مثالی خاندان کی تخلیق مشکل نہیں

899

کہتے ہیں کہ عورت کو اللہ نے جذبہ ٔ خاص عطا فرمایا ہے۔ اس جذبے کو ہتھیار بنا کر عورت دنیا کو فتح کرتی ہے، کمزور ہوتے ہوئے اپنے سے قوی بہادر اور مضبوط مردوں پر حکمرانی کرتی ہے۔ ’’جذبہ‘‘ عورت کا ہتھیار ہے۔ یہ کبھی آنسوئوں، کبھی مسکراہٹ اور کبھی خاموشی کو تیز دھار ہتھیار میں بدل دیتا ہے جس کا نشانہ کاری اور اثر انگیز ہوتا ہے۔ زندگی کے روزمرہ اور گھریلو میدان میں مرد اور عورت کبھی مخالف اور کبھی حلیف ہونے کی حیثیت سے زندگی گزارتے ہیں۔ مخالف ہونے کی صورت میں گھر حشر کا میدان بنتا ہے اور حلیف ہونے کی حیثیت سے مثالی گھرانہ۔ مثالی بننے کی خواہش ہر گھر کے لوگوں کی فطری خواہش ہے، اس خواہش کی تکمیل کوئی اتنا بڑا مسئلہ بھی نہیں۔ عورت کا ہتھیار اگر جذبہ ہے تو مرد کے پاس بھی جذبات کی کمی نہیں۔ ضروری ہے کہ عورت کو اپنانے کے لیے اُسی کے میدان میں اُسی کے ہتھیاروں سے مقابلہ کیا جائے۔ عورت کے پاس اگر دل کے قفل کی چابی ’’جذبے‘‘ کی صورت میں موجود ہے تو وہی چابی مرد کو بھی خدا نے عنایت کی ہے، بس ضرورت اگر ہے تو اُس چابی کو استعمال کرنے کی اور درست طریقے سے استعمال کرنے کی۔ پھر اس چابی سے دل کا قفل کھل کر اندر داخل ہوا جاسکتا ہے۔ خوش گفتاری اور نرم خوئی اس چابی کو ’’شاہ کلید‘‘ بنادیتی ہے۔ نبی اکرمؐ نے امت کے مردوں کو ہمیشہ عورت کے ساتھ اچھا سلوک کرنے اور اس کے جذبات کا احترام کرنے کی تلقین کی ہے۔ فرمایا ’’تم میں سے بہترین وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے سب سے اچھا ہے اور میں تم سب سے بڑھ کر اپنے گھر والوں کے لیے اچھا ہوں‘‘۔ دوسری طرف بیوی کا کردار کائنات کا اہم ترین کردار ہے۔ اتنا اہم کہ اُس کے بغیر جنت کی ساری نعمتیں سیدنا آدمؑ کے لیے بے معنی تھیں۔ بے کیف تھیں، جی ہاں، جنت بھی ان کی بیوی اماں حوا کے بغیر سیدنا آدمؑ کے لیے تشنہ تھی۔ آج بیوی کے کردار کو غیر اہم سمجھ لیا گیا ہے۔ اچھا آپ ’’ہائوس وائف‘‘ ہیں۔ پھر آپ کرتی کیا ہیں؟ جھٹ دوسرا سوال ہوتا ہے، حالاں کہ ’’ہائوس وائف‘‘ عورت کا بہترین اعزاز ہے۔ ایک ایسا اعزاز جس پر تمام پیشے قربان کیے جاسکتے ہیں، عورت کے لیے دنیا میں اس سے بڑھ کر نہ کوئی دلچسپی ہے نہ مشغلہ اور نہ ہی مقصد۔ ایک مرد کی رفاقت میں اپنے تمام جذبے کے ساتھ مخلص ہو کر زندگی گزارنا اور پھر زندگی کے سارے نشیب و فراز سے گزر کر ہنستے کھیلتے پار اُتر جانا ہی کامیابی اور کامرانی ہے۔ دنیا کو اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ مسئلہ یہ ہے کہ دنیا نے اسے حقیر سمجھا تو عورت کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی یا بٹھادی گئی کہ بیوی کا کردار اگر ادا کررہی ہو تو گویا کچھ بھی نہیں کررہی ہو تم کو کامیاب بننے کے لیے مزید کچھ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اپنی صلاحیت کو بڑھانا اپنی شخصیت کو بہتر کرنا، اپنے علم میں اضافہ کرنا اہم ہے لیکن اہم ترین اُس کردار کی ادائیگی ہے جس کے بغیر یہ دنیا ہی نہیں جنت بھی ویرانہ تھی۔ جس کی قوت تسخیر بقول اقبال ؎
چاہے تو بدل ڈالے ہئیت چمنستاں کی
یہ ہستی دانا ہے، بینا ہے، توانا ہے
لیکن ایسا بھی ہوتا ہے کہ دانائی، بینائی اور توانائی کے استعمال کے باوجود معاشرتی دبائو اور میڈیا کی یلغار کے باعث یہ ہستی سمت سے بے سمت ہوجاتی ہے اور یوں بعض اوقات اچھے اور بہترین خاندان سمجھے جانے والے بھی درست سمت سے ہٹ جاتے ہیں لیکن ایک خصوصیت جو انہیں بار بار درست راستے کی طرف واپس لے آتی ہے۔ وہ ان کا منزل مقصود کا بخوبی ادراک ہوتا ہے۔ ’’مثالی گھرانے کی سات عادات‘‘ نامی کتاب کی مصنف ’’اسٹیفن آر کووے‘‘ خاندان کو جہاز سے تشبیہ دیتے ہیں کہ ٹیک آف سے قبل پائلٹ کو اپنی منزل کا علم ہوتا ہے اور وہ اپنے منصوبے کے مطابق سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ سفر کے دوران طوفان بارش، فضائی ٹریفک، انسانی غلطیاں اور دیگر عوامل جہاز پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے پائلٹ کو جہاز مختلف سمتوں میں گھمانا پڑتا ہے۔ سفر میں متعدد دفعہ پہلے سے بتائے ہوئے راستے سے ہٹنا بھی پڑتا ہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض اوقات پائلٹ متعین راستے سے ہٹ کر بہت دور ہوجاتا ہے مگر بالآخر بحفاظت اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ ایسا کیونکر ممکن ہوتا ہے؟
یہ اس لیے ممکن ہوتا ہے کہ دوران پرواز جہاز کو مسلسل ہدایات مل رہی ہوتی ہیں۔ پائلٹ کنٹرول روم سے رابطے میں رہتا ہے، دی گئی معلومات کی روشنی میں جہاز کی سمت تبدیل کرتا رہتا ہے، یوں ہر بار اپنے مقرر کردہ منزل کے راستے پر لوٹ آتا ہے۔ جہاز کی طرح اگر کوئی خاندان درست راستے سے ہٹ جائے یا بے ترتیبی کا شکار ہوجائے تو پریشانی کی ضرورت نہیں، درست راستے پر واپسی کا حوصلہ رکھنا اصل شے ہے۔ پچھلے تیس سے پچاس سال کے دوران معاشرتی رجحانات بہت بدل گئے ہیں۔ خاندانی صورت حال میں ڈرامائی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ 1940ء کے اور اس کے بعد کے مسائل بچوں کے حوالے سے جو سمجھے جاتے تھے آج انہیں مسائل ہی نہیں سمجھا جاتا۔ ایک سروے کے مطابق اس زمانے میں بچوں کے بڑے مسائل فضول گفتگو، شور کرنا، چیونگم چبانا، کمروں میں دوڑتے پھرنا، یونیفارم کے ضوابط کی خلاف ورزی تھی۔ آج 2000ء کے بعد کے مسائل نشہ، شراب نوشی، خودکشی، ڈکیتی اور تشدد وغیرہ ہیں۔ آر کووے اپنی کتاب میں مثالی خاندان کی یہ سات عادات بتاتے ہیں۔ مثبت رویہ، مستقبل کی منصوبہ بندی، مفید کام پہلی ترجیح، سب کے لیے کامیابی، پہلے سنیں پھر بولیں، امداد باہمی اور مل کر وقت گزارنا ہے۔ یہ باتیں ہمارے لیے نہ عجیب ہیں نہ اجنبی۔ ذرا غور کیجیے ہمارے ہاں ایک مسلمان کے لیے کنٹرول روم اور ہدایات کی کتاب چودہ سو سال سے موجود ہے۔ دل اور دماغ کے اندر سمت کی یاد دہانی کے لیے کمپاس پیدائش کے بعد اذان کی صورت میں پہلے دن ڈال دیا جاتا ہے۔ البتہ اس کمپاس کو دھول مٹی کائی اور دیگر خرابیوں سے بچانے کے لیے مستقل مزاجی سے کوشش جاری رکھنا والدین اور دیگر بزرگوں کا کام ہے۔ ہم سب کے دل میں بہترین، مطمئن اور خوش خاندانی تعلقات کی خواہش موجود ہے۔ لہٰذا اس مقصد کے حصول کے لیے کبھی کوشش ترک نہیں کرنی چاہیے۔ اس سے فرق نہیں پڑتا کہ آپ سیدھے راستے سے کس قدر دور نکل آئے ہیں واپسی کا راستہ ہر وقت کھلا ہے۔