چور چور کا شور مچانے کی بھی ایک عجب تاریخ ہے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے اس کا آغاز جنرل ضیاء الحق کے دور سے ہوا جب ملکی خزانے میں خورد برد کا الزام لگا کر وزیراعظم محمد خان جونیجو (مرحوم) کو وزارت ِ عظمیٰ سے برطرف کیا گیا۔ یہ وہی محمد خان جونیجو تھے جن کو خود جنرل ضیاء الحق کے کہنے پر منتخب ارکانِ اسمبلی نے وزیر اعظم پاکستان بنایا تھا۔ پورے ملک میں ضیاء الحق کو اگر کوئی ’’دختر ِ نیک اختر‘‘ کی صورت میں شکل نظر آئی تھی تو وہ یہی محمد خان جونیجو تھے جن کو چند ہی مہینوں بعد کرپٹ قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے کان پکڑ کر اس طرح نکالا گیا تھا کہ نہ تو ان کے پیر زمین پر تھے اور نہ آسمان پر۔ جیسے ہی ہوائی جہاز سے زمین پر پاؤں دھرا، صاحب کے ہاتھ میں اقتدار سے بے دخلی کا پروانہ تھما دیا گیا۔ اس کے بعد کرپشن کا الزام ’’لوہار کی ایک‘‘ کا ایسا ہتھوڑا بن کر رہ گیا جو ’’ایک لوہار کی‘‘ کی صورت میں پاکستان کے ہر وزیر اعظم کے سر پر برستا چلا آ رہا ہے۔ یہ دوسری بات ہے کہ جو ہاتھ الزام لگا کر حکومتوں کی برطرفیوں میں اب تک ملوث ہوتے رہے ہیں وہ بے پناہ وسائل، ذرائع، خفیہ معلومات جمع کرنے کی بیسیوں ایجنسیاں اور جدید ترین ٹیکنالوجی رکھنے کے باوجود کسی بھی فارغ کیے گئے وزیر ِ اعظم کو عدالت میں مجرم ثابت کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔
یہ بھی عجب حقیقت ہے کہ ہر حکومت میں شامل بڑے بڑے عہدوں سے لیکر نیچے تک جڑے ہوئے افراد بے شک اس کی تردید پورے یقین کے ساتھ تو نہیں کرتے دکھائی دیے کہ وہ چور نہیں ہیں بلکہ اس کے برعکس جب جب بھی انہیں چور کہا گیا یا چور چور کہہ کر پکارا گیا تب تب وہ اس بات کو ثابت کرنے میں لگے نظر آئے کہ ہم سے بڑا وہ چور ہے جو ہمیں چور چور کہتا پھر رہا ہے۔ بات وہ بھی غلط نہیں کہہ رہے ہوتے اس لیے کہ جس جس کی چوریاں عوام کے سامنے آتی جا رہی ہیں، وقت یہ ثابت کرتا ہوا نظر آرہا ہے کہ چوری کے معاملے میں سب ہی نہلے پر دہلا ہیں ہاں اگر نہلوں یا دہلوں میں کوئی امتیاز ہے تو وہ طریقہ واردات کا ہے کہ کوئی چھپ چھپا کے کر رہا ہے اور کوئی علی الاعلان پاکستان کے ہر ادارے کو چیلنج کرتا پھر رہا ہے کہ بے شک چوری میں نے ہی کی ہے لیکن ہمت ہے تو ثابت کرکے دکھاؤ یا مجھے سلاخوں کے پیچھے دھکیل کر دیکھو۔
چور پاکستان میں صرف سیاستدان ہی نہیں کیونکہ جب جب بھی بین الاقوامی سطح پر بڑے بڑے مگر مچھوں کی چوروں بلکہ ڈکیتوں کے نامِ نامی اسمِ گرامیوں کی فہرستیں شائع ہوئی ہیں اس میں بڑے بڑے نامی گرامی اداروں سے تعلق رکھنے والے بس وہی حاجی ثابت ہوئے ہیں جن کو موقع نہ مل سکا ہو ورنہ معاملہ کچھ یوں رہا ہے کہ
خلافِ شرع کبھی شیخ تھوکتا بھی نہیں
مگر اندھیرے اُجالے میں چوکتا بھی نہیں
ہم دراصل یہ بات فراموش کر دیتے ہیں کہ ہمارے ادارے ہوں یا شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی محکمہ، ان سب سے تعلق رکھنے والا کوئی فرد بھی ایسا نہیں جو پاکستان کے باہر کے کسی معاشرے سے تعلق رکھتا ہو۔ جب ایسا ہی ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو جو خرابیاں یا خوبیاں معاشرے میں پائی جاتی ہوں وہ افراد کی نس نس میں نہ اُتر سکی ہوں۔ بے شک کچھ اداروں کا بہترین نظم ضبط خامیوں کو خوبیوں پر غالب نہ آنے دیتا ہو لیکن بات جب جب بھی ’’اندھیروں اُجالوں‘‘ کی آئے گی تو یہ ممکن ہی نہیں کہ شیطان کا وار خالی چلا جاتا ہو۔ ویسے بھی طاقت کسی کی کم مانا کرتی ہے۔ جس کے ہاتھ پاؤں جتنے مضبوط اور توانا ہوتے ہیں وہ اسی طرح ہاتھ پاؤں چلایا کرتا ہے۔ جرم میں بھی کر رہا ہوں اور میرا مد ِ مقابل بھی لیکن دونوں کے جرم کرنے میں اگر کوئی خط ِ امتیاز ہے تو وہ طاقت و اختیارات کا ہے۔ سب ہی اپنی اپنی بساط کے مطابق اس ملک کو لوٹنے میں مصروف ہیں۔
پورے ملک میں چور چور کا ایسا غلغلہ مچا ہوا ہے کہ کان پڑی آواز تک سنائی نہیں دے رہی۔ چوری ایک بہت بڑا جرم سہی لیکن اس سے بھی کہیں سنگین جرم میرے نزدیک منافع خوری ہے۔ چوروں کی تعداد بے شک لاکھوں میں ہوگی لیکن جہاں تک منافع خوروں کی بات ہے ان کی تعدا کا شمار ممکن ہی نہیں۔ بڑے بڑے کاروباری اداروں کی تو بات ہی الگ ہے، گلی کے موڑ پر ایک چھابڑی لگانے والے کے لہو میں بھی منافع خوری کا زہر اس شدت کے ساتھ سرایت کر چکا ہے کہ ڈالر کے ریٹ بڑھتے ہی وہ اپنے پاس رکھی ہر شے کے دام آسمان تک چڑھا کر بیٹھ جاتا ہے۔
وہ رکشا چلانے والے جو پٹرول کی قیمت 5 فی صد بڑھ جانے پر کرایوں کے نرخ دو گنا کر دیتے ہیں وہ کبھی پٹرول سے رکشا چلاتے نہیں دیکھے گئے۔ اسی طرح سبزی اور پھل فروش 5 یا 7 فی صد پٹرول کے ریٹ بڑھ جانے پر ہر پھل اور سبزی پر 20 سے 30 فی صد قیمت بڑھا دیتے ہیں اور کیونکہ قیمتوں کو کنٹرول کرنے والے اداروں کو اپنے ’’ہفتے‘‘ سے مطلب ہوتا ہے اس لیے نہ ان کو اپنی ذمے داریوں کا کوئی لحاظ ہوتا ہے اور نہ ہی منافع خوروں کو کسی قسم کا کوئی خطر۔ چور تو اکثر عوام کے ہتھے چڑھ کر اپنے جسم و جاں کو عذاب بنا لیتے ہیں لیکن میں نے آج تک کسی منافع خور کی درگت بنتے نہیں دیکھی۔
منافع خوری کا عالم یہ ہے کہ جو شے عام بازاروں میں فروخت ہو رہی ہوتی ہے وہ منڈیوں سے آدھی سے بھی کم قیمتوں میں حاصل کی جاتی ہے۔ کسی بھی کاروبار میں شرح منافع 10 سے لیکر 15 فی صد سے زیادہ نہیں ہوا کرتا لیکن یہ منافع خور چاہتے ہیں کہ ایک کلو، ایک لیٹر یا ایک گز فروخت کر کے پورے من، بیرل یا تھان کے برابر منافع حاصل کر لیں۔ اگر غور کیا جائے تو چوروں سے کہیں بڑا عذاب منافع خور ہیں لہٰذا جہاں چوروں کی دست کشی ضروری ہے وہیں اس سے کہیں زیادہ منافع خوروں کو بھی لگام دینا لازمی ہے… لیکن… جب بلیوں کے گلوں میں گھنٹیاں لٹکانے والے ہیں ہی نہیں تو رونے گانے کا فائدہ؟۔