سے بنگالی قوم کے اندر ایک نفرت پیدا ہوئی اور انہوں نے پاکستان سے علٰیحدگی کا فیصلہ کر لیا۔
۱۹۵۶ء کے دستور کو معطل کرکے ملک میں جب مارشل لا لگا اور ایوب خان نے طویل عرصہ تک حکمرانی کی تو اس نے بھی جاتے جاتے اقتدار جنرل یحییٰ خان کے حوالے کیا یہ وہ وقت تھا کہ جب بنگالی محسوس کر رہے تھے کہ اگر اس ملک کا مستقبل مارشل لا اور فوجی حکمران ہیں تو اس فوج میں صرف ایک جنرل اور ایک کرنل ہی بنگالی ہیں باقی فوج کی تمام اعلیٰ قیادت مغربی پاکستان سے ہے اس لیے ان کو یہاں بھی محرومی کا احساس ہوا۔ بنگالیوں میں ایک پروپیگنڈا بھی خوب کیا گیا کہ بنگلا دیش کی قومی پیداوار پٹ سن کا جو زر مبادلہ حاصل ہوتا ہے اس کا ۹۵ فی صد حصہ مغربی پاکستان کی تعمیر وترقی پر خرچ ہو رہا ہے۔ دوسری طرف اگر مشرقی ومغربی پاکستان کا تجزیہ کیا جائے تو بنگلا دیش کی ۵۶ فی صد آبادی پاکستان کے ۱۵ فی صد رقبے پر آباد تھی اور مغربی پاکستان کی ۴۴ فی صد آبادی ۸۵ فی صد رقبے پر آباد تھی اس لیے بنگالی قوم محسوس کر رہی تھی وسائل کی منصفانہ تقسیم نہیں ہو رہی اسی طرح بنگالی قوم کا ایک مطالبہ اس کے علاوہ بھی تھا کہ اُردو کے ساتھ بنگالی زبان کو بھی قومی زبان کا درجہ دیا جائے لیکن مغربی پاکستان کے صاحب اقتدار حلقوں نے ان امور کو زیادہ اہمیت نہ دی۔ اسی طرح بنگالی قوم کے اندر عدم تحفظ کا بھی احساس تھا کہ ہمارا دفاع مغربی پاکستان سے فورسز آکر نہیں کر سکتیں حالانکہ مغربی پاکستان کے صاحب اقتدار ہمیشہ یہ کہتے رہے کہ ہم مغربی پاکستان سے بھارت کو کنٹرول کریں گے اور وہ مشرقی پاکستان پر کبھی حملہ نہ کر سکے گا۔ بنگالی قوم کا احساس محرومی اس وقت انتہا کو پہنچا جب دسمبر ۱۹۷۰ء میں الیکشن ہوئے مشرقی اور مغربی پاکستان میں یہ مخلوط الیکشن تھے جس میں ہندو اور مسلم اور دیگر اقلیتیں تمام نمائندہ گان کو ووٹ ڈال رہے تھے۔ شیخ مجیب الرحمن قومی الیکشن بھاری اکثریت سے جیتے جنرل یحییٰ خان نے ایک مرتبہ اسمبلی کا اجلاس بلایا اور ملتوی کر دیا، دوبارہ اسمبلی کا اجلاس ۲۲ مارچ۱۹۷۱ء کو رکھا گیا نامعلوم وجوہات کی بنیاد پر جنرل یحییٰ خان نے اس اجلاس کو بھی ملتوی کر دیا دوسری طرف مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی نے واضح اکثریت لی تھی وہ کسی صورت میں ڈھاکا اسمبلی کا اجلاس نہیں ہونے دے رہے تھے انہوں نے اعلان کیا کہ ’’جو ڈھاکا اسمبلی اجلاس میں جائے گا میں اس کی ٹانگیں توڑ دوں گا‘‘ اور بالآخر انہوں نے یہاں تک کہا کہ ’’ادھر اور اُدھر دونوں اطراف کے علٰیحدہ دستور بنائیں گے‘‘ ان مخلوط الیکشن کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے تو شیخ مجیب الرحمن کو بڑی تعداد میں ہندو قومیت کے ووٹ پڑے تھے بنگال میں تقریباً ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہندو تھے جو پڑھے لکھے اور تعلیمی اداروں میں جاب کر رہے تھے۔ جب شیخ مجیب الرحمن سے حق حکمرانی چھین لیا گیا تو اس نے جلسے جلوس، مظاہرے شروع کر دیے جو ایک تحریک کی شکل اختیار کر چکے تھے، اس دوران مذاکرات بھی جاری رہے اور شیخ مجیب الرحمن نے چھے نکات پیش کیے جس کو مغربی پاکستان کی قیادت نے ماننے سے انکار کر دیا شیخ مجیب کے مقابلے میں پی ڈی ایم نے جو مطالبات پیش کیے وہ آٹھ نکاتی مطالبات تھے تجزیہ نگار لکھتے ہیں کہ اگر مغربی پاکستان کی قیادت چھے نکاتی مطالبات پر بات کرتی تو بنگلا دیش کسی صورت میں نہ بنتا لیکن شیخ مجیب یہ فیصلہ کر چکے تھے کہ حق حکمرانی ان کو ملے یا پھر ملک کو توڑ دیا جائے گا۔
ایک طرف یہ اندرونی خلفشار تھا تو دوسری طرف عالمی طاقتوں، اور بھارت نے بھی فیصلہ کیا ہوا تھا کہ پاکستان کے دونوں حصوں کو علٰیحدہ کرنا ہے، ایک طرف بنگال میں ڈیڑھ کروڑ ہندو جو تعلیمی اداروں اور اہم پوسٹوں پر کام کر رہے تھے انہوں نے اپنا کردار ادا کیا تعلیمی اور سرکاری اداروں میں نفرت کو خوب بھڑکایا اور ساتھ ہی قائداعظم اور علامہ اقبال کی تصویروں کو اتروا کر نہرو اور گاندھی کی تصاویر آویزاں کر دی تھیں۔ دوسری طرف مکتی باہنی تحریک کو بھارت کی سپورٹ تھی جو تعلیمی اداروں اور سر کاری اداروں میں نفرت پھیلانے میں مصروف عمل تھی، تیسری طرف مارچ ۱۹۷۱ء میں بھارت کی پارلیمنٹ میں اندرا گاندھی نے ایک قرار داد پیش کی کہ ہم بنگلا دیش کی تحریک آزادی کی مکمل حمایت کریں گے قرارداد کو حکومت اور اپوزیشن نے متفقہ طور پر منظور کیا اس سے یہ بات بالکل واضح تھی کہ بھارت بنگلا دیش میں واضح مداخلت کر رہا ہے۔ چوتھی طرف مغربی پاکستان کی عاقبت نااندیش قیادت بار بار اسمبلی کا اجلاس ملتوی کرتی رہی اور ساتھ ہی جنرل یحییٰ خان نے فوجی آپریشن کا فیصلہ کر دیا حالانکہ ان کو یہ بات معلوم تھی کہ ایسے مقامات پر فوجی آپریشن کا کامیاب کرنا کتنا مشکل کام تھا۔ کیونکہ سپلائی لائن کوئی نہیں تھی اور مشرقی پاکستان میں صرف ۸ سے ۱۰ ہزار فوجی تھے اگرچہ بعد میں فوجی تعداد میں اضافہ بھی ہوا۔ جنگ بھی ہوئی البدر الشمس نے بھی فوج کے ساتھ کھڑے ہو کر ملک کا دفاع کرنے کی کوشش کی لیکن جب نومبر ۱۹۷۱ء میں انڈیا نے اپنی فورسز اندر داخل کر دیں۔ یہ تھیں وہ وجوہات جن کی وجہ سے مشرقی پاکستان بنگلا دیش بن گیا اور پھر اندرا گاندھی نے کہا کہ آج ہم نے دوقومی نظریہ کو خلیج بنگال میں دفن کر دیا۔
مغربی دنیا کو اسلامی دنیا سے ہمیشہ ایک ہی خوف رہا ہے کہ جب بھی اسلامی دنیا ترقی کر ے گی یا اسلامی دنیا میں جمہوریت ترقی کرے تو وہ اپنے ساتھ مذہبیت یعنی اسلامائزیشن کو لے کر آئے گی۔یہ بات ولفریڈکینٹ ویل سمتھ نے اپنی دو کتابوں میں ’’اسلام تاریخ جدید کے آئینے میں‘‘ اور ’’پاکستان بطور اسلامی ریاست‘‘ میں لکھی۔ جبکہ یہی بات ۶۰ کے عشرے میں ڈاکٹر ہنری کسنجر بھی اپنی تقاریر میں کہتا تھا عرب دنیا میں جمہوریت کے آنے سے اسلام کا سیاسی کردار مضبوط ہوگا۔ اس وجہ سے عرب ریاستوں کو تقسیم کیا گیا اور مسلم دنیا میں نسلی اور فرقہ واریت کو ہمیشہ عام کیا گیا اور اسلامی تحریکات کو کچلنے کی پالیسی پر عمل کیا گیا۔ کبھی اسلامی دنیا کو معاشی لحاظ سے مستحکم نہیں ہونے دیا گیا۔
ولفریڈکینٹ ویل سمتھ اور ہنری کسنجر کے بیانات اور پھر عرب دنیا کی تقسیم اور پھر اس کے بعد تقسیم پاکستان کے بعد بھی مغربی دنیاکبھی چین سے نہیں بیٹھی بلکہ وہ چاہتی ہے کہ اسلامی دنیا میں کبھی حقیقی قیادتیں نہ آئیں جو اسلام اور اپنے ملک و قوم کے مفاد میں کام کریں آج ہمارے داخلی مسائل کو اگر دیکھا جائے تو پورے ملک میں کوئی ایسی قدآور شخصیت نہیں ہے جو تمام سیاسی پارٹیوں کو ایک پلیٹ فارم پر بیٹھا سکے اور قوم کی رہنمائی کر سکے۔ ہمارے ملک میں ۲۰۰۸ء سے ۲۰۲۲ء تک ظاہراً جمہوری نظام چل رہا ہے لیکن اس کو بھی اسٹیبلشمنٹ نے کنٹرول کیا ہوا ہے جب وہ چاہتے ہیں اپنی مرضی کے فیصلے کروا لیتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بددیانت ترین، بداخلاق ترین قیادتیں مسلط ہیں خواہ وہ سیاست دانوں کی شکل میں ہوں یا دیگر قومی اداروں کی شکل میں الا ماشاء اللہ سب ہی کرپٹ اور بدیانت ہیں۔ اسی طرح عدلیہ کا کردار بھی کوئی مثبت نہیں ملک میں انصاف سیل پر لگا ہوا ہے جتنا بڑا مقدمہ اتنی بڑی سیل پر فیصلہ ہو جاتا ہے۔ میڈیا میں سے چند لوگ ہیں جو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر حق گوئی اور سچی بات عوام تک پہنچا رہے ہیں لیکن مجموعی طور پر میڈیا بھی اپنے مالی مفادات کے تحفظ میں لگا ہو ا ہے۔
اس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو آج سانحہ بنگلا دیش کو ۵۲ سال ہو گئے لیکن ہم نے اس سے کیا سبق سیکھا کیا ان ۵۲ سال میں ہم نے اپنی قومی ترقی میں اضافہ کیا۔ قومی اداروں میں ترقی ہوئی یا ہم نے قوم کو غربت کی لکیر سے باہر نکالنے کی کوشش کی یا پھر ہم نے داخلی اور خارجی امور میں ترقی کی۔ کیا ملک میں امن وامان کے حالات بہتر ہوئے۔ ان تمام سوالوں کے جوابات نفی میں ملتے ہیں۔ آج قومی ادارے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ معاشی عدم استحکام ہے۔ خارجہ امور میں مغربی طاقتوںکی مداخلت بہت بڑھ گئی ہے۔ وفاق اور صوبہ جات میں کشمکش چل رہی ہے۔ ان تمام حالات میں دیکھا جائے تو اس وقت ملک کو چند ایسے خطرات لاحق ہیں جو اس سے پہلے کبھی نہ تھے۔
آج ملک میں معاشی عدم استحکام ہے ملک میں قومی پیداوار کا ۸۵ فی صد حصہ سود اور قرضوں میں ادا کیا جا رہا ہے، ملک ۱۲۷ بلین ڈالر سے زائد کا مقروض ہو چکا ہے شرح سود میں روز بروز اضافہ کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف مغربی طاقتیں اور قادیانی لابیاں اس کوشش میں ہیں کہ ملک کے دستور ہی کو اڑا دیا جائے تاکہ قرارداد ِ مقاصد، حاکمیت اعلیٰ، ناموس رسالت، حرمت سود اور قادیانیوں کو کافر قرار دینے والی شقوں کا یکجا خاتمہ ہو جائے نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری، تیسری طرف ملک کو معاشی لحاظ سے اتنا عدم استحکام کا شکار کر دیا جائے تاکہ ملک میں غربت، مہنگائی اور بے روزگاری بڑھ جائے ملک میں عدم استحکام پیدا ہو جو پولیس اور فوج کے کنٹرول سے باہر ہو جائے۔ ملک میں عوام اور فوج کو باہم دست وگریباں کر دیا جائے، اور یہ کام پچھلے ۱۰ ماہ میں ہوا ہے اگر ملک کے عوام اور فوج دست وگریباں ہو جائیں تو فوج ایٹمی اثاثوں کا تحفظ کیسے کرے گی فوج داخلی اور خارجی محاذ پر جنگ کیسے کرے گی۔ لیکن آج سب سے بڑا چیلنج بلوچستان اور کشمیر کے محاذ پر ہے بلوچستان اور کشمیر کو علٰیحدہ کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں خصوصاً کشمیر کو خود مختار کشمیر بنا کر نیٹو فورسز اتارنے کی کوششیں جاری ہیں اگر ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو سقوط ڈھاکا سے اب ہم سقوط کشمیر کی طرف ہم بڑھ رہے ہیں۔ اللہ ہمیں عقل اور سمجھ عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔