قطر حیران کررہا ہے

724

قطر میں فیفا ورلڈ کپ کا افتتاح قرآن مجید کی تلاوت سے ہوا، یہ پہلی دفعہ ہوا ہے۔ قرآن کی تلاوت کرنے والے ایک معذور حافظ غانم المفتاح تھے جن کی عمر بیس سال ہے۔ غانم بچپن ہی سے ایک ایسی بیماری کا شکار تھے جس میں ریڑھ کی ہڈی کا زیریں حصہ نشوونما نہیں پا سکتا۔ لہٰذا وہ ایک طرح سے ایسے معذور ہیں جن کا کمر سے نیچے کا جسم نہیں۔ لیکن آفرین ہے اُن پر اور ان کے خاندان پر کہ اس کو انہوں نے آگے نہ بڑھنے کی وجہ نہیں بنایا۔ غانم کی والدہ کہتی ہیں کہ ہم نے اس کی ہر میدان میں حوصلہ افزائی کی۔ وہ زمانہ طالب علمی میں دستانے پہن کر فٹبال کھیلا کرتے تھے۔ انہوں نے شوقیہ غوطہ خوری کی، وہ سمندر میں دو سو میٹر تک نیچے جا کر غوطہ خوری کرچکے ہیں، وہ قطر میں موٹیو نیشنل اسپیکر ہیں، ایک آئس کریم کمپنی کے مالک ہیں جس کی قطر میں چھے شاخیں ہیں اور جہاں ساٹھ کے قریب کارکن کام کرتے ہیں۔ یہ ہے ریاست قطر میں معذوروں کے ساتھ سلوک اور انہیں دی گئی آزادی۔ قطر میں قطریوں کی تعداد کُل تین سے ساڑھے تین لاکھ ہے جو ملک کی کل آبادی جو تیس لاکھ ہے کا صرف دس فی صد ہے۔ یعنی قطر میں زیادہ تعداد غیر ملکیوں کی ہے۔ قطر غیر ملکیوں کے لیے اپنے دروازے کھلے رکھنے کے علاوہ انہیں اعلیٰ اجرتوں کی ضمانت دیتا ہے، ساتھ مضبوط تعلیم اور صحت کا نظام بھی فراہم کرتا ہے۔ اس وقت مغرب خاص طور سے یورپی یونین قطر کے خلاف مہم چلا رہا ہے۔ جس کی وجہ وہ چند پابندیاں ہیں جو قطر کی حکومت نے شائقین کے اوپر لگائی ہیں۔ مثلاً وہ مختصر لباس جو کندھوں کو کھلا رکھے اور گھٹنوں سے اوپر ہو نہیں پہن سکتے، اسٹیڈیم کے آس پاس شراب نوشی اور اس کی فروخت نہیں ہوسکتی، ایل جی بی ٹی کے مواد کو شائع کرنا یا اس کا جھنڈا لہرانا یا ہاتھ میں اس کا بینڈ پہنا ممنوع ہے۔
کیا مغرب کو اس پر بات کرنا زیبا ہے۔ ٹھیک ہے کہ اگر حقیقی معنوں میں تیسری جنس کے لوگ ہر جگہ پوائنٹ زیرو زیرو زیرو زیرو، اس دفعہ زیرو کے بعد ایک کی تعداد میں موجود ہیں اور ان کے لیے حقوق کی بات ہونا چاہیے لیکن وہ تارکین وطن اور معذور جو اس سے سیکڑوں گنا زیادہ پر معاشرے میں موجود ہوتے ہیں ان کے حق کے لیے یورپ اور مغرب کا کیا کردار ہے۔ حقیقت میں یورپین اور مغرب کی تارکین وطن سے متعلق پالیسی اور انسانی حقوق سے متصادم ہوتی ہے۔ یہ چند برسوں قبل بھی ہوا ہے کہ مغرب کے شام، لیبیا، یمن اور دیگر ممالک پر حملوں کے نتیجے میں تارکین وطن یورپ کا رُخ کررہے تھے اور وہاں کی بارڈر سیکورٹی ایجنسیاں انہیں مار مار کر اپنے ساحل سے دور ہٹارہی تھیں جب کہ کشتیوں میں بڑی تعداد میں بچے اور خواتین تھیں اور جن کی بڑی تعداد ڈوب کر ہلاک ہوئی، وہ ساحل پر ڈوب کر ہلاک ہونے والا بچہ (بچے کا نام) سب کو یاد ہوگا۔ یورپ جتنا بھی انسانی حقوق کی پاسداری کا دعویٰ کرے گنجائش سے زیادہ بھرے مہاجر کیمپ میں غیر انسانی صورت حال اس کا بھانڈا پھوڑ دیتی ہے۔ ان مہاجرین کو شدید جسمانی تشدد، جبری مشقت، غلامی اور جنسی استحصال کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
فیفا کے سربراہ سے اپنی پریس کانفرنس میں اس جانب اشارہ کیا ہے۔ انہوں نے صاف لفظوں میں یورپ کو لتاڑا کہ وہ اپنی لیکچر بازی بند کرے اگر اُسے مردوں اور نوجوانوں کی اتنی فکر ہے تو اپنے ہاں انہیں موقع دیں، زبانی ہمدردی نہ جتلائیں۔ یورپی اقوام پچھلے ہزاروں سال سے انسانوں سے جو سلوک کررہی ہے تو اُسے ہزاروں سال تک اس کے ازالے کے لیے معافی مانگنی چاہیے۔ انہوں نے یورپ کو اس کے دوہرے معیار پر تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے قطر کی حکومت کی امیگریشن پالیسی کی تعریف کی کہ قطر اتنی بڑی تعداد میں دوسرے ملکوں کے کارکنوں کو اپنے ہاں روزگار فراہم کرتا ہے اور ہم (وہ خود یورپی ہیں) کیا کرتے ہیں۔ اُن ملکوں کے لوگوں کو اپنے ہاں آنے نہیں دیتے جہاں آمدنی کی شرح بہت نیچے ہوتی ہے۔
بہرحال ساری دُنیا کی مخالفت کے باوجود چھوٹا سا ملک قطر پوری استقامت کے ساتھ اپنے اقدامات کا دفاع کررہا ہے اور ساتھ دنیا کو حیران بھی کررہا ہے۔ ارجنٹائن کی صحافی قطر کے نظام انصاف پر حیران ہیں۔ جب ان کے بیگ سے کچھ سامان چوری ہوا اور انہوں نے قطری پولیس کو اطلاع دی تو انہوں نے خاتون صحافی سے پوچھا کہ آپ چور کو کیا سزا دینا چاہیں گی؟ قطری پولیس کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس کیمرے موجود ہیں اور ہم چور تک پہنچ جائیں گے تو آپ اسے قید کی سزا دینا چاہیں گی یا ملک بدر کروانا چاہیں گی؟ صحافی انصاف اور سیکورٹی کے اس نظام پر حیران رہ گئیں۔ واقعی قطر نے ایک دنیا کو حیران کردیا ہے، دنیا کے مسلم حکمرانوں کو قطر سے سیکھنے کی ضرورت ہے۔