نئے آرمی چیف عاصم منیر نے سابق آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی دی ہوئی چھڑی تھام لی۔ اس چھڑی سے وہ لیفٹ رائٹ تو کراسکے مگر کام نہ لے سکے جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ اچھے بھلے لٹھ کے آگے سیدھے ہوجاتے ہیں۔ ہاں یہ مقولہ انہوں نے چھے سال آرمی چیف رہ کر ثابت ضرور کردیا کہ جس کی لاٹھی ہوتی ہے بھینس اُس ہی کی ہوتی ہے۔ جمہوریت اس دورانیہ میں بھینس ہی رہی اور اس نے عقل سے بڑی ہونا نظریہ ضرورت کے تحت ثابت بھی کردیا کہ ہر دلیل معقول اُس کے سامنے قابل عمل نہ ٹھیری اور وہی گاجریں پھر کھانی پڑیں جن کو لتاڑ کر کوڑے دان میں پھینک دیا گیا تھا۔ یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا، کمانڈو آرمی چیف جو چیف ایگزیکٹو بنے انہوں نے بھی پی پی پی اور نواز لیگ کی کتاب یہ کہہ کر بند کردی تھی کہ ان کی کہانی ختم ہوگئی مگر پھر ہوا کیا کہ اس کہانی سے سمجھوتا کرنا پڑا۔ اور نسوانی قیادت کے سامنے اس مرد آہن نے سودا بازی کرکے سرنگوں کیا۔
قمر باجوہ کا چاند وقت پر غروب ہوا، اب بقول ان کے وہ گمنامی میں جانے اور فوج سے روحانی تعلق رکھنے کی خواہش رکھتے ہیں مگر کیا کریں اس میڈیا کا جو اُن کے فرزند نیک اختر کے سسرالیوں کے حوالے سے اس پارس کی بات اچھال رہا ہے کہ جس نے دیکھتے ہی دیکھتے اس خاندان کو بارہ ارب کا مالک کردیا۔ اس گمنامی کی خواہش اس کھیل سے جان چھڑانے اور روح کو تسکین حاصل کرنے کی ہے۔ چودھری شجاعت حسین کے مشہور زمانہ مٹی پائو جملہ کے تحت کیا وہ قصہ پارینہ ہوجائیں گے؟ اب نئے سترہویں آرمی چیف عاصم منیر ہوگئے ہیں جو حافظ قرآن ہیں، دینی وابستگی کے سینہ میں قرآن ہے، پھر قرونِ اولیٰ کی یاد پاکستانیوں کو آگئی ہے اور کچھ ان کو ضیا الحق کی روح حکمرانی کا پرتو سمجھ رہے ہیں کہ وہ جہاں اسلامی کہانی چھوڑ گئے اس کو پورا کریں گے۔ نظام صلوٰۃ و زکوٰۃ ہی کو یہ جھاڑ پونچھ صاف کریں گے۔ مگر لوگوں میں توقع تو اس سے بڑھ کر ہے کہ یہ اس پیش گوئی کا سامان کریں گے جو 2000ء میں ایک اللہ لوگ نے کی کہ ٹوٹی لنگڑی جمہوریت کے ادوار کے بعد ایک ایسا حکمران آئے گا جو سب کو سیدھا کردے گا۔ دائیں کو بخشے گا نہ بائیں کو چھوڑے گا اور جس کی تشریح مرحوم پگاڑو لانگ بوٹ والے کے حوالے سے کرتے کرتے اور اپنی زندگی میں اس کو پورا ہونے کی خواہش رکھتے اللہ کو پیارے ہوگئے اور یوں ہی آئی ایس آئی کے سربراہ حمید گل گرم انقلاب سے بچنے کی تلقین کے ساتھ سانس پورے کرگئے اور پاکستانیوں کی غالب اکثریت کی روحیں اس انقلاب کی تلاش میں بھٹک رہی ہیں کہ وہ اپنی زندگی میں اس کو دیکھ کر سکھ کی موت مرسکیں، ان کی خواہش ان لٹیروں کو پھانسی کے پھندے پر دیکھنے کی سب جو قانون کو مکڑی کے جالے کی طرح توڑ کر دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں کو دھوکا دے دیتے ہیں اور سرخرو ہوجاتے ہیں۔ ان حافظ قرآن سے عدل کی یہ توقع تو کی جاسکتی ہے جو انصاف کے علمبرداروں کے لیے نبی اکرمؐ نے فرمایا۔ میری بیٹی فاطمہ چوری کرے گی تو اس کا ہاتھ کٹے گا، مگر یہ تو آرمی چیف ہے جج تو نہیں، بات اس جملہ کی حد تک درست ہے جب ریمنڈڈیوس قاتل کو عدالت سے رہا کرانے میں اہم ترین کردار صرف امریکا کو راضی کرنے کے لیے یہ ادارہ کرسکتا ہے تو اللہ اور اس کے رسولؐ جن کے امتی اور شریعت کے علم کے حامل نئے آرمی چیف انصاف کے شرعی مسلمہ اصول کے لاگو کرانے کے لیے اپنی قوت کو استعمال کرنے میں جھجھک بھی محسوس کیسے کریں گے اچھی امید رکھنی چاہیے ویسے بھی یہ 17 ویں آرمی چیف علم اعداد کی روشنی میں یہ 8 کا عدد بنتا ہے جس کی خاصیت ماہر علم اعداد تخت یا تختہ کی صورت بتاتے ہیں یہ نظریہ پاکستان سے مملکت کو ہم آہنگ کردیں گے؟۔ واللہ اعلم