ملک میں ان دنوں بچوں کے اغوا کے واقعات روز بروز بڑھ رہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو بچوں کے اغوا کے واقعات میں ہر زمانے میں رہے ہیں چاہے تھوڑے ہوں یا زیادہ۔ مغویوں میں بچیاں اور بچے دونوں شامل رہے ہیں۔ بے حس اغوا کاروں میں مردو خواتین مل کر کام کرتے ہیں۔ لگتا نہیں ہے کہ یہ ظالم لوگ خود کسی بچے کے والدین ہوں گے یا پھر اگر والدین ہونے کا شرف انہیں مل چکا ہے تو ان کے دلوں کا رحم کے جذبے سے دور دور تک کا کوئی واسطہ نہیں۔ یہ اندھیری رات سے زیادہ سیاہ اور پتھروں سے زیادہ سخت دلوں کے ساتھ اس دھرتی پر بوجھ بنے بیٹھے ہیں۔ ان ظالم درندوں کا ڈسا ہوا ایک غریب مزدور محمد زبیر بھی ہے جو راولا کوٹ آزاد کشمیر کا رہنے والا ہے۔ اس کی بیوی جولائی 2022ء میں اسلام آباد کے ایک نواحی گاؤں میں مقیم اپنے میکے ملنے آئی۔ اس کا تین سالہ بیٹا ارسلان گھر سے باہر کھیلنے کے لیے گیا اور وہیں سے غائب ہوگیا۔ محمد زبیر بیٹے کی گمشدگی کی اطلاع ملتے ہی فوراً کشمیر سے اسلام آباد آیا اور تلاش میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ صرف پولیس ہی کو اطلاع نہیں دی بلکہ ہر ارباب اختیار کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پولیس بھی بچے کو ڈھونڈنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ اس بے بس باپ کی باتیں نہیں سنیں جاسکتیں۔ اس کی باتوں میں اس کے دل کا درد امڈ امڈ کر باہر آتا ہے۔ بچے کی ماں کی حالت باپ سے بھی زیادہ کربناک ہے۔ وہ برملا کہتا ہے کہ اگر یہ ’’بچہ میرے جیسے غریب باپ کے بجائے کسی عہدے دار کا یا بڑے باپ کا ہوتا تو کیسے راتوں رات نہ ملتا۔ میں نے ہر ادارے کا دروازہ کھٹکھٹایا ہے لیکن کسی نے کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ غریب باپ بیچارہ دہائیاں دیتا ہے۔ اگر کسی کو کوئی انسانی عضا چاہیے تو میرے نکال لے۔ میرا گھر بار سب کچھ لے لیں لیکن مجھے صرف میرا بچہ لوٹا دیں‘‘۔
بچے تو سب ہی پیارے ہوتے ہیں لیکن محمد ارسلان تو بہت ہی پیارا اور دل موہ لینے والا بچہ ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے سلامتی کے ساتھ جلد اس کے والدین سے ملائے تاکہ اس کے والدین کے دلوں کو جدائی کی کرب ناک اذیت، انتظار کی کرختگی سے نکل کر ملن کی ٹھنڈک اور آنکھوں کو سکون کی نیند مہیا ہو۔
پاکستان میں گمشدہ یا اغوا ہونے والا صرف ارسلان ہی نہیں بلکہ آئے روز بچوں کی گمشدگی کے بارے میں سنتے ہیں۔ جن کے بچے گم ہوتے ہیں ان کے والدین کی تو دنیا اندھیر ہو جاتی ہے۔ وہ نہ صرف خود تلاش میں جت جاتے ہیں بلکہ تھانوں اور ارباب اختیار کے دروازے بھی کھٹکھٹاتے ہیں۔ وہ دعاؤں کے لیے مختلف آستانوں پر بھی جاتے ہیں۔ غرض کہ جو ان کے بس میں ہوتا ہے سب جتن کرتے ہیں لیکن افسوس! یہ دکھ صرف انہی والدین کا دکھ رہتا ہے۔ دوسروں کو اختیار رکھتے ہوئے بھی اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا ہے۔ ان کے لیے یہ عام اور معمولی بات ہوتی ہے۔ دوسری طرف اگر ’’گمشدہ‘‘ عوام کے بچے کے بجائے کسی خواص کا بچہ ہو تو پوری ملکی مشینری حرکت میں آجاتی ہے۔ ارباب اعلیٰ کی طرف سے پولیس کو سزا دینے کی دھمکیاں مل جاتیں ہیں۔ پھر یہ کوششیں رنگ لاتیں ہیں اور گمشدہ بچہ مل جاتا ہے۔ مجرموں کو سخت سزائیں دی جاتیں ہیں۔ اسی لیے تو خواص کے بچوں کا اغوا نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ خواص کے لیے ہلکان ہونے والے یہ بھول جاتے ہیں کہ انہیں تنخواہیں عوام کے ٹیکسوں سے ملتی ہیں۔ ان معصوم فرشتوں کے معاملے میں خواص اور عوام کا فرق انسانیت کی توہین ہے۔ یہ ترقی یافتہ دور ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تلاش کرنا مشکل تو ہو سکتا ہے لیکن ناممکن نہیں۔
ریاست ماں کی طرح محافظ، نگران اور پناہ گاہ ہوتی ہے لیکن یہاں ہمارے عوام ریاست کے پر مشفق سائے سے یکسر محروم ہیں۔ جب ماں تحفظ دینے کی ذمے داری کو پس پشت ڈال دے تو بچوں کو اپنا بچپنا چھوڑ کر بڑا اور سمجھدار ہونا پڑتا ہے۔ لہٰذا میری پاکستانی عوام سے استدعا ہے کہ اب آپ بھی اپنا بچپنا چھوڑ کر بڑے اور سمجھ دار بن جائیں۔ اپنے مال و اولاد کی حفاظت خود کریں۔ صرف اپنے ہی نہیں بلکہ اپنے اردگرد کے بچوں کو بھی اپنا سمجھ کر ان کی حفاظت کریں تاکہ کسی شیطان صفت فرد کی ان تک رسائی نہ ہو سکے۔ ارد گرد کوئی مشکوک شخص نظر آئے تو خود اس کی فوری تحقیق کریں۔ خدا نخواستہ کسی بچے کے آنکھوں سے اوجھل ہونے کی صورت میں آپس میں ایک دوسرے کے لیے مضبوط زنجیر بن کر ارباب اختیار کو بازیاب کروانے کے لیے مجبور کر دیں۔ جب عوام میں اتحاد ہوگا، وہ ایک بن جائیں گے، ایک دوسرے کے خیرخواہ ہوں گے، اپنے ریاستی حقوق کی پہچان ہوگی تو اپنے ساتھ کسی بھی طرح کے ظلم و زیادتی ہونے پر ارباب اختیار کو انصاف دلانے پر مجبور کر دیں گے۔ کیونکہ ہمارے سر پر ست آسائشوں اور عیاشیوں میں منجمد ہو چکے ہیں۔ اب ان کا جمود صرف عوام کا اتحاد اور آپس کی خیرخواہی ہی توڑ سکتی ہے۔ آخر میں میں کہنا چاہوں گی کہ محمد ارسلان اور دوسرے گمشدہ بچے بھی ہمارے ہی جسد کا حصہ ہیں۔ ہم سب کو مل کر سوشل میڈیا پر ان کی بازیابی کے لیے پر زور تحریک چلانی چاہیے تاکہ ہمارے ٹیکسوں پر پلنے والے اربابِ اختیار کے پاس ان کی تلاش کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہے۔