خان صاحب پر حملہ اور سیاسی جماعتوں کا مذاق

543

عمران خان پر وزیر آباد میں قاتلانہ حملہ ہوا، حملہ آور پکڑا گیا، ملک کی تمام سیاسی جماعتوں، آئی ایس پی آر، حکومت نے اس واقعے کی بھرپور مذمت کی۔ تحریک انصاف کے کارکنوں نے پاک فوج کے خلاف نعرے بازی کی، آرمی چیف کے خلاف بھی نازیبا الفاظ ادا کیے جاتے رہے۔ عمران خان اس حملے میں زخمی ہوئے، اللہ نے اُن کو ایک بار پھر نئی زندگی دی کہ شاید کے اگر اس مرتبہ دوبارہ حکومت اُن کو مل جائے تو وہ زبانی نہیں بلکہ حقیقی طور پر عملی طور پر پاکستان کو ریاست مدینہ بنا سکیں، کیوں کہ اپنے کے دور حکومت میں وہ صرف ریاست مدینہ کی بات کرتے رہے ریاست مدینہ کے منشور پر عمل نہیں کرسکے، ہمارے ملک کو ملکہ برطانیہ نے آزاد تو ضرور کیا مگر ہم کو اُس نے اپنی کالونی بنا کر رکھا، ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور حکومت اُن ہی کے اشاروں پر چلتی ہے، چاہے کوئی حکومت آجائے اُس کو وہاں حاضری دینی پڑتی ہے، اُن کا آلہ کار بن کر حکومت کرنی ہوتی ہے، اگر اُن کا حکم نہیں مانتے تو آپ کا حشر خان لیاقت علی خان، شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید ضیا الحق، محترمہ شہید بے نظیر بھٹو جیسا ہوجاتا ہے جن کے قاتل آزاد گھومتے رہتے ہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس ملک میں واحد جماعت ایک ہے جو آج تک اپنے قائد، اپنے لیڈر سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے فکر و فلسفے پر چل رہی ہے جو بات انہوں نے کی تھی وہی بات آج بھی سراج الحق کہتے ہیں۔ عالمی ایجنڈے کے غلام ہیں ہمارے حکمران جب کہ حقیقی آزادی صرف اسلامی نظام میں ہے، جماعت اسلامی ملک کی واحد جماعت ہے جس کو کوئی طاقت آج تک توڑ نہیں سکی، کوئی دھڑے بندی آپ کو جماعت اسلامی میں نظر نہیں آتی۔
کراچی کی سب سے بڑی سیاسی طاقت مہاجر قومی موومنٹ اپنے عروج پر تھی، الطاف حسین کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ تھانے دار کی مجال نہیں تھی کہ وہ ایم کیو ایم کے کسی کارکن کی ایف آئی آر کاٹ دے، بڑے بڑے فیصلے 90 پر ہوتے تھے، اُس وقت کے حکمران خود 90 آتے تھے، لاکھوں عوام کو 1،2،3 کہہ کر خاموش کرنے والا وہ سیاسی جادوگر آج لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہا ہے۔ اُن کو ان کے اپنے دوستوں، کارکنوں نے نقصان پہنچایا ہے، متحدہ کا الطاف حسین نے اعلان کیا تو آفاق احمد اور عامر خان نے حقیقی بنالی، پھر فاروق ستار کی پارٹی کے نام نہاد لیڈروں سے نہیں بنی، ایم کیو ایم پاکستان بن گئی پھر مصطفی کمال مارکیٹ میں آگئے اور ایک اور مہاجر پارٹی کی بنیاد ڈال دی۔ یہ سارا کمال کس کا تھا یہ سارا کمال اسٹیبلشمنٹ کا تھا اور کچھ بنیادی غلطی بھی تھیں، اللہ جب کسی کو طاقت یا عروج دیتا ہے تو اس طاقت کا فائدہ کمزور کو ملنا چاہیے مگر متحدہ کے کارکنوں نے تو اپنے ہی کمزور لوگوں کو تباہ و برباد کیا جس نے جیسا کیا اس کا حشر بھی ویسا ہی ہوا۔ الطاف حسین ایک کامیاب سیاست دان تھے بہت کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے مگر ان کے دو خاص لوگوں کو قتل کردیا گیا، پارٹی کے چیئرمین عظیم احمد طارق اور ڈاکٹر عمران فاروق جنرل سیکرٹری پھر پارٹی کے اندر اختیارات کی جنگ نے ایک کراچی کی مضبوط جماعت کو توڑ دیا۔ آج بھی یہ سلسلہ رُکا نہیں ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان میں بھی اندرونی خلفشار اپنے عروج پر ہے، الطاف حسین کے چاہنے والے آج بھی خاموشی سے آنے والے وقت کا انتظار کررہے ہیں، اُن کو قوی اُمید ہے کہ الطاف حسین پاکستان واپس آئیں گے۔
ہمارے ملک کی سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے اس وقت جو ہمارے ملک کا حال چل رہا ہے اس نے ملک کے تعلیم یافتہ اور باشعور لوگوں کو پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ اس وقت عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف کارروائی کررہے ہیں۔ اپنے اوپر ہونے والے قاتلانہ حملے کی ایف آئی آر شہباز شریف، رانا ثنا اللہ اور فوج کے ایک اعلیٰ عہدے پر فائز حاضر سروس افسر کے خلاف کٹوانا چاہتے ہیں۔ آخری اطلاع کے مطابق مبینہ ملزم جس نے پکڑے جانے کے فوری بعد ٹی وی پر اپنا اعترافی بیان دیا اُس کی ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ قارئین کویاد ہوگا کہ فوج کے اعلیٰ ادارے آئی ایس پی آر نے پہلے ہی اعلان کردیا ہے کہ پاک فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں، یعنی ماضی میں پاک فوج سیاست کا حصہ تھی، یہ بات تو خیر سب جانتے ہی کہ پاکستان میں سیاست دانوں کو فوج کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ عمران خان کو بھی فوج نے بھرپور سپورٹ کیا مگر ملک و قوم کی حالت نہیں بدلی، پھر ان کی جگہ شہباز شریف کو لایا گیا مگر ملک کا حال مزید تباہ ہوگیا۔ وزیراعظم صاحب غیر ملکی دورے کررہے ہیں، دنیا بھر سے مدد کی اپیل بھی ہورہی ہے کیوں کہ سیلاب نے ملک کے ایک بڑے حصے کو تباہ کردیا ہے۔ دوسری طرف وزیرخزانہ ایک بار پھر سوچ رہے ہیں کہ ملک کے اداروں کی نجکاری کرکے بجٹ خسارے کو پورا کیا جائے۔ برطانیہ کے ممتاز تاجروں کے وفد سے بھی انہوں نے ملاقات کی اور اُن کو پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ ہمارے ملک کی سیاسی صورت حال اور کرپشن کی وجہ سے سرمایہ کار بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے خوف زدہ ہیں۔
خان صاحب آپ ایک مقبول لیڈر بن گئے ہیں لہٰذا آپ ریاست کو کمزور کرنے کے بجائے ریاست کو ترقی دینے میں اپنا کردار ادا کیوں نہیں کرتے، آپ کو تھوڑا صبر کرنا چاہیے ریاست کے ہر ادارے سے لڑائی کا نتیجہ کبھی اچھا نہیں ہوتا، ماضی کی پوری تاریخ آپ کے سامنے ہے، آپ کی وجہ سے تو اسٹیبلشمنٹ نے اپنے آپ کو نیوٹرل کردیا ہے اب آپ کو کوئی تکلیف نہیں ہونی چاہیے۔ جس طرح سے آپ کے کارکن سوشل میڈیا کا غلط استعمال کررہے ہیں۔ وہاں فوج سے پیار کرنے والے آپ کے خلاف بھی بھرپور کارروائی کررہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ عمران نے اداکاری میں شاہ رخ اور سلمان خان کو پیچھے چھوڑ دیا۔ رانا تنویر نے کہا کہ سو فی صد یقین ہے کہ عمران خان نے اپنے اوپر حملہ خود کرایا ہے، آپ ملک کے واحد لیڈر ہیں جس نے افواج پاکستان کے ایک حاضر سروس افسر کا نام لے کر انہیں واقعے کا ذمے دار قرار دیا۔ آپ نے افواج پاکستان کے پورے نظام پر عدم اعتماد اور شکوک و شبہات کا اظہار کیا۔ آپ کے اس عمل پر بھارت میں خوشیاں منائی گئی، بھارتی میڈیا آپ کی ہمت کی تعریف کررہا ہے وہ تو پاکستان کی افواج کو ویسے ہی کمزور کرنا چاہتا ہے اُس کا مقصد تو آپ پورا کررہے ہیں جو ملک کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ ارشد شریف کے قتل کا سارا معاملہ بھی افواج پاکستان پر ڈالنے کی کوشش کی گئی، اس سلسلے کو خان صاحب آپ کو فوری روکنا ہوگا ورنہ ملکی سالمیت اور استحکام خطرے میں آجائے گا، نیوٹرل ہونے والے پھر چارج ہوگئے تو ملک میں جمہوریت پھر نہ جانے کتنے سال کے لیے دفن ہوجائے گی۔ خان صاحب ملک کی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی نے پریس کانفرنس کی اور اس بات کو تسلیم بھی کیا کہ ماضی میں ہم سے بھی غلطیاں ہوئی ہیں لہٰذا آپ اب افواج پاکستان کو سیاست سے دور رکھیں آپ کا ووٹ بینک بھرا ہوا ہے بس وقت کا انتظار کریں اور صبر کا مظاہرہ کریں۔