مولانا سید مولانا ابوالاعلیٰ مودودیؒ فرماتے ہیں کہ ’’اسلام کی ابتدا اسی وقت سے ہے جب سے انسان کی ابتدا ہوئی ہے۔ اسلام کے معنی ہیں خدا کی تابعداری اور یہ انسان کا پیدائشی مذہب ہے۔ کیونکہ خدا ہی انسان کا پیدا کرنے والا اور پالنے والا ہے۔ انسان کا اصل کام یہی ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے کی تابعداری کرے۔ جس دن خدا نے سب سے پہلے انسان یعنی سیدنا آدمؑ اور ان کی بیوی اماں حواؑ کو زمین پر اُتارا اُسی دن سے انہیں بتادیا کہ دیکھو تم میرے بندے ہو اور میں تمہارا مالک ہوں، تمہارے لیے صحیح طریقہ یہ ہے کہ میری ہدایت پر چلو۔ جس چیز کا میں حکم دوں اسے مانو اور جس چیز سے منع کردوں اس سے رک جاؤ۔ اگر تم ایسا کرو گے تو میں تم سے راضی رہوں گا اور تمہیں انعام دوں گا اور اگر اس کے خلاف کروگے تو میں تم سے ناراض ہوں گا اور سزا دوں گا۔ بس یہی اسلام کی ابتدا تھی‘‘۔ (بحوالہ نشری تقریریں، ایڈیشن 12، صفحہ 5)۔
نہایت سیدھی سی بات ہے جس کو مان لینے ہی میں عافیت ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو قادرِ مطلق مان لینے کے سوا کوئی دوسرا حل زندگی گزارنے کا ہو ہی نہیں سکتا۔ اسلام کو مان لینا، اللہ تعالیٰ کو اپنا حاکم سمجھ لینا، اس کے اور اس کے بھیجے ہوئے نبیوں اور رسولوں پر ایمانِ کامل لانا، اللہ کی کتاب کو کتابِ آخر سمجھ کر اللہ اور اس کے رسول کی احکامات کو اپنی زندگی کے لیے منتخب کر لینے کے سوا کوئی اور راستہ ہے ہی نہیں جس پر چل کر ہم امن، سلامتی اور خوشحالی کی منزل تک پہنچ سکیں۔
دنیا میں وہ اقوام جو یہ سمجھتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا (نعوذ باللہ) کوئی وجود ہی نہیں ہے اور یہ سب کچھ فطرت کے مطابق ہی چل رہا ہے وہ بھی غیر محسوس طریقے سے کسی نہ کسی ایسی بزرگ و برتر ہستی کا اقرار کرتی نظر آتی ہیں جو ان کی ان تمناؤں اور آرزوؤں کو بھی پورا کر سکتی ہو جو ان کے دل و دماغ میں بے ساختہ ابھرتی ہیں۔ میرے کالج کے زمانے میں ایشیا سبز ہے اور ایشیا سرخ ہے کہ حوالے سے چین اور اس کا نظام بہت زیرِ بحث آیا کرتا تھا۔ جب ذکر چین کا آئے تو سوشلزم لازماً زیر بحث آتا ہوگا اور پھر اللہ تعالیٰ کا وجود ہے یا نہیں، کا تذکرہ کیسے نہ کیا جاتا ہوگا، یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ ہم ان اقوام میں شامل ہیں جو باہر کی دنیا کہ ہر چمک دمک کو دیکھ کر نہ صرف اپنی آنکھیں خیرہ کر لیا کرتی ہیں بلکہ ان کے پیش کیے گئے فلسفوں، تحقیقات اور نظریات کو آیاتِ ربانی سے بھی کہیں زیادہ مستند ماننے لگتی ہیں۔ ایسا کرنے کی جو بھی وجوہات رہی ہوں، لیکن ایسا میرے دور میں بھی دیکھنے میں آیا تھا اور پھر جس طرح آج کے ہر عام و خاص نے جمہوریت کو ’’اسلامی‘‘ کہنا اور سمجھنا شروع کردیا ہے اسی طرح اس دور میں سوشلزم بھی ’’اسلامی‘‘ بنا دیا گیا تھا۔ حد یہ ہے ملحدانہ خیال کو اس حد تک قبول کیا جانے لگا تھا کہ اللہ تعالیٰ ہے یا نہیں، اس پر سرِ عالم گفتگو ہونے لگی تھی۔ ایسے عالم میں چین کے نظامِ حکومت و معیشت کا حوالہ دیا جاتا تھا اور پاکستان میں چین سے شائع ہونے والا رسالہ ’’چین با تصویر‘‘ کافی مقبولیت حاصل کرتا جا رہا تھا۔ یہ بات عام طور پر دیکھی گئی ہے کہ جب جب بھی بیرونی دنیا سے کسی نئے نظامِ حکومت و سیاست یا کسی ملحدانہ فلسفے کی یلغار شروع ہوتی ہے تو نجانے کیوں ہمارے ہی اندر سے ایسے ایسے اذہان ابھر کر سامنے آنے لگتے ہیں کہ ان کے استدلال کے جواب میں یوں محسوس ہونے لگتا ہے جیسے ہم میں سے کوئی ان کے جواب میں ایسے دلائل پیش ہی نہ کر سکے گا جو ان کے فلسفوں کی تردید کر سکے۔ ایسا ہی کچھ اس دور میں بھی محسوس ہونے لگا تھا، معاملہ سوشلزم کا ہو یا الحاد کا، تردید کے لیے بہت ٹھوس حقائق کا فقدان نظر آنے لگا تھا۔ کہا جا رہا تھا کہ چین کے لوگ اس لیے ترقی کر رہے ہیں کہ وہ (نعوذ باللہ) اللہ یا مذہب کی قیود سے اپنے آپ کو آزاد کر چکے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ دنیا میں جو کچھ بھی ممکن ہے وہ فقط قوت بازو ہی سے ممکن ہے اس میں اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ناراضی کا کوئی عمل دخل نہیں۔ مسلمان ہونے کے ناتے میں نے ان کو یہی جواب دیا کہ بے شک ہر ترقی و کامیابی قوت بازو ہی سے وابستہ ہے لیکن یہ کہنا کہ چین کے لوگ کسی ایسی قوت کے قائل ہی نہیں ہیں کہ جو کسی کی تمنا، دعا یا خواہش پوری کر سکتی ہو، یہ درست نہیں۔ دلیل کے لیے چین با تصور میں میں نے مزدوروں کے ایک گروپ کو دکھایا جس کے نیچے تحریر تھا کہ چین کے تمام مزدور اپنا کام شروع کرنے سے پہلے اپنے رہنما ماؤزے تنگ کے لیے درازی عمر کی دعا کرتے ہیں۔
بات یہی ہے کہ دنیا کا ایک انسان بھی ایسا نہیں ہے جو اپنے سے ’’کسی‘‘ بڑے کا انکار کر سکے۔ غریب امیر کو، عوام حاکم کو، حاکم ملک کے قوانین کو، مختصر یہ کہ کاروبارِ حیات کو رواں دواں رکھنے کے لیے ہر فرد کو کسی نہ کسی کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا ہی پڑتا ہے۔ جب کسی کو بھی بڑا مانے بغیر، کوئی طریقہ زندگی بنائے بغیر، قوانین وضع کیے بغیر، ان پر عمل در آمد کیے بنا، انصاف اور عدل پر عمل کے بغیر اگر زندگی گزری ہی نہیں جا سکتی، معاشرے میں امن و سکون برپا ہی نہیں کیا جا سکتا تو پھر آخر وہ کون سا عذر مانع ہے جو اللہ تعالیٰ اور اس کے بھیجے گئے ضابطہ حیات کو قبول کرنے، اسے رائج کرنے اور اسی کے مطابق اپنی زندگی کے روز و شب گزارنے سے روک رہا ہے۔
جب یہ طے ہے کہ بنا اصول و ضوابط بنائے، آئین و قوانین وضع کیے بغیر زندگی گزاری ہی نہیں جا سکتی تو پھر انسان مسلسل اس بات کے لیے کس لیے کوشاں ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بجائے اس دنیا میں جو اسی ایک اللہ کی ہے جس نے ہم سب کو نہ صرف پیدا کیا بلکہ زندگی گزارنے کے لیے ضابطہ حیات بھی دیا، اپنی مرضی کے مطابق آئین سازی کرے گا اور اللہ تعالیٰ کی ہدایات کو تسلیم نہیں کرگا۔ یہی وہ خرابی ہے جو دنیا کے سارے انسانوں کے لیے خرابی کی اصل جڑ بنی ہوئی ہے۔ جس دن انسان نے اپنے آپ کو مکمل طریقے سے اللہ کے حوالے کردیا، ساری دنیا نہ صرف امن و امان کا گہوارہ بن جائے گی بلکہ آسمانوں سے انعامات کی وہ بارش ہو گی کہ لوگوں کی جھولیاں چھوٹی پڑ جائیں گی۔ جب انسان کو اپنا کوئی نہ کوئی معبود بنانا ہی ہے تو پھر اس ایک اللہ کو بنا لے یا آسمان و زمین کی وسعتوں سے باہر نکل سکتا ہے تو نکل جائے ورنہ اس سزا کے لیے تیار ہوجائے جو اللہ اور اس کے دین سے بغاوت کے نتیجے میں اسے دنیا میں تو ملے گی ہی ملے گی، آخرت میں بھی وہ اللہ کے عذاب سے نہیں بچ سکے گا۔