انجینئر حافظ نعیم الرحمن امیر جماعت اسلامی کراچی نے گزشتہ روز بالکل برمحل اور برحق یہ فرمایا ہے کہ ’’حکومت سندھ ضد اور ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر بلدیاتی الیکشن کا انتظار کرے۔ الیکشن کمیشن بھی پیپلز پارٹی کا سہولت کار بننے کے بجائے آئین کے مطابق اپنے اختیار کو استعمال کرے اور الیکشن کروائے۔ یہ ایک عجیب طرفہ تماشا اور ستم ظریفی ہے کہ حکومت سندھ مسلسل دوسرے مرحلے کے بلدیاتی الیکشن کا انعقاد کروانے سے گریزاں ہے، پاکستان پیپلز پارٹی نے ہمیشہ جمہوریت کا راگ الاپا ہے، اس کی ساری قیادت ہمہ وقت جمہوریت اور جمہوری اقدار کی پاسداری کا ذکر کیے بغیر اپنی کوئی تقریر یا بات مکمل نہیں کرتی، لیکن جب بھی کراچی، حیدر آباد اور دوسرے مرحلے کے بلدیاتی الیکشن میں دیگر علاقوں کے حصہ لینے کے خواہش مند عوام اپنے ہاں بلدیاتی انتخاب کے فوری اور جلد از جلد انعقادکا تذکرہ چھیڑتے ہیں تو ساری حکومت سندھ اور پی پی کی مرکزی اور صوبائی قیادت کو ایک طرح سے سانپ سونگھ جاتا ہے۔ عوامی اُمنگوں اور آرزوئوں کو پامال کرتے ہوئے چیف جسٹس آف سندھ ہائی کورٹ جناب احمد علی شیخ کے واضح حکم نامے کو نظر انداز کر رہی ہے اور گزشتہ 15 برس سے سندھ کے اقتدار پر ایک طرح سے بلاشرکت غیرے براجمان پیپلز پارٹی، اس کی ہر دور میں حلیف رہنے والی متحدہ قومی موومنٹ، بظاہر ایک دوسرے کی حریف تاہم مذکورہ معاملہ پر حلیف بلکہ یک جان اور دو قالب، تحریک انصاف بھی سندھ میں دوسرے مرحلہ کے بلدیاتی الیکشن میں روڑے اٹکانے میں مصروف ہے۔ ایسے ایسے عذر ہائے لنگ تراشے جارہے ہیں کہ پڑھنے اور سننے والا بھی خود کو محجوب اور شرم سار تصور کرنے لگتا ہے کہ آخر ڈھٹائی بلکہ بے حیائی کی بھی کوئی حد اور قید ہوا کرتی ہے لیکن ان تینوں جماعت کی قیادت نے بلدیاتی الیکشن کے انعقاد سے گریز کرکے ثابت کر دیا ہے کہ انہیں جمہوریت، جمہوری اقدار اور عوامی مسائل کے حل سے قطعاً کوئی دلچسپی ہے، ان سب جماعتوں کی قیادت اپنے اپنے محدود اور ادنیٰ مفادات کی اسیر بنی ہوئی ہے۔
مجھے تو ان جماعتوں کی قیادت کی طرف سے سندھ میں مسلسل بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے سے فرار اور ان کی اس بارے میں یکجہتی اور باہم یک خیالی اور ہم آہنگی کو دیکھ کر وہ نکھٹو اور نالائق طالب علم یاد آجاتا ہے جو سارا سال کھیل کود اور لایعنی سرگرمیوں میں ضائع کردیتا ہے، عین امتحان کے موقع پر اپنے والدین اور اہل خانہ سے امتحان میں عدم شرکت کے لیے مختلف حیلے بہانے تراشنے لگتا ہے اور اس طرح سے کسی نہ کسی طور سے امتحان میں حصہ لینے سے بچنے کی پوری کوشش کرتا ہے۔ پی پی، متحدہ اور پی ٹی آئی کی ساری قیادت بھی اپنی ماضی کی ساری کارکردگی (بلکہ عدم کارکردگی) سے بخوبی آگاہ اور باخبر ہے۔ انہیں یہ بھی اچھی طرح سے معلوم ہے کہ عوام ان سے کتنے نالاں، بیزار اور متنفر ہیں۔ تمام سروے غیر جانبدار رپورٹیں اور عوامی رجحانات سے پتا پڑتا ہے کہ کراچی میں دوسرے مرحلے کے بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے نتیجہ میں کراچی کی میئر شپ کے سب سے زیادہ فیورٹ، مضبوط اور پسندیدہ ترین امیدوار جماعت اسلامی کراچی کے امیر حافظ نعیم الرحمن ہوں گے، جس کی وجہ سے ان تینوں جماعتوں کی قیادت کے ہاتھ پائوں سچ مچ پھولے ہوئے ہیں۔ انہیں کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی بس لے دے کر ان کے پاس اب یہی جواب طریقہ، حیلہ اور بہانہ رہ گیا ہے کہ وہ کوئی نہ کوئی عذر لنگ تراش کر بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کے انعقاد میں رکاوٹ ڈالیں اور یوں اپنا مضحکہ اڑوائیں، لیکن عوام، میڈیا اور عدلیہ سب کے سامنے ان کی حقیقت اور درپردہ چہرہ نمایاں ہوگیا ہے۔ ان کے عوام دشمن عزائم ظاہر ہوچکے ہیں، آخری بکری کی ماں کب تک خیر منائے گی؟ اور ایک دن اونٹ بھی ضرور بالضرور پہاڑ تلے آکر رہے گا‘‘۔ یعنی ان شاء اللہ عوامی اُمنگوں اور آرزوئوں کے مطابق بلدیاتی الیکشن کے دوسرے مرحلے کا انعقاد ہو کر رہے گا۔
حکومت سندھ کی نااہلی کا عالم یہ ہے کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کی جانب سے تمام تر دعوئوں کے باوجود ہفتہ رفتہ ضلع گھوٹکی کے کچے کی علاقے رونتی میں ڈاکوئوں کی جانب سے ایک ڈی ایس پی عبدالمالک بھٹو، دو ایس ایچ اوز اور تین پولیس اہلکاروں کی شہادت کے سانحہ میں ملوث ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کا باقاعدہ آغاز نہیں کیا جاسکا ہے اور ڈاکو ہر روز ہی سوشل میڈیا پر جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ہو کر اپنی وڈیو اپ لوڈ کرکے سندھ پولیس اور حکومت سندھ کو بڑی دیدہ دلیری سے للکارتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں کہ ’’کوئی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، کوئی بھلا ہمارے خلاف آپریشن کرکے تو دکھائے ہم اسے مزہ چکھادیں گے‘‘۔ اس دوران سندھی اخبارات میں ایسی خبریں بھی چھپی ہیں جن سے اہل سندھ کو یہ شرم ناک اور افسوس ناک خبر ملی ہے کہ کچے کے علاقے میں ڈاکوئوں کے ہاں جو مغوی بہ غرض تاوان قید کیے گئے ہیں ان میں ایسے اسیر بھی شامل ہیں جنہیں پولیس اہلکاروں نے پہلے گرفتار کیا، پھر انہیں ڈاکوئوں کے حوالے کردیا۔ کوئی بتلائو کہ ہم بتلائیں کیا؟ جب پولیس خود یہ سیاہ ترین قابل مذمت فعل سرانجام دے تو بھلا عوام اس سے کیوں کر کوئی اچھی اور نیک امید باندھیں گے؟ جب پولیس خود ہی بے بس اور غیر محفوظ ہے تو آخر وہ ڈاکوئوں کے خلاف آپریشن کس طرح سے کرے گی؟ سندھ کے ہر سرکاری محکمہ کا حال ناگفتہ بہ ہے اور خود سیکرٹری تعلیم اسکول ایجوکیشن اکبر لغاری کے حالیہ اعتراف کے مطابق سندھ میں اب بھی 4 ہزار 533 گوسٹرو (غیر حاضر) استاد موجود ہیں اور ڈیوٹی چور یہ نام نہاد اساتذہ اپنے افسران، اساتذہ تنظیموں کی ملی بھگت سے گھر بیٹھے ہر ماہ بڑی بڑی تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔ (روزنامہ کاوش، حیدر آباد، ہفتہ 12 نومبر 2022ء) دوسری جانب معروف سندھی زبان کے کالم نگار، سینئر اینکر، تجزیہ نگار اور دانش ور، راقم کے دوست دستگیر بھٹی نے گزشتہ روز ہی اپنی فیس بک آئی ڈی پر یہ پوسٹ مع ثبوت شیئر کی ہے کہ حکومت سندھ نے حال ہی میں سیلاب متاثرین کی امداد کے بارے میں جو نوٹیفکیشن جاری کیا ہے اس میں متاثرین کی خوراک کی مد میں خشک میوہ جات ازقسم بادام، کاجو، پستہ، انجیر، کھجور اور اخروٹ کی مد میں 37 کروڑ 66 لاکھ روپے کے اخراجات بھی دکھائے گئے ہیں۔ الامان والحفیظ۔
بدعنوانی، جھوٹ اور خدا سے بے خوفی کی تمام تر حدود حکومت سندھ کے ذمے داران نے عبور کرلی ہیں۔ متاثرین سیلاب اور بارش بے چارے تو ایک وقت کی روٹی اور وبائی امراض سے نجات اور لاعلاج کی خاطر عالم بے سرو سامانی میں دربدر مارے مارے پھر رہے ہیں اور ان پر کس طرح اتنا زرِکثیر کس مد میں حکومت سندھ نے جعلی طور پر کرکے دکھا دیے ہیں۔ سچ ہے کہ قسام ازل نے ہوس کی کوئی انتہا نہیں رکھی ہے اور بالآخر قبر کی مٹی ہی ایسے حریص اور ستم شعار حرص اور ہوس کے ماروں کی ہوس کو ختم کرے گی۔ یہ تو چاول کی دیگ میں سے چند دانوں کی مانند حکومت سندھ کی کرپشن کا ایک ثبوت ہے، ورنہ ہر صوبائی سرکاری ادارے میں ہوش ربا اور ہولناک کرپشن ہوچکی ہے اور اب بھی ہورہی ہے۔ ایسے میں عوامی مسائل کو حل کرنے میں آخر حکومت سندھ کیوں دلچسپی لے گی اور دوسرے مرحلے کے بلدیاتی انتخاب کا انعقاد کراکے وہ اپنے لیے کیوں کر اتنا درد سر مول لے گی؟ پی پی قیادت اور حکومت سندھ سمیت بلدیاتی الیکشن کی مخالف تمام سیاسی جماعتوں اور اس کے پس پردہ خفیہ ہاتھ کو بھی اس بات کا بہت اچھی طرح سے علم اور ادراک ہے کہ اگر کراچی میں حافظ نعیم الرحمن کی طرح کا پُرعزم، نیک، صالح اور باصلاحیت فرد میئر بن گیا تو ان کا سیاسی مستقبل مخدوش اور تاریک ہوجائے گا۔ سندھ کے دیہی علاقوں میں بخوشی بلدیاتی الیکشن کے پہلے مرحلے کا انعقاد پی پی نے اسی لیے کروا دیا تھا کہ یہاں افسران، انتظامیہ، پولیس اور بیورو کریسی اس کے مرغ دست آموز، مقامی وڈیرے اور بھوتار سارے کے سارے اس کے ساجھی دار اور فرماں بردار تھے اور ووٹرز کی اکثریت بھی ان کے اشارہ ابرو پر ووٹ ان کے من پسند امیدوار کے حق میں کاسٹ کرنے والی، لیکن شہری سندھ کے عوام تو ظاہر ہے وڈیروں اور بھوتاروں کے شکنجے میں کسے ہوئے نہیں ہیں لہٰذا پی پی اور اس کی ہم نوا سیاسی جماعتیں مرحلے کے بلدیاتی الیکشن میں جو رکاوٹ ڈال رہی ہیں تو یہ بات قابل فہم ہے۔