قومی وسائل کا ضیاع، لمحہ فکر

678

اخبارات کی خبروں کی اپنی اہمیت لیکن ان کے اداریوں کا اگر مطالعہ نہ کیا جائے تو حاصل ِ مطالعہ تضیع ِ اوقات کے سوا شاید کچھ بھی نہ ہو۔ آج کل کے دور میں ویسے بھی ہر جانب خبریں ہی خبریں تسبیح کے دانوں کی مانند بکھری بکھری نظر آتی ہیں۔ بیسیوں ٹی وی چینل چوبیس چوبیس گھنٹے صرف خبریں دینے کے سوا اور کرتے ہی کیا ہیں۔ اس کے علاوہ بھی مقامی و بین الاقوامی سطح پر قائم اور بہت سارے ذرائع ایسے ہیں جو پوری دنیا کے حالات سے آگاہی دیتے رہتے ہیں۔ اگر دیانتداری سے دیکھا جائے تو پرنٹ میڈیا، جس میں سرِ فہرت اخبارات آتے ہیں، ان میں شائع ہونے والی خبریں تو کم از کم ویسے ہی 24 گھنٹے کی باسی ہو چکی ہوتی ہیں البتہ ان میں تفاصیل ممکن ہے کہ چینلوں اور سماجی سائیٹوں پر نشر کی جانے والی خبروں سے زیادہ موجود ہوتی ہوں۔ اخبارات کے اداریے یا ان میں شائع ہونے والے کالم نگاروں کے کالم اگر غیر اہم ہوتے تو اخبارات میں ان کے صفحات کیونکر مختص ہوا کرتے جبکہ ہر وہ ادارہ جو اخبار شائع کرتا ہے اس کے ایک ایک ’’مسکر انچ‘‘ کی بڑی قیمت ہوتی ہے جس کا اندازہ اشتہارات شائع کراتے وقت خوب اچھی طرح ہو جاتا ہے۔
اداریے جن جن اہم باتوں کا احاطہ کرتے ہیں دراصل وہ پڑھنے والوں کے اذہان جھنجوڑ جھنجوڑ کر، ملکی و غیر ملکی بے شمار اہم مسائل و معاملات پر قوم کو دعوتِ فکر دے رہے ہوتے ہیں یا انہیں آنے والے خوش کن یا تشویشناک حالات سے آگاہ کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر جسارت کے اداریے (30 نومبر 2022) کا بغور مطالعہ کیا جائے تو پاکستانی عوام کے لیے اس میں بہت کچھ ایسا ہے جو ان کو اور منتخب ہوکر اسمبلیوں میں جانے والے عوامی نمائندوں اور رہبرانِ قوم کے ذہنوں کو ہلا کر رکھ دینے کے لیے کافی ہے۔ کرپشن یا بدعنوانی ایک ایسا موضوع بن چکا ہے جس پر عام گلیوں میں پھیری لگا کر اپنی روزی کمانے والے سے لیکر عالی شان محلوں میں عیاشی کی زندگی گزارنے والے تک، سب ہی بحث کرتے نظر آتے ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ نہ تو کوئی اپنے پانچ چھے فٹے جسم سے اس لعنت کو دور کرنا چاہتا ہے اور نہ ہی اس کے حل کے لیے کوئی ٹھوس قانون بنانے کے لیے تیار ہے البتہ جب بھی کوئی انگلی اس کی جانب اٹھتی ہے وہ دوسرے بدعنوانوں کے حوالے دے کر اپنے لیے بدعنوانی کو جائز قرار دینے مصروف ہو جاتا ہے۔ بدعنوانی کا عالم یہ ہے کہ اعلیٰ ایوانوں میں رہنے والوں سے لیکر نہایت نچلے درجے تک کے انسانوں کے روئیں روئیں تک سرائیت کر چکی ہے۔ اختیار و قدرت کے مطابق سب ہی اس کی شیطانیت کی زد میں ہیں۔ اگر ایمانداری کے ساتھ اس کے خاتمے کا آغاز کیا جائے تو بڑی بڑی شارکوں اور مگر مچھوں سے بلا امتیاز آغاز کیا جانا ضروری ہے، چھوٹی چھوٹی مچھلیاں اور چھپکلیاں خود ہی سہم کر اپنے آپ میں سے اس لعنت کو نکال پھینکیں گی۔
پاکستان میں بہر لحاظ جو جتنا ’’طاقتور‘‘ اور اختیار والا ہے وہ اتنے ہی بڑے پیمانے پر بدعنوانی میں ملوث ہے۔ کیا سیاستدان، کیا طاقتور ادارے، کیا دولت مند، کیا وڈیرے، کیا چودھری، کیا ملک، کیا سردار، کیا عدالتوں کے ٹھیکیدار اور کیا قانون نافذ کرنے والے ادارے، سب کے سب بدعنوانی کی بہتی گنگا سے اپنے اپنے لیے بڑی بڑی نہریں نکالنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارے الیکٹرونک میڈیا اور سماجی ویب سائٹوں نے صرف ملک کی دولت میں خورد برد کرنے ہی کو کرپشن یا بد عنوانی قرار دیا ہوا ہے۔ کسی کی بھی توجہ اس بات کی جانب نہیں جا رہی کہ ملک کے مالی وسائل کا بے دریغ اور بے جا استعمال بھی بڑے کرپشن کی ایک بھیانک شکل ہے۔ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے پچاس پچاس گاڑیوں کا قافلہ، الیکشن میں سرکاری وسائل اور مشینری کا استعمال، جلسوں میں سرکاری جہاز اور ہیلی کاپٹروں کا سفر، پورے ملک میں ایک شہر سے دوسرے شہر آنے جانے کے لیے ملنے والی سفری رعایتوں کا ناجائز استعمال، اپنے فرائض ِ منصبی کے بجائے حکمرانوں کے بے شمار غیر ملکی دورے، اعلیٰ ہوٹلوں میں قیام جیسے نہ جانے کتنے پہلو ہیں جن کو بدعنوانی میں جیسے شمار ہی نہیں سمجھا جاتا۔
ایک بدعنوانی یہ بھی ہے کہ الیکشن کے موقعوں پر ہمارے رہنمایانِ قوم کئی کئی حلقوں سے الیکشن میں کھڑے ہوتے ہیں۔ بے شک اس کا مقصد اپنی شہرت کو منوانا ہو یا ایک ہی حلقے سے الیکشن لڑ کر ہارجانے کے نتیجے میں سیاسی موت کا خوف، ہر دو صورت میں قوم کا سرمایہ اور عوام کے وقت کا ضیاع سامنے آتا ہے کیونکہ کئی کئی نشستوں پر کامیابی کے بعد بھی ایک کے علاوہ سب خالی ہوجانے والی نشستوں پر ضمنی الیکشن کی صورت میں قوم و ملک کا اربوں روپیہ ضائع ہوتا ہے جس کو نہ جانے بدعنوانی میں شمار کیوں نہیں سمجھا جاتا۔
جسارت کے اداریے میں ایسے ہی کئی نکات کو اٹھایا گیا ہے اور رہبرانِ قوم کے ساتھ ساتھ عوام کے ذہنوں میں یہ بات اجاگر کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ امر بڑی بد عنوانیوں میں سے ایک ہے لہٰذا اس سلسلے کو نہ صرف ختم کیا جانا چاہیے بلکہ اس کے لیے قانون سازی کر کے یا تو کسی بھی امید وار کو ایک سے زائد حلقوں سے کھڑے ہونے کی اجازت ہونی ہی نہیں چاہیے یا پھر خالی کی جانے والی نشستوں پر ضمنی الیکشن کے تمام کے تمام اخراجات امید وار یا ذمے دار پارٹیوں کے کھاتوں سے وصول کیے جانے چاہئیں۔ جب تک بہت سارے بدعنوانی کے راستوں پر مضبوط پشتے تعمیر نہیں کیے جائیں گے اور جرم کے مرتکب افراد کے خلاف قوانین بنا کر انہیں قانون کے تحت سخت ترین اور بر وقت سزائیں نہیں سنائی جائیں گی اس وقت تک یہ سمجھ لینا کہ کسی بھی قسم کی بدعنوانی کا خاتمہ ممکن ہے، دیوانے کی بڑ کے علاوہ اور کچھ نہیں۔