مقبوضہ کشمیر کو اگرچہ بھارت نے یک طرفہ طور پر اپنا حصہ بنا لیا ہے لیکن اقوام متحدہ کی قرار دادوں میں ابھی تک یہ متنازع علاقہ ہے۔ لہٰذا یہاں کوئی غیر ملکی سرمایہ کاری نہیں ہوسکتی۔ اسرائیل نے مقبوضہ جموں اورکشمیر میں کنٹرول لائن اور ورکنگ باؤنڈری کے ساتھ ساتھ اپنے زراعتی مراکز فضیلت (سینٹر آف ایکسی لینس) قائم کیے ہیں۔ اس مقصد کے لیے اسرائیلی زرعی اتاشی ’’یائر ایشل‘‘ نے سرحدی علاقوں کا دورہ کیا۔ بھارت نے زراعت کے شعبے میں تعاون کے نام پر اقوام متحدہ کے تسلیم شدہ متنازع علاقے مقبوضہ جموں و کشمیر میں اسرائیل کو مکمل رسائی دیتے ہوئے کشمیریوں، پاکستانیوں اور پوری دنیا کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی ہے۔ بھارت سے آنے والی خبروں کے مطابق بھارت میں اسرائیلی سفارت خانے کے زرعی اتاشی یائر ایشیل نے کہا ہے کہ اسرائیل مقبوضہ جموں و کشمیر میں ’’بھارت۔ اسرائیل زرعی منصوبے‘‘ کے تحت دو مراکز فضیلت (سینٹر آف ایکسی لنس) کھولنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے یہ اعلان گزشتہ دنوں جموں اور وادی کشمیر میں کنٹرول لائن کے قریب واقع زرعی فارموں کے دورے کے موقع پر کیا۔ یائر ایشل نے صحافیوں کو بتایا کہ ہم اپنی جدید ٹیکنالوجی جموں و کشمیر کے کسانوں کو دینے کے لیے تیار ہیں۔ بھارت میں حکمران جماعت بی جے پی نے جموں و کشمیر کے زرعی شعبے میں اسرائیل کی دلچسپی کا خیر مقدم کیا ہے۔ یہ دفعہ 370 اور 35 ایک کی منسوخی کے بعد اسرائیل کی طرف سے ایک بڑا اور خطرناک قدم ہے۔
ادھر مقبوضہ جموں وکشمیر میں بی جے پی کے سربراہ رویندر رینا نے پاکستان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل بھارت کا قابل اعتماد شراکت دار ہے اور ہر مشکل گھڑی میں بھارت کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ بھارت اور اسرائیل کے تعلقات اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ ظاہر ایسی صورت حال میں عالمی طور پر متنازع علاقے میں اسرائیل کی مداخلت یہ ظاہر کرتی ہے اس کا اصل مقصد زرعی ترقی نہیں بلکہ پاکستان کی جاسوسی ہے۔ اسرائیل پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے پیچھے کافی عرصے سے پڑا ہوا ہے۔ اس حوالے سے اسرائیلی اخبار یروشلم پوسٹ انکشاف کرچکا ہے کہ اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موساد نے 1980 کی دہائی میں پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف سازش کرتے ہوئے پاکستان کو جوہری ٹیکنالوجی کی فراہمی روکنے کے لیے جرمنی اور سوئٹزر لینڈ کو دھمکیاں دی تھیں جنہوں نے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے نئے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام میں بھر پور مدد کی۔ پاکستان کے ایٹمی پروگرام سے اسرائیل اس قدر خوفزدہ ہے کہ اس کی جانب سے جوناتھن پولارڈ نامی ایک اسرائیلی جاسوس کو یہ ذمے داری دی گئی تھی کہ وہ پاکستان کی ایٹمی پروگرام کے بارے میں معلومات حاصل کرے۔ 1984 سے 1985 تک پولارڈ نے اسلام آباد کے قریب واقع ایک نیوکلیئر ری پروسیسنگ پلانٹ کی معلومات کے کئی اسیٹس اسرائیلی حکام کے حوالے کیے اور یہ معلومات امریکا کی سرکاری دستاویزات کی شکل میں اسرائیل کو فراہم کی گئیں تھیں۔
پولارڈ، اگرچہ امریکی شہری ہے لیکن امریکی بحریہ سے وابستہ رہتے ہوئے اس نے اسرائیل کے لیے جاسوسی کی۔ 1987 اسے امریکا کی جانب سے اسی بنیاد پر عمر قید کی سزا دی گئی۔ اپنی 30 سال کی سزا پوری کرنے کے بعد اسے دسمبر 2020 میں اسرائیل پہنچایا گیا کیونکہ 1995 میں اسرائیل نے اسے اپنا ایجنٹ تسلیم کرتے ہوئے اسے اسرائیل کی شہریت عطا کردی تھی۔ اب اسرائیل کو موقع مل گیا ہے کہ وہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں زراعتی مراکز فضیلت کے نام پر اپنے جاسوسی کے اڈے قائم کرے۔ بھارتی حکومت کو خوف ہے کہ یہ مراکز فضیلت مجاہدین کا نشانہ نہ بنتے رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر میں اسرائیل نے بھارت کو مجاہدین کے ساتھ نمٹنے کا وہی طریقہ بتایا جو وہ فلسطینی شہریوں کے ساتھ اختیار کرتا ہے، یہی وجہ ہے کہ بھارت آج تک کشمیر کی صورت حال پر قابو نہیں پاسکا ہے۔ دنیا کے سامنے سب ظاہر ہوچکا ہے کہ اسرائیل کشمیر میں اپنے حق خود ارادی کے لیے آواز بلند کرنے والوں خلاف غاصب بھارت کی مدد کرر ہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت کو اب یہ محسوس ہورہا ہے کہ اسرائیلی ایگری کلچر اتاشی آئر ایشل کی مقبوضہ جموں و کشمیر کے دورے کے بعد خطرات بڑھ گئے ہیں۔
بھارت جو کام پنجاب اور بھارت کے دوسرے علاقوں میں نہیں کرسکا وہ کام مقبوضہ جموں و کشمیر میں بزور قوت کرنا چاہتا ہے۔ پنجاب میں اسرائیل کی طرف سے کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر کسانوں کی زمین ہتھیانے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ دراصل زرعی شعبے کی آڑ میں بھارت اور اسرائیل کے اسٹرٹیجک دفاعی منصوبوں پر عمل ہورہا ہے۔ اسرائیل میں بھی آئر ایشل کے دورے پر تشویش کا اظہار کیا گیا تھا لیکن اس دورے پر ان سے کوئی باز پرس نہیں کی گئی۔ بھارت حسب معمول ان خدشات کا اظہار کررہا ہے کہ کشمیر میں اسرائیلی زراعتی مراکز فضیلت پر لشکر طیبہ کی جانب سے حملہ ہوگا۔ یعنی اس کا مقصد یہ ہے کہ ایک مصنوعی حملہ کیا جائے گا اور اس کا الزام لشکر طیبہ کے ساتھ ساتھ پاکستان پر بھی لگانے میں آسانی ہوگی۔ بھارت نے وقت سے پہلے شور مچانا شروع کردیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ یقینا کوئی مہم جوئی کرنے جارہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر کی زراعت میں ان دریاؤں کا پانی استعمال ہوگا جو پاکستان کی سمت آتے ہیں، اسرائیل اور بھارت کے کشمیر میں زرعی تعاون کا مقصد پاکستان کو بنجر کرنا ہے۔ اسرائیل مقبوضہ جموں و کشمیر ہی میں زرعی منصوبہ لے کر آیا ہے اس لیے کہ پاکستان جانے والے تمام دریا انہی علاقوں سے گزرتے ہیں۔
بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو شہ رگ پاکستان کہا تھا یہ کوئی جذباتی بات یا محض سیاسی بیان نہیں تھا بلکہ اس مدبر انسان نے بھانپ لیا تھا کہ کشمیر پاکستان کے لیے کیا حیثیت رکھتا ہے؟ اگر ہم نقشے میں دیکھیں کہ پاکستان میں آنے والے سب دریاؤں کا منبع کشمیر ہی ہے۔ سوائے ان دو دریاؤں ستلج اور راوی کے جو بھارتی علاقے سے پاکستان میں داخل ہوتے ہیں لیکن سندھ طاس معاہدے کی وجہ سے ان کے پانی پر بھارت کا حق ہے اور بھارت مختلف مقامات پر ان دریاؤں پر ڈیم بنا چکا ہے۔ اسی لیے سوائے سیلابی کیفیت کے یہ دونوں دریا پاکستان میں خشک دکھائی دیتے ہیں۔