کراچی کے سوداگر

469

اے ابن آدم آپ کراچی کی حالت تو دیکھ ہی رہے ہیں، واحد جماعت، جماعت اسلامی کراچی والوں کے حق کی بات کررہی ہے۔ بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے جماعت اسلامی نے عدالت میں مقدمہکیا، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان اچھی طرح سے جانتی ہیں کہ جس دن بلدیاتی الیکشن ہوئے جماعت اسلامی جیت جائے گی اور حافظ نعیم الرحمن میئر کراچی بن جائیں گے اور دونوں کی روزی روٹی ختم ہوجائے گی۔ سندھ حکومت کارنامے کرنے میں ماہر ہے اُس نے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں مزید ترمیم کردی ہے جس سے کراچی اور حیدر آباد میں بلدیاتی الیکشن غیر معینہ مدت تک ملتوی کیا جاسکتا ہے۔ سندھ لوکل ایکٹ کی شق 34 کے تحت 120 دن کے اندر بلدیاتی الیکشن کرانا لازمی تھا مگر نئی ترمیم کے بعد 120 دن کی یہ شق ختم کردی، سندھ حکومت کا فرمان یہ ہے کہ مطلوبہ پولیس فورس دستیاب نہیں ہے، یہ عمران خان کی طرح کا ایک سیاسی بیان ہے، اگر حکومت سندھ الیکشن کروانا چاہتی ہے تو فوج کی نگرانی میں بھی بلدیاتی الیکشن کروائے جاسکتے ہیں۔ متحدہ پاکستان بھی بلدیاتی الیکشن سے بھاگ رہی ہے، وہ چاہتی ہے کہ بغیر الیکشن کے اُسے کراچی کے بلدیاتی اختیارات مل جائیں، لہٰذا اُس نے حکومت کو بلیک میل کرنا شروع کردیا۔ بات اصل میں یہ ہے کہ سندھ حکومت بلدیاتی الیکشن کرانا ہی نہیں چاہتی، وہ بہانے تلاش کرکے وقت گزار رہی ہے تا کہ مردم شماری، حلقہ بندی اور ووٹرز لسٹوں کی تیاری کا وقت آجائے اور بلدیاتی الیکشن عام انتخاب کے بعد تک ملتوی کرائے جاسکیں، مگر وہ یہ نہ بھولیں کہ اس شہر میں جماعت اسلامی کا بھی بہت بڑا ووٹ بینک موجود ہے جو سندھ حکومت اور ایم کیو ایم کی نااہلی کی وجہ روز بروز بڑھتا جارہا ہے۔ جماعت اسلامی نے عدالت عظمیٰ سے رجوع کیا اور حافظ نعیم الرحمن نے الیکشن کمیشن کو ایک ہفتے کا الٹی میٹم دیتے ہوئے کہا کہ اگر 7 دن میں انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا تو جماعت اسلامی شہر بھر میں دھرنے، احتجاج اور سندھ اسمبلی کا گھیرائو، دھرنا اور ہڑتال کی کال دے سکتی ہے۔ حافظ نعیم الرحمن نے کہا ہے کہ آرٹیکل 220 کا استعمال کرتے ہوئے کراچی میں فوری بلدیاتی الیکشن کا انعقاد کیا جائے اور فوج، رینجرز، ایف سی اہلکاروں کو طلب کیا جائے۔
اُدھر ایم کیو ایم پاکستان نے جو حکومت سے الگ ہونے کی سیاسی دھمکی دی تھی وہ اپنا کام کررہی ہے، آنے والے دنوں میں وہ اپنا حدف پورا کرلے گی۔ پیپلز پارٹی کے ان داتا آصف علی زرداری اور وزیراعظم نے اپنا سیاسی کردار ادا کرتے ہوئے ایم کیو ایم پاکستان کو سندھ حکومت میں 3 سے 4 وزارتوں کے علاوہ دو معاون خصوصی کراچی کا ایڈمنسٹریٹر، ضلع کورنگی، وسطی اور شرقی میں ایم کیو ایم کے ایڈمنسٹریٹر کے علاوہ واٹر بورڈ، کے ڈی اے، ایس بی سی اے اور سالڈ ویسٹ مینجمنٹ بورڈ ایڈمنسٹریٹر کے ماتحت کرنے پر بھی اتفاق کرلیا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کی تو لاٹری نکلنے والی ہے مگر عوام کو تو اب اپنے مسائل کو حل کرنے کے لیے مخلص اور ایماندار انتظامیہ کی ضرورت ہے۔ حکومت سندھ 15 سال تک لوٹ مار کا بازار گرم کرتی رہی، اب اُس نے چند ماہ کے لیے ایم کیو ایم کو بھی کچھ کھانے کمانے کا موقع دینے کے بارے میں سوچا ہے، مگر اس سے پہلے عدالت اور الیکشن کمیشن نے بلدیاتی الیکشن کے حوالے سے بڑا فیصلہ سنا دیا اور یہ سیاسی معاہدہ بے عمل ثابت ہوگیا۔
حافظ نعیم الرحمن کی عدالتی درخواست پر بڑا فیصلہ آگیا اور الیکشن کمیشن نے 15 جنوری کو بلدیاتی انتخابات کرانے کی تاریخ دے دی جس سے بڑے بڑے غباروں کی ہوا نکل گئی۔
کراچی میں اس وقت چنگ چی رکشوں کی لوٹ مار عروج پر ہے۔ 90 فی صد غیر مقامی لوگ چنگ چی چلا رہے ہیں، جن کی عمر18 سال سے کم ہے، ٹریفک پولیس 200 سے 500 روپے رشوت دے کر اُن کو چھوڑ دیتی ہے، اپنی مرضی سے یہ کرایہ وصول کررہے ہیں، روز عوام سے ان کی لڑائی ہوتی ہے، خاص طور پر طالبہ و طالبات سے بھی اپنی مرضی سے کرایہ لیتے ہیں۔ خدا کی بستی سے واٹر پمپ تک 90 سے 100 روپے کرایہ لیا جارہا ہے، ایک اسٹاپ کے 30 روپے، 3 سے 4 اسٹاپ آجائیں تو 50 روپے، اگر اُن کو 10 روپے کم دے دو تو لڑنے مرنے کو تیار ہوجاتے ہیں۔ ہر کام کا محکمہ موجود ہے اُس کا وزیر اُس کا سیکرٹری اور دیگر اسٹاف کی فوج موجود ہے جو صرف تنخواہ لیتے ہیں کام نہیں کرتے۔ اس وقت کراچی میں مہنگائی عروج پر ہے مارکیٹوں اور بازاروں میں لوٹ مچی ہوئی ہے، سرکاری نرخنامے کی اُن کے سامنے کوئی حیثیت نہیں، بچت بازار بھی صرف نام کے ہیں، ناقص پھل، سبزیاں فروخت ہورہی ہیں مگر ہمارے کمشنر صاحب اُن کے نیچے ڈی سی، اے سی موجود ہیں مگر وہ کچھ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ کاش کے ہر افسر، ہر ادارہ اگر ایماندار کے ساتھ اپنی ڈیوٹی پوری کرے تو شہر میں موجود طرح طرح کے مافیائوں سے جان چھوٹ سکتی ہے۔ مگر کراچی والوں کو تو سب نے سونے کی چڑیا سمجھ رکھا ہے۔ اندرون سندھ سے کراچی لائے جاتے ہیں، خوب مال کماتے ہیں اور مال بنا کر واپس چلے جاتے ہیں، ان کی جگہ کوئی اور سفارشی آجاتا ہے، سب کے سب کراچی کے سوداگر ہیں، اللہ تو کراچی والوں پر رحم فرما۔