مجھے دوسرے شہروں کا تو علم نہیں لیکن کراچی میں کہیں بھی اور کسی جگہ بھی مسجد تعمیر کر لینا اور پھر ایک زندہ مخلوق کا طرح اس کے حجم میں خود بخود اضافہ ہوتے رہنا ایک معمول کا طریقہ کار سمجھا جانے لگا ہے۔ ویسے تو کراچی پاکستان کا ایک ایسا شہر بنا دیا گیا ہے جہاں پاکستان کی کوئی بھی مخلوق کہیں سے بھی اٹھ کر آ سکتی ہے اور جہاں دل چاہے اپنا بوریا بستر ڈال کر اسے اپنا مستقل ڈیرہ بنا سکتی ہے۔ جہاں چار گھر آباد ہو جائیں وہاں پانی، بجلی اور سوئی گیس کا محکمہ ان پر ابر ِ رحمت کی طرح چھا جاتا ہے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے کوڑیوں کے مول والی زمین سونا چاندی بننا شروع ہوجاتی ہے۔ چند ہی برس میں وہاں پھوڑوں پھنسیوں کی مانند تاحد ِ نظر مکانات پر مکانات تعمیر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ یہ سب کام کسی منصوبہ بندی کے بغیر ہوتے ہیں اس لیے نہ تو گلیاں کسی مہذب تہذیب کی تصویر پیش کر رہی ہوتی ہیں نہ ہی سیوریج میں کوئی باقائدگی نظر آ رہی ہوتی ہے۔ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جن کے وسائل کم سے کم ہوتے ہیں ان کے گھر انسانوں کی کھیتیوں کی کھیتیاں اس تیزی کے ساتھ لہراتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ چند ہی برسوں میں چند ہزار کی آبادی لاکھوں میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جہاں انسانوں کی نہ تو آمد پر کوئی قدغن ہو اور نہ ہی ان کے کہیں بھی بستیاں تعمیر کرنے پر پابندیاں، وہاں مسائل ہی مسائل کا نظر آنا کوئی انہونی کیسی ہو سکتی ہے۔ اس طرح بلا کسی منصوبہ بندی، بستیوں کی بستیاں بنتے چلے جانے کا مسئلہ اپنی جگہ لیکن مستقل آبادیوں سے کہیں زیادہ ان کچی آبادیوں کی مہمانداری، پانی، بجلی اور گیس والے جس انداز میں کرتے ہیں، یوم آخرت اللہ ہی ان کی مہمان نوازی کا صلہ دے سکتا ہے۔ ایسی آبادیوں والے بصد مشکل پانچ دس فی صد گھرانے ہی بلوں کی ادائیگیاں کرتے ہوں گے۔ ایک مہر بانی یہ بھی ہے کہ 90 فی صد سے زیادہ گھروں کے بجلی کے بل ’’فکس‘‘ آتے ہیں اور وہ بھی نہایت کم قیمت چنانچہ وہاں کے رہائشی اس کا خوب خوب فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایسے علاقوں کے رہائشی زیادہ تر وہ ہیں جن کی خواتین گھروں میں ’’ماسیاں‘‘ بن کر محنت مشقت کرتی ہیں۔ ہزار روپے کے بجلی کے بل سے چار پانچ ہزار سے بھی زائد کما کر اپنی آمدنیوں میں مزید اضافہ بھی کر لیتی ہیں۔ جن گھروں میں کام کرتی ہیں ان گھروں سے کپڑے لا کر مشینوں میں دھوتی ہیں، استریاں کرتی ہیں اور اڑوس پڑوس میں کچی پکی دکانوں میں بجلی فراہم کرکے ان کی مشیونوں کو رواں رکھنے کا بھاری کرایہ بھی وصولتی ہیں۔ ستم یہ ہے کہ مستقل آبادیوں والے اس کا ڈنڈ بھر بھر کر اپنی قسمت کو کوس رہے ہوتے ہیں۔
جس شہر کی بدنظمی کا یہ عالم ہو وہاں اگر جگہ جگہ اور وہ بھی ’’بے جگہ‘‘ مساجد تعمیر ہو جائیں اور پھر ان کے حجم میں ہر ماہ اضافہ بھی ہوتا جائے، اس کو خلاف ِ عقل و فہم کیسے کہا جا سکتا ہے۔ یہ مسئلہ اب نہ تو شرعی لحاظ سے غلط سمجھا جاتا ہے اور نہ ہی اس سلسلے میں زمینی قانون حرکت میں آ سکتا ہے۔ جس جس جگہ بھی ایسی مساجد تعمیر کی جاتی ہیں وہ کار ثواب اور ان کے خلاف اعتراض کفر کہلاتا ہے اس لیے اس معاملے میں دین و دنیا دونوں ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہوجاتے۔
کراچی کا اب ہر علاقہ فلیٹوں کا جمعہ بازار بنتا جا رہا ہے۔ منافع خور کوڑیوں کی زمین پر لاکھوں روپوں میں ہزاروں اپارٹمنٹ بنانے کے بعد کروڑوں میں فروخت کرنے کے باوجود اپنے اپنے احاطوں میں مسجد کے لیے ایک فٹ کی جگہ بھی مختص نہیں کرتے۔ ایک جانب یہ ظلم ہے کہ مسجد کی کوئی جگہ ہی مختص نہ ہو، دوسرا ظلم یہ کہ ہر فلیٹ کی عمارت کی وہ جگہ جو کار پارکنگ کے لیے بنائی جاتی ہے، بلڈرز ان میں مساجد بنانے کی اجازت نہایت فراخ دلی کے ساتھ دیدیتے ہیں۔ فلیٹوں کا ایک ایک رہائشی یہ بات خوب اچھی طرح جانتا ہے کہ جس کار پارکنگ میں مسجد نے جگہ گھیر لی ہے اس جگہ کی رقم وہ فلیٹ کی بکنگ کے ساتھ ہی ادا کر چکا ہوتا ہے۔ گویا یہ ہزاروں انسانوں کی ادا کی ہوئی رقم پر ایک بڑا ڈاکا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر سو ڈیڑھ سو کار پارک ہونے کی جگہ پر جب مسجد بنادی جائے گی تو وہ کاریں باہر کی سڑکوں یا گلیوں میں کھڑی نہیں ہوں گی۔ ایسی کاروں کے شیشے، بیٹریاں، ٹائر ٹیوب اور پٹرول کے چوری ہوجانے، اور لاکھوں روپوں کی کاروں کی بربادی کا ذمے دار کون ہوگا۔ یہ سوال بلڈروں، ان مسلمانوں سے جنہوں نے ایسا کرنے اجازت دی ہو یا وہ تمام افراد جو ایسی مساجد میں پنج وقتہ نماز، بشمول نماز جمعہ، ادا کرتے ہیں، بروزِ حشر نہیں پوچھا جائے گا؟۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب نہ صرف مفتیانِ شرع سے پوچھا جانا چاہیے بلکہ ان تمام افراد سے بھی لازماً کرنا چاہیے جو نہ صرف اسے کارِ ثواب قرار دیتے ہیں بلکہ اگر کوئی ایسی غیر شرعی اور حقوق العباد کی خلاف ورزی پر آواز اٹھائے تو اسے اسلام دشمن اور دین میں فتنہ پرور قرار دیکر اس سے اس کے زندہ رہنے کا حق تک چھین لینے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ مفتیانِ دین اور علمائے کرام اس معاملے کی جانب ضرور توجہ فرمائیں گے اور ایسا کام جو میرے نزدیک ’’کارِ ثواب‘‘ سے کوئی تعلق ہی نہیں رکھتا، اس کے خلاف اپنی آواز ضرور بلند کریں گے۔