سراج الحق صاحب کے ارشاد اتِ عالیہ… جواب آں غزل

944

22 نومبر روزنامہ جنگ میں ادارتی صفحہ پر سراج الحق صاحب کے متعلق کالم پڑھنے کو ملا۔ بلا مبالغہ معروف کالم نگار، مسلم لیگ ن کے سینیٹر جناب عرفان صدیقی، جماعت ِ اسلامی کے اُن کرم فرماؤں میں سرفہرست ہیں جن کے دل میں سید مودودی کی میراث، جماعت اسلامی کی قدر و منزلت بظاہر اوج ثریا کو چھو رہی ہے لیکن قلم کے دھنی اور نقش خیال کے نقیب، جماعت اسلامی پر تنقید و تنقیص کے کسی نہ کسی موقع کی تلاش بلکہ تاک میں رہتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ موقع پاتے ہی حضرت خود بھی اور اُن کا قلم بھی خیالِ خاطر ِاحباب کا اصول پس منظر میں دھکیل کر صف شکن شہسوار کی مانند تیر و نشتر سے لیس ہو کر اخبارات کے میدان کار زار میں کود پڑتے اور خوب ہنر آزماتے ہیں۔
امیر جماعت ِ اسلامی پاکستان سراج الحق نے لاہور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے فرمایا کہ: ’’آرمی چیف کے تقرر کے لیے وزیر اعظم کا صوابدیدی اختیار ختم ہونا چاہیے، یہ تقرر چیف جسٹس آف پاکستان کی طرح (سنیارٹی کی بنیاد پر) ہونا چاہیے۔ اِس معاملہ کو سیاستدانوں کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، دْنیا میں ایسی کوئی مثال نہیں کہ اِس طرح کے تقرر کے لیے سیاسی جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہوں۔ سیاسی کھینچا تانی کے بعد جو آرمی چیف آئے گا، وہ ادارے کو دیکھے گا یا سیاسی پارٹیوں کے مفادات کو‘‘۔
حالات و واقعات اور تقرر کے فیصلے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی کہ سراج الحق کی رائے صائب اور بروقت تھی اور پوری قوم میں اِس تقرر پر اطمینان پایا جاتا ہے انصاف اور میرٹ ہی وہ کسوٹی ہیں جو کسی بھی اُلجھے ہوئے مسئلے کو حل کرنے میں اکسیر کا درجہ رکھتی ہیں۔ ایسے موقع پر جب شریف خاندان کے کسی بھی مفاد و اختیار پر زد پڑنے لگے تو صدیقی صاحب کی افتادِ طبع کی شاخ جذبات و احساسات کے خون سے لالہ رنگ ہو جاتی ہے اور اُنہیں نہ صرف میراث مودودی جماعت ِ اسلامی اور اُس کی مجلس شوریٰ کا خیال ستانے لگتا ہے بلکہ 75 سالہ دستوری تقاضے اور پختہ روایات ٹوٹنے کی واحد ذمے دار بھی جماعت ِ اسلامی یا اُس کے امیر نظر آنے لگتے ہیں۔
میں اپنی تمام تر خواہش کے باوجود نہیں معلوم کہ یہ بات کیوں نہ بھول پایاکہ سید مودودی کی میراثِ تدبر کے پاسبان سینیٹر عرفان صدیقی نے اپنے ساحرانہ زورِ قلم سے یہ سوال قبلہ میاں نواز شریف کی درگاہِ اقدس میں کیوں نہ اُٹھایا کہ آپ ایک آئین شکن فوجی جرنیل اور بنیادی حقوق سلب کرنے والے ڈکٹیٹر کے کندھے پر سوار ہو کر لیلائے اقتدار سے ہم آغوش کیوں ہوئے اور پھر مسلم لیگ پر قبضہ کے لیے ایک جمہوریت پسند سیاستدان محمد خان جونیجو کے ساتھ مینارِ پاکستان کے سائے تلے ہتک آمیز سلوک کیوں کیا گیا لفنگوں سے اُن کی توہین کیوں کرائی گئی، اُن کی وفات کی بعد ابھی اُن کی لاش کی تدفین کا عمل بھی مکمل نہ ہوا تھا لیکن میاں صاحب نے مسلم لیگ کی صدارت پر قبضہ کرکے اپنے اندر چھپے ہوئے ڈکٹیٹر کی تمام علامات ظاہر کر دیں۔ ہماری جمہوریت کو بے چہرہ کرنے اور نامہرباں موسموں کے حوالے کرنے میں کس کس سیاستدان کا ہاتھ تھا، کون نہیں جانتا کہ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے مقابلے پر پیدائشی مسلم لیگی غلام حیدر وائیں سمیت سیکڑوں نامور مسلم لیگی ہی تھے جو جنرل ایوب خان کے لیے زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے خم ٹھونک کر جمہوریت کے تابوت میں میخیں گاڑ رہے تھے۔ جن سیاستدانوں کو عالی مرتبت صدیقی صاحب منہ زور اور تلاطم خیز ہواؤں کے رحم و کرم پر دیکھ کر تشویش و اضطراب کا شکار ہیں اُنہی سیاستدانوں نے جرنیلوں کے لیے ہمیشہ، آوے آوے، جیوے جیوے اور زندہ باد کے فلک شگاف نعرے لگائے۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ایسے ابن الوقت، چاپلوس، درباری، خوشامدی، ہر رنگ میں رنگے اور ہر سانچے میں ڈھل جانے والے بیش تر سیاستدانوں کا تعلق عرفان صدیقی ہی کی جماعت سے ہے جنہوں نے جنرل ایوب خان کو فخر ایشیاء، سویلین مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو کو قائد عوام، جنرل ضیاء الحق کو مسلم اُمہ کا ہیرو اور جنرل پرویز مشرف کو عالمی مدبر قرار دے کر وزارتوں اور ممبریوں کے مزے لوٹے۔
اگر پارلیمان اور اُس کے ارکان بے بال و پر ہیں تو اُنہیں جواب دینا چاہیے کہ ایسے کوثر و تسنیم اور دودھ کے دھلے اور آب زم زم کی مْصفا چھلنی سے چھن کر آنے والے سعد رفیق، احسن اقبال، خواجہ آصف اور دیگر ارکان پارلیمان جنرل پرویز مشرف کے دربارِ شاہی میں اُسے صدرِ پاکستان تسلیم کرتے ہوئے کیوں حلف لے رہے تھے پھر ’’محافظ جمہوریت‘‘ میاں نواز شریف اُسی جنرل پرویز مشرف سے ڈیل کرکے رات کی تاریکی میں اپنے درجنوں بریف کیسوں کے ساتھ عازمِ سفر ہوئے۔ سْبک رفتار پرندے کی مانند اُڑان بھر کر سرور پیلس کے آنگن میں قدم رنجہ فرمایا پھر ایک عرصہ تک ڈیل کی نفی کرتے رہے لیکن ایک موقع پر پوری قوم کے سامنے تسلیم کر لیا کہ ڈیل دس سال کی نہیں بلکہ پانچ سال کی تھی۔ اَب مجھ جیسا طالب علم صدیقی صاحب جیسے منجھے ہوئے قلم کار اور بلا کا حافظہ رکھنے والے تاریخ دان کو کیسے یاد دلائے کہ فکر ِمودودی کا تقاضا تو یہ ہے کہ ڈکٹیٹر کے ہر آمرانہ اقدام کو نہ صرف چیلنج کرو بلکہ اُس کے سامنے چٹان کی مانند ڈٹ کر اُس کی آنکھوں اور دل کا خارِ مغیلاں بنو اور اُس کی نیند حرام کر دو، لیکن اِس ستم ظریفی کو کیا نام دیا جائے کہ عرفان صدیقی کی لیگ، جی ہاں ن لیگ، جنرل قمر جاوید باجوہ کو دوسری مدت کے لیے توسیع دینے میں پیش پیش تھی۔ کیا عمران خان کی پی ٹی آئی اور کیا زداری کی پی پی پی، کیا ایم کیو ایم اور کیا ق لیگ ’’اِس ٹوپی کے سائے تلے ہم ایک ہیں ہم ایک ہیں‘‘ کا راگ فوجی ساز پر نئی دھنوں اور شوکت و جمال کے ساتھ اہل جمہوریت کو مسحور کر رہا تھا اور سید مودودی کی جماعت فکر ِ مودودی کا تحفظ کرتے ہوئے جنرل کو توسیع دینے کے عمل کی مخالفت کر رہی تھی لیکن کیا مجال کہ اِس موقع پر میراثِ مودودی کا دم بھرنے والے صاحب ِ نقش ِ خیال کو جماعت ِ اسلامی کے اِس کردار پر حرفِ تحسین پیش کرنے کا خیال بھی آیا ہو۔
اگر 75 برسوں میں بھارت میں 30 آرمی چیف آئے اور پاکستان میں صرف 14… کیوں؟ اور اِسی عرصہ میں بھارت میں 14 وزرائے اعظم آئے اور پاکستان میں 31… تو کیوں؟ واقعی اِس کیوں میں ایک جہانِ معنی پوشیدہ ہے لیکن بالکل واضح ہے کہ یہ گندہ کھیل جاری رکھنے میں ہاتھ ہے مسلم لیگ کا، کنونشن لیگ کا، کونسل لیگ کا، پگاڑا لیگ کا، دولتانہ لیگ کا، جناح لیگ کا، عوامی لیگ کا، وٹو لیگ کا، اور ق لیگ کا، اور اِن لیگوں کے جھنڈے تھامنے والے بے ضمیروں کا۔
انجینئرنگ کور سے جنرل ضیاء الدین بٹ کو آرمی کا چیف بنا کر ہر ادارے کی طرح اِس ادارے کو بھی توڑ کر اپنا غلام اور باج گزار بنانے کی خواہشیں دل میں پالنے والے، اپنے خاندان اور خاندان کی ملازمہ عورتوں کو خواتین کی نشستوں پر بھرتی کرنے والے، قومی اخبارات اور صحافیوں کو سبق سکھانے والے جب ’’اُن‘‘ سے ٹکر لیتے ہیں ’’جن‘‘ کے کاندھے پر سوار ہو کر مسند ِ اقتدار تک پہنچے تھے تو ’’وہ‘‘ بھی خوب اپنا آہنی ہاتھ دکھاتے ہیں اور حالات کے خونیں منظر سے ن لیگ گھائل ہوتی ہے تو رات کی تاریکیوں میں ’’بڑے گھر‘‘ کی یاترا کے بعد غیر اعلانیہ ’’ش‘‘ لیگ منصہ شہود پر آتی ہے پھر ’’عزت مآب وزیر اعظم‘‘ کورونا کا شکار ہو کر قرنطینہ ہو جاتے ہیں اور پھرجو سمری صدرِ پاکستان کو بھیجتے ہیں اُس میں وہی کچھ تجویز ہوتا ہے جو سراج الحق صاحب نے پریس کانفرنس میں فرمایا تھا، مجھے نہیں معلوم کہ سراج الحق صاحب ایک صائب اور بروقت تجویز پیش کریں تو اہل ِ نقش ِ خیال اپنے تیر و نشتر کا رْخ جاتی عمرہ کے بجائے منصورہ کی طرف کیوں موڑ دیتے ہیں، اُنہیں سید مودودی کی مسند ِ فضلیت اور میراث ِ تدبر، متاعِ کوچہ و بازار بنی کیوں دکھائی دینے لگتی ہے؟
ن لیگ کے شیشے کے گھر میں بیٹھ کر حضرت کو جماعت ِ اسلامی پر سنگ باری کا جوش کیوں چڑھتا ہے؟ مجھے یہ سطریں تحریر کرتے ہوئے ساحر لدھیانوی یاد آئے
نہ تم صدمے ہمیں دیتے، نہ ہم فریاد یوں کرتے
نہ کھلتے راز سر بستہ، نہ یوں رسوائیاں ہوتیں
صدیقی صاحب تو بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ اب دْنیا بہت بدل گئی ہے بات اخبارات کے صفحات سے کہیں آگے چلی گئی ہے۔ برق رفتار میڈیا اور سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس اور چشم ِ زدن میں دْنیا بھر کو باخبر کر دینے والے آلات اور کیمروں نے ہر چہرے سے نقاب اُلٹ کر رکھ دی ہے وہ دن گئے کہ جب مختلف جماعتوں اور بالخصوص جماعتِ اسلامی میں نقب لگانے کے لیے دو چار کالم نویس اور آٹھ دس مضمون نگار کارکنوں کے ذہن میں غلط فہمیوں کے جنگل کاشت کرکے اپنے آقاؤں سے قلمی مزدوری کا معاوضہ اور خراج پاتے تھے۔ اگر کسی کو سید مودودی کی میراث سے واقعی کوئی لگاؤ ہے تو اُس کا تقاضا ہے کہ آمریت کی کوکھ سے جنم لیتی مسلم لیگوں میں سے ایک ن لیگ اور بے اُصولیوں، کہہ مکرنیوں، شخصی آمریت اور کرپشن اور لوٹ مار کے نئے ریکارڈ قائم کرنے والی نواز لیگ کی سینیٹ کی نشست کو ٹھوکر مار کر باہر آئیں اور پھر سید مودودی کا نام بھی لیں اور میراثِ مودودی کے تحفظ کے لیے کردار وعمل کی میزان میں اپنا وزن پیدا کریں۔ بقول اقبال
ہو صداقت کے لیے جس دل میں مرنے کی تڑپ
پہلے اپنے پیکرِ خاکی میں جاں پیدا کرے
پھونک ڈالے یہ زمین و آسمانِ مستعار
اور خاکستر سے آپ اپنا جہاں پیدا کرے