حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی ہی بیعت کی دعوت رسول اللہؐ صحابۂ کرام کو بھی دیتے تھے: ’’عبادہ بن صامت بیان کرتے ہیں: ہم ایک مجلس میں تھے، رسول اللہؐ نے ہم سے فرمایا: تم ان شرائط پر میری بیعت کرلو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرائو گے، چوری نہیں کرو گے، زنا نہیں کرو گے، اپنی اولاد کو (فقرو فاقہ کے خوف سے) قتل نہیں کرو گے، بہتان تراشی نہیں کرو گے، کسی نیک کام میں نافرمانی نہیں کرو گے، پس جو تم میں سے بیعت کی ان شرائط کو پورا کرے تو اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمۂ کرم پر ہے اور جو ان میں سے کسی معصیت کا ارتکاب کرے اور اسے دنیا میں اس کی سزا مل جائے تو یہ اس کے گناہ کا کفارہ ہوجائے گا اور جو ان میں سے کسی معصیت کا ارتکاب کرے اور اللہ (اس کے عیب پر) پردہ ڈال دے، تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، چاہے تو اُسے سزا دے، چاہے تو معاف فرمادے‘‘۔ (بخاری)
عہدِ رسالت مآبؐ کے بعد امارت وخلافت کی بیعت تھی، اسے ہم ’’اعتماد کے ووٹ‘‘ سے تعبیر کرسکتے ہیں۔ یہ بیعت مشروط تھی، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اُن کی جو تم میں سے صاحبانِ امر ہیں، پس اگر تمہارا (صاحبانِ امر سے) کسی بات میں اختلاف ہوجائے تو اگر تم اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوتو (حتمی فیصلے کے لیے) معاملہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹادو، یہی شعار بہتر ہے اور انجام کے لحاظ سے اچھا ہے‘‘۔ (النساء: 59)
اس سے معلوم ہوا کہ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت غیر مشروط ہے اور اس سے اختلاف کی کسی صورت میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن صاحبانِ اختیار کی اطاعت مشروط ہے، اُن کے ساتھ اختلاف کی گنجائش موجود ہے اور بصورتِ اختلاف حتمی فیصلے کے لیے معاملہ اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹادیا جائے گا۔ اسی اصول کو ان احادیث میں بیان کیا گیا ہے: ’’کسی ایسے معاملے میں حاکمِ وقت کی اطاعت لازم نہیں ہے، جس میں اللہ کی معصیت لازم آتی ہو، (حاکم کی اطاعت) صرف معروف کاموں میں لازم ہے‘‘، (مسلم)، ’’سیدنا عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں: نبیؐ نے فرمایا: (حاکم کی) صحیح بات کو سننا اور پر عمل کرنا حق ہے، جب تک کہ وہ معصیت کا حکم نہ دے اور جب وہ معصیت کا حکم دے تو اس کے حکم کو سن کر قبول کرنا اور اس کی اطاعت کرنا لازم نہیں ہے‘‘۔ (بخاری)
بیعت ِ امارت وخلافت کے حوالے سے رسول اللہؐ کے پہلے خلیفۂ راشد سیدنا ابوبکر صدیقؓ کا اولین خطبۂ خلافت مشعلِ راہ ہے، مَنہَج خلافت کے لیے جادۂ مستقیم ہے، اس میں رہنمائی ملتی ہے کہ امیر المومنین اور خلیفۂ وقت کی اطاعت کی حدود وقیود کیا ہیں، چنانچہ انہوں نے فرمایا: ’’لوگو! میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں، حالانکہ میں تم لوگوں میں سب سے افضل (ہونے کا مدعی) نہیں ہوں، اگر میں شعارِ نبوت کے جادۂ مستقیم پر ٹھیک ٹھیک چلوں تو تم پر میری اعانت لازم ہے اور اگر (بفرضِ مُحال) میں راہِ راست سے ہٹ جائوں تو تم مجھے سیدھا کردو، سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔ تم میں سے جو (بظاہر) کمزور ہے، وہ در حقیقت میرے نزدیک طاقتور ہے تاوقتیکہ ان شاء اللہ میں (ظالم سے) اُس کا حق لے کر اُسے واپس لوٹا دوں اور تم میں جو بظاہر بڑا طاقتور ہے، وہ میرے نزدیک (سب سے) کمزور ہے تاوقتیکہ ان شاء اللہ میں اُس سے (مظلوم کا) حق واپس لے لوں۔ جو قوم ’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کو چھوڑ دیتی ہے، اللہ تعالیٰ (اس کے وبال کے طور پر) اُس پر ذلت وخواری مسلّط فرما دیتا ہے اور جس قوم میں بے حیائی وبدکاری کی وبا پھیل جاتی ہے، اللہ تعالیٰ اس پر مصیبتیں نازل فرما دیتا ہے، اچھا! اب نماز (باجماعت) کے لیے کھڑے ہوجاؤ، اللہ تعالیٰ تم پر اپنی رحمتوں کا نزول فرمائے‘‘۔ (تاریخ الخلفا للسیوطی بحوالہ سیرۃ ابن اسحاق) اس عظیم الشان خطبۂ خلافت میںاسلامی نظام امارت وخلافت کی حدود، دائرہ ٔ کار اور فرائض کا واضح طور پر تعین کردیا ہے، ہم سطور ذیل میں ان میں سے چند امور کی ضروری وضاحت درج کر رہے ہیں:
اطاعت امیرکی حدود: اسلام میں خلیفۂ برحق اور شرعی طور پر مُجاز حاکم وامیر کی اطاعت بلاشبہ لازم ہے اور رعایا میں سے جو بھی فرد خلیفۂ برحق کی اطاعت سے عدول وخروج کرے، وہ باغی کہلاتا ہے۔ لیکن یہ اطاعت غیر محدود اور غیر مشروط نہیں ہے، بلکہ یہ اطاعت صرف اسی صورت میں اور اس وقت تک لازم ہے جب تک خلیفہ یا امیر یا حاکم اعلیٰ کے احکام، اطاعت ِ الٰہی اور اطاعت رسول کے دائرے میں ہوں اور اگر امیر خود ہی اللہ تعالیٰ اوراس کے رسول مکرمؐ کی مقررہ حدود کی حرمت کو پامال کرے، تو اس کی اطاعت ہرگز لازم نہیں ہے۔ اس سلسلے میں رسول اللہؐ نے ایک ابدی اور دائمی ضابطہ بیان فرمادیا ہے: ’’کسی ایسے معاملے میں مخلوق (خواہ وہ سربراہ مملکت وحکومت ہی ہو) کی اطاعت تم پر لازم نہیں ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی لازم آتی ہو، اطاعت تو صرف نیک کاموں میں لازم ہے‘‘۔ (مسلم)
اس سے معلوم ہؤا کہ اسلام میں مقتدر مطلق (Sovereign) نہ سربراہ مملکت وحکومت ہے، نہ قاضی القضاۃ (Chief Justice)، نہ پارلیمنٹ اور نہ عوام۔ مُقتدِرِ مُطلق (Absolute sovereign) صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور غیر مشروط اطاعت واتباع صرف اللہ تعالیٰ اور رسول اللہؐ کی لازم ہے، اسی کو قرآن نے ’’حاکمیتِ الٰہیہ‘‘ سے تعبیر فرمایا ہے۔ لہٰذا اس قسم کے تمام سلوگن کہ ’’اقتدار کا سر چشمہ عوام ہیں‘‘ یا اقتدارِ اعلیٰ (Sovereignty) پارلیمنٹ کو حاصل ہے‘‘ درست نہیں ہیں۔ اسلام میں ہر سطح کا اقتدار واختیار مشروط، خلافت ِ الٰہی اور نیابت ِ رسول کی مقررہ حدود کا پابند ہے، اسی اصول کو اللہ تعالیٰ نے سورۂ نساء آیت: 59 میں بیان فرمایا ہے۔
عوام کی ذمے داری: سیدنا ابو بکر صدیقؓ نے فرمایا: ’’اگر (بالفرض) میں غلط روش اختیار کروں تو تم مجھے سیدھا کردو‘‘۔ اس سے معلوم ہوا کہ عامّۃ المسلمین بالخصوص اہل الرائے اور اہل فکر ونظر پر یہ شرعی ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے آپ کو امور مملکت وحکومت سے الگ تھلگ نہ رکھیں، حاکمِ وقت پر کڑی نظر رکھیں، وہ شریعت کے جادئہ مستقیم پر رواں دواں ہے، اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی ہدایات وحدود پر سختی سے کاربند ہے تو حمایت حق کے لیے اس کے دست و بازو بن جائیں، اگر خدانخواستہ و ہ راہ راست پر نہیں ہے، حق کو ٹھکرا رہا ہے، حدود الٰہی کو پامال کر رہا ہے، تو اجتماعی قوت سے اُسے راہِ راست پر لائیں، لیکن اگر اصلاح و ہدایت کی آوازِ حق کے لیے وہ اندھا اور بہرا بن گیا ہے تو اسے معزول کر دیں۔ کچھ لوگ اپنے تقوے اور پارسائی پر ناز کرتے ہیں اور گردو پیش میں کچھ بھی ہوتا رہے، اس سے الگ تھلگ رہتے ہیں، ایسے لوگوں کی توجہ کے لیے احادیث پیش خدمت ہیں:
’’سیدنا حذیفہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: قسم اس رب ذوالجلال کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تم پر لازم ہے کہ نیکی کا حکم دو اور برائی سے روکو، ورنہ بعید نہیں کہ اللہ تم پر اپنا عذاب نازل فرمائے، پھر تم ضرور دعائیں بھی کروگے، لیکن وہ اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں ہوگی‘‘۔ (سُنن ترمذی) سیدنا جابر بیان کرتے ہیں: رسول اللہؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے جبریلؑ کو حکم فرمایا کہ فلاں بستی کو اس کے رہنے والوں سمیت الٹ دو، جبریل امین نے عرض کیا: اے اللہ! اس بستی میں تیرا فلاں (نیک اور پارسا) بندہ بھی ہے جس نے کبھی پلک جھپکنے کی مقدار بھی تیری نافرمانی نہیں کی (تو اس کے بارے میں کیا حکم ہے)، ربّ تبارک وتعالیٰ فرمائے گا: اس شخص سمیت پوری بستی کو الٹ دو، (کیونکہ اس کے سامنے میری حدود پامال ہوتی رہیں، لیکن اس کی غیرتِ ایمانی کبھی نہ جاگی، حدودِ الٰہی کو پامال ہوتا ہوا دیکھ کر) میری خاطراس کا چہرہ کبھی غضب آلود نہ ہوا‘‘۔ (مشکوٰۃ) اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی ذات کی حد تک تو پارسا تھا، لیکن معاشرے میں فساد پیدا ہورہا تھا، حدودِ الٰہی پامال ہورہی تھیں، وہ اس سے لاتعلق رہا، نہ کبھی اس نے کسی ظالم کو ٹوکا، نہ ظلم سے اس کا ہاتھ روکا، نہ مظلوم کی داد رسی کی، تو مومن کا صرف خود متقی بن کر رہنا اُخروی نجات کے لیے کافی نہیں ہے۔
اس سے گردوپیش کے بارے میں بھی سوال ہوگا۔
اسلامی حکومت کے قیام کا مقصد: تاریخ کے اکثر ادوار میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ظالم طاقت ور ہوتا ہے، وہ طاقت کے نشے میں چُور ہوتا ہے، اثر رسوخ کا مالک ہوتا ہے، اس کے سامنے قانون بے اثر ہوجاتا ہے اور نظامِ عدل معطَّل و مفلوج ہو جاتا ہے اور رقص ابلیس کرتا ہے۔ حکومت الٰہیہ، خلافت ِ ربّانی اور امارت ِ اسلامی کے قیام کا اولین مقصد یہی ہے کہ ظلم کے بڑھتے ہوئے ہاتھ کو روکا جائے، نہ رکے تو اسے کاٹ پھینکا جائے۔ ’’طاقت‘‘ کو معیار حق نہ بنایا جائے بلکہ ’’حق‘‘ کی طاقت کو تسلیم کیا جائے۔ مظلوم چونکہ حق پر ہوتا ہے، اس لیے ریاست اپنی طاقت اس کے پلڑے میں ڈالے تاکہ ظالم حق کی طاقت کو تسلیم کر کے اس کے آگے سرنگوں ہو جائے اور مظلوم کو اس کا حق دینے پر راضی ہو جائے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے اپنے اولین خطبۂ خلافت میں اسی فلسفۂ حکمرانی کو عمل کے قالب میں ڈھال کر دکھا یا اور فرمایا: ’’میرے نزدیک مظلوم طاقت ور ہے تا وقتیکہ میں ظالم سے اس کا حق چھین کر اُسے دلادوں‘‘، کیونکہ مظلوم کی فریاد میں اتنی تاثیر ہے کہ عرش الٰہی کو ہلا دیتی ہے، رسول اللہ ؐ کا ارشاد ہے: ’’مظلوم کی فریاد سے ڈرو، کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے‘‘۔ (بخاری) (جاری ہے)