بلاول زرداری کی صدر کو دھمکی

556

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور وزیر خارجہ بلاول زرداری نے ایک پریس کانفرنس کے دوران صدر پاکستان جناب عارف علوی کو دھمکی دی ہے کہ آپ نے آرمی چیف کی تعیناتی پر کوئی گڑ بڑ کی تو نتیجہ بھگتنا پڑے گا۔ آئین کے مطابق آرمی چیف کا فیصلہ وزیر اعظم کریں گے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے انتخابات یا مارشل لا کی دھمکی دی گئی تھی عمران خان نے معاملے کو متنازع بنا دیا۔ عمران خان نے اپنا دھرنا ختم کردیا ہے اس لیے کہ اس میں روز بروز حاضری کم ہوتی جارہی تھی، اب انہوں نے 26نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کا اعلان کیا ہے شکر ہے بلاول نے یہ نہیں کہا کہ ہم تمہاری اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے۔ ویسے تو معنوی اعتبار سے دونوں کا مفہوم ایک ہی ہے، بعض دوستوں کا خیال ہے کہ یہ اکیلے بلاول کا بیان نہیں ہے بلکہ پی ڈی ایم کی ترجمانی ہے، اس سے ایک اور بات کا پتا چل گیا کہ آرمی چیف کی تعیناتی کے مسئلے پر تینوں بڑی جماعتیں یعنی پی پی پی، ن لیگ اور جے یو آئی ایک صفحے پر آگئے ہیں ورنہ پچھلے دنوں کچھ اڑتی اڑتی خبریں یہ بھی آرہی تھیں کہ تعیناتی کے مسئلے پر پی پی پی اور ن لیگ میں کچھ اختلاف ہے۔
موجودہ اتحادی حکومت عمران خان سے اتنا خوف زدہ معلوم دیتی ہے کہ اگر کوئی پتا بھی کھڑکتا ہے تو یہ چونک جاتے ہیں اب 26نومبر کو راولپنڈی میں لانگ مارچ کے لیے عوام کو جمع ہونے کی کال دی ہے، اسی کال پر حکومت پریشان نظر آرہی ہے کہ پتا نہیں یہ شخص اس دن کیا کرے دوسری طرف عمران خان نے بھی وزراء کی پریشانی کو دیکھتے ہوئے یہ بیان دیا ہے کہ ہم 26نومبر کو سرپرائز دیں گے، ہو سکتا ہے حکومتی حلقوں میں اس بات پر غور ہورہا ہو کہ تعیناتی سے پہلے عمران خان کو گرفتار کرلیا جائے لیکن اس کے مضمرات کیا ہوں گے کہیں لینے کے دینے نہ پڑجائیں اسی لیے شاید وزیر دفاع کا یہ بیان آیا ہے کہ تعیناتی کا مسئلہ حل ہوجائے تو پھر نیازی صاحب سے دو دو ہاتھ کرلیں گے۔
پچھلے دنوں وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے صدر مملکت عارف علوی سے ملاقات کی تھی کیونکہ عمران خان آرمی چیف کے مسئلے پر عارف علوی کو اختیار دے چکے تھے، اس لیے اس ملاقات میں یقینا ملک کے گرم معاملات (Hot issues) پر بات ہوئی ہوگی جس میں آرمی چیف کی تعیناتی کے مسئلے کے علاوہ ملک کی معاشی صورتحال جو بہت ہولناک شکل اختیار کرنے والی ہے، اس پر اسحاق ڈار نے صدر کے سامنے تفصیل رکھی ہوگی اور اس صورتحال میں آرمی چیف کی تعیناتی کے موضوع پر بھی وزیر خزانہ نے صدر مملکت کو اعتماد میں لیا ہوگا اس ملاقات کی بہت زیادہ تفصیل تو سامنے نہیں آئی لیکن یہ دونوں شخصیات ملک کی سنجیدہ اور بردبار ٹیم میں سے ہیں اس ملاقات میں اختلافات میں بھی اتفاقات کے پہلو نکال لیے گئے ہوں گے۔ اسی دوران میں یہ بات بھی آئی تھی کہ اگر پی ٹی آئی آرمی چیف کے مسئلے پر دستبردار ہو جائے تو ن لیگ اپریل 2023 میں انتخابات پر آمادہ ہو سکتی ہے۔ ملک میں بے یقینی کی کیفیت کو ختم کرنے کے لیے یہ تجویز تو بہت اچھی ہے لیکن سب سے بڑا مسئلہ حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان اعتماد کا بحران ہے، پی ڈی ایم کو عمران خان پر اعتماد نہیں ہے کہ یہ 70سالہ جوشیلا بندہ سب کچھ طے ہونے کے بعد کہیں پلٹا نہ کھا جائے اور سب بنا بنایا کھیل بگڑ جائے دوسری طرف عمران خان کو یہ خدشہ ہے کہ چونکہ پی ڈی ایم بھان متی کا کنبہ ہے اس لیے 13جماعتوں میں سے کوئی ایک دو جماعتوں نے بھی اس تجویز سے اختلاف کرتے ہوئے حکومتی اتحاد سے نکلنے کی دھمکی دی تو بھی یہ کھیل ختم ہو سکتا ہے۔
ملک کی معاشی صورتحال بہت خوفناک شکل اختیار کرتی جارہی ہے، پچھلے دنوں بلاول زرداری نے بھی ایک بیان دیا تھا کہ ملک نادہندہ ہونے والا ہے کسی ملک کا وزیر خارجہ اپنے ملک کے بارے میں ایسا بیان دے تو دنیا کے دیگر ممالک میں اس کے منفی اثرات پڑ سکتے ہیں بیرون ممالک کے کاروباری حضرات اگر پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا سوچ بھی رہے ہوں گے تو اپنے ہاتھ کھینچ سکتے ہے۔ پھر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اعداد وشمار کے ذریعے قوم کو یہ اعتماد اور خوشخبری دینے کی کوشش کی ملک نادہندگی کی طرف نہیں جارہا ہے بلکہ اچھے دن آنے والے ہیں۔ معروف مزاح نگار مشتاق یوسفی نے اپنی کسی کتاب میں لکھا ہے کہ جھوٹ تین قسم کے ہوتے ہیں ایک جھوٹ دوسرا سفید جھوٹ اور تیسرا سرکاری اعداد وشمار، ہوسکتا ہے کہ اسحاق ڈار نے معیشت کے جو اعدادو شمار پیش کیے ہیں وہ جھوٹ کے تیسرے درجے میں نہ آتے ہوں اور ان میں کچھ اعداد وشمار درست بھی ہو سکتے ہیں اور ملک کے حالات بہتر ہونے کے امکانات بھی زیادہ ہو سکتے ہیں لیکن مختلف ٹاک شوز میں ملک کی سیاسی اور معاشی صورتحال پر گہری نظر رکھنے
والے صحافی اور دانشور حضرات ملکی معیشت کو وینٹی لیٹر پر جاتے ہوئے دیکھ رہے ہیں فوری طور سے پاکستان کو دو ارب ڈالر کی ضرورت ہے تاکہ ادائیگیوں کا توازن کچھ بہتر ہوسکے لیکن پاکستان کو کہیں سے کچھ نہیں مل رہا حتیٰ کہ سننے میں آیا ہے کہ چین اور سعودی عرب تک نے ہاتھ کھینچ لیا ہے۔ بہر حال ہمیں اللہ کی ذات سے امید ہے کہ پاکستان اس مشکل سے نکل جائے گا، ہو سکتا ہے کہ عمران خان کے ذہن میں بھی کبھی کبھی یہ خیال آتا ہو کہ ایسی خطرناک معاشی صورتحال میں اقتدار لینے کا فائدہ کیا ہوگا اسی لیے وہ کبھی کبھی یہ بھی کہتے ہیں ہم الیکشن کے لیے دس مہینے تک انتظار کر لیں گے لیکن پھر دوسرے ہی لمحے پلٹ جاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت الیکشن کی تاریخ کا اعلان کرے ہم دھرنا ختم کردیں گے۔
ہم نے بات شروع کی تھی بلاول زرداری کی اس دھمکی سے جو صدر مملکت کو دی گئی۔ یہ اچھا ہوا کہ صدر یا ان کے کسی ترجمان نے اس بیان کا کوئی جواب نہیں دیا کہ صدر یہ چاہتے ہوں کہ ملک کا سیاسی ماحول کچھ بہتر ہوتاکہ یہ ملک ترقی کرسکے۔ لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ بلاول زرداری نے اپنے نانا کی روایت برقرار رکھی ہے، ذوالفقار علی بھٹو بھی مخالفین کو دھمکیاں دیتے تھے، جو ڈھاکا اجلاس میں گیا اس کی ٹانگیں توڑ دی جائیں گی، انتخابی مہم کے دوران اس وقت کے وزیر اطلاعات سے کچھ اختلاف ہوگیا تو انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ تم اگر نوابزادہ شیر علی ہو تو میں بھی ذوالفقار علی ہوں تلوار کی دھار بہت تیز ہوتی ہے پھر ان کا ایک جملہ بہت مشہور ہوا کہ میں سب کو فکس اپ کردوں گا، اسمبلی کے اجلاس میں مفتی محمود سے کچھ بات ہو گئی انہیں ڈنڈا ڈولی کر کے اجلاس سے باہر پھینک دیا گیا، یہ پی پی پی کا سیاسی کلچر ہے۔