1962ء کے آئین کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں مارشل لا کے خاتمے کے بعد سیاسی سرگرمیاں بحال ہوگئیں اور سیاسی جماعتوں پر سے پابندیاں اُٹھالی گئیں۔ پابندیاں اُٹھتے ہی جماعت اسلامی 24 گھنٹے کے اندر فعال ہوگئی۔ دراصل وہ کبھی غیر فعال تھی ہی نہیں۔ صرف سیاست ہی اس کی جدوجہد کا میدان نہ تھا، وہ معاشرے کو اسلامی سانچے میں ڈھالنے اور اسلام کو ہر سطح پر نافذ کرنے کے لیے بطور تحریک کام کررہی تھی اور تحریکیں رُکا نہیں کرتیں۔ مارشل لا کے دور میں بھی اس کے ہفتہ وار تنظیمی اجلاس ہوتے رہے جس میں کارکن عوام سے اپنے رابطے کی رپورٹ پیش کرتے تھے۔ رابطے کا ذریعہ جماعت اسلامی کا لٹریچر تھا جو لوگوں کو پڑھنے کے لیے دیا جاتا تھا۔ یہ دین کی دعوت کا کام تھا جس میں سیاست کا کوئی عمل دخل نہ تھا۔ جماعت اسلامی کا شعبہ خدمت خلق بھی مارش لا دور میں بہت فعال تھا۔ جماعت نے اس حوالے سے مٹھی آٹا اسکیم متعارف کرائی تھی جس کے تحت کھاتے پیتے گھرانوں میں ایک خالی کنستر رکھ دیا جاتا اور صاحب خانہ کو ہدایت کی جاتی کہ جب بھی گھر کی خاتون آٹا گوندھنے بیٹھیں تو ایک مٹھی آٹا کنستر میں ڈال دیں اس طرح ہفتے میں جو آٹا جمع ہوتا وہ اسی محلے کے غریب اور نادار گھرانوں میں تقسیم کردیا جاتا۔ جب کہ شعبہ خدمت خلق کی ڈسپنسریاں بھی محلوں میں گشت کرتیں اور غریب مریضوں کو ادویات فراہم کرتی تھیں۔ اس سلسلے میں باقاعدہ میڈیکل کیمپ لگائے جاتے اور ڈاکٹر مریضوں کا معائنہ کرکے ادویات تجویز کرتے تھے۔ چناں چہ جب سیاسی پابندیاں اُٹھیں تو جماعت اسلامی کے تمام دفاتر آن واحد میں کھل گئے اور شعبہ خدمت خلق کی طرح جماعت کا سیاسی شعبہ بھی متحرک ہوگیا۔ جب کہ دیگر سیاسی جماعتیں مارشل لا کے زمانے میں تتر بتر ہوچکی تھیں، انہیں فعال ہونے میں بہت وقت لگا۔
امیر جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی نے سیاسی سرگرمیاں بحال ہوتے ہی مرکزی مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کرلیا جس میں مشرقی پاکستان سے بھی ارکان شوریٰ نے شرکت کی۔ اُس وقت کسی کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ ہمیں چند سال بعد سقوط مشرقی پاکستان کے سانحہ سے دوچار ہونا پڑے گا اور سابق مشرقی پاکستان میں جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور کارکنوں پر قیامت ٹوٹ پڑے گی اور انہیں اپنے لہو سے پاکستان سے وفاداری کا خراج دینا پڑے گا۔ آج جب ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں تو ان میں سے کوئی بھی بقید حیات نہیں ہے سب اپنی نذر پوری کرکے اللہ کے حضور پیش ہوچکے ہیں، لیکن بنگلادیش حکومت کی پیاس ابھی تک نہیں بجھی، وہ جماعت اسلامی کے ان لوگوں کو بھی پھانسی دے رہی ہے جو سقوط مشرقی پاکستان کے وقت عہد طفولیت سے گزر رہے تھے۔ خیر یہ تذکرہ ضمناً آگیا، ہم مجلس شوریٰ کے اجلاس کا ذکر کررہے تھے جس میں مشرقی پاکستان کی بھرپور نمائندگی موجود تھی۔ اجلاس میں حالاتِ حاضرہ پر تفصیل سے غور کرنے کے بعد طے پایا کہ آئندہ سال (1963) جماعت اسلامی کا کُل پاکستان اجتماع لاہور میں منعقد کیا جائے جس میں عوام
کو شرکت کی دعوت دی جائے اور ایوب آمریت کے خلاف جماعت اسلامی کا موقف پوری وضاحت سے پیش کیا جائے۔ ملک سے مارشل لا اگرچہ اُٹھا لیا گیا تھا لیکن جنرل ایوب خان ملک کے صدر بن کر اپنی مطلق العنانیت بدستور قائم رکھے ہوئے تھے۔ انہوں نے ایک آرڈی ننس کے ذریعے میڈیا کی آزادی بھی سلب کرلی تھی اور یونیورسٹی آرڈی ننس کے ذریعے طلبہ کی سرگرمیوں پر بھی پابندی لگادی تھی جن میں اسلامی جمعیت طلبہ بڑی تیزی سے نفوذ کررہی تھی اور تمام یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں میں اس کا غلبہ تھا۔ دیگر سیاسی جماعتوں میں تو اتنی جان نہیں تھی کہ وہ جنرل ایوب خان کی آمریت کا استقامت سے مقابلہ کرتیں، صرف جماعت اسلامی تھی جو آمریت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے کھڑی تھی اور اسے للکار رہی تھی۔ امیر جماعت اسلامی پاکستان سید ابوالاعلیٰ مودودی نے جنرل ایوب خان کی آمرانہ حکومت کے خلاف جو چارج شیٹ جاری کی وہ درج ذیل نکات پر مشتمل تھی۔ جنرل ایوب خان کا پہلا جرم یہ ہے کہ انہوں نے قوم کے اعتماد کو مجروح کیا جو بحیثیت کمانڈر انچیف ان پر کیا گیا تھا۔ انہوں نے ملک کے دستور (1956) کو ختم کرکے اکتوبر 1958ء میں فوجی انقلاب برپا کردیا۔ میں پوچھتا ہوں کہ جو فوج ملک کے دفاع کے لیے ان کے چارج میں دی گئی تھی انہیں کیا حق تھا کہ وہ اسے ملک پر قبضہ کرنے کے لیے استعمال کریں۔
جنرل ایوب خان کا دوسرا جرم یہ ہے کہ انہوں نے ملک میں چار سال تک مارشل لا نافذ کیے رکھا اور اس عرصے میں عوام کے تمام بنیادی حقوق معطل رکھے۔ جیسا چاہا قانون بنایا اور عوام پر نافذ کردیا اور جس قانون کو چاہا منسوخ کردیا، حالاں کہ انہیں کوئی اختیار نہ تھا۔
جنرل ایوب خان کا تیسرا جرم یہ ہے کہ انہوں نے مارشل لا کے دوران ہی بنیادی جمہوریتوں کا نیا نظام بنا ڈالا اور ان جمہوریتوں کے انتخابات ایسی حالت میں کرائے جب ملک میں نہ سیاسی جماعتوں کا وجود تھا نہ کوئی سیاسی بات کی جاسکتی تھی۔ ان بنیادی جمہوریتوں کے اسّی ہزار نمائندوں سے مطالبہ کیا گیا کہ مجھے صدر منتخب کرو۔
جنرل ایوب خان کا چوتھا ناقابل معافی جرم یہ ہے کہ انہوں نے ملک پر ایک ایسا غیر جمہوری دستور (1962) مسلط کردیا جسے کسی صورت بھی قوم کی تائید حاصل نہ تھی۔
جب یہ چارج شیٹ مشتہر ہوئی تو جنرل ایوب خان کے پاس سوائے اس کے کوئی جواب نہ تھا کہ جماعت اسلامی کی آواز کو سختی سے کچل دیا جائے۔ ملک میں سیاسی سرگرمیاں بحال ہوگئی تھیں اور جماعت اسلامی پوری قوت کے ساتھ میدان عمل میں آگئی تھی۔ اس کے لیڈر اجتماعات کے ذریعے عوام کے ساتھ رابطے میں تھے۔ امیر جماعت بھی اجتماعات سے خطاب فرما رہے تھے جس سے ایوب حکومت بوکھلائی ہوئی تھی۔
چناں چہ جماعت اسلامی نے کُل پاکستان اجتماع کے انعقاد کا اعلان کیا تو حکومت نے اسے منٹو پارک (اب مینار پاکستان) میں اجتماع کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ اس پارک کی تاریخی اہمیت یہ تھی کہ یہاں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی اور برصغیر کے مسلمانوں نے قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں تحریک پاکستان کا آغاز کیا تھا۔ جماعت اسلامی اس مقام پر اجتماع منعقد کرکے اس عہد کی تجدید کرنا چاہتی تھی جو مسلمانوں نے ’’پاکستان کا مطلب کیا، لاالٰہ الااللہ‘‘ کی صورت میں ربّ سے کیا تھا۔ جماعت اسلامی نے اس سلسلے میں باقاعدہ ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لاہور کو درخواست دی تھی لیکن اس کی درخواست مسترد کردی گئی اور اسے شہر کے وسط میں آبادیوں کے درمیان باغ بیرون بھائی گیٹ اجتماع کرنے کی اجازت دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی یہ پابندی لگادی گئی کہ جماعت اسلامی اجتماع میں لائوڈ اسپیکر استعمال نہیں کرسکتی، اس سے آبادیوں کے آرام میں خلل واقع ہوگا۔ ان احکامات میں یہ بدنیتی کار فرما تھی کہ جماعت اسلامی اجتماع نہ کرنے پائے اگر وہ آبادیوں کے درمیان اجتماع کرے تو آبادیوں کے لوگ اس پر یلغار کردیں اور اجتماع افراتفری کا شکار ہوجائے۔ جماعت اسلامی نے اس سازشی چیلنج کو بڑے حوصلے سے قبول کیا اور باغ بیرون بھاٹی دروازہ میں خیموں کا نیا شہر آباد ہوگیا۔ اجتماع کے منتظمین نے اردگرد کی آبادیوں میں وفود بھیج کر انہیں بتایا کہ یہ سیاسی نہیں دینی اجتماع ہے جس کا مقصد ملک میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے لیے رائے عامہ بیدار کرنا ہے، آپ لوگ خود بھی آئیں اور اپنی خواتین کو بھی ساتھ لائیں، ان کے لیے الگ باپردہ انتظام کیا گیا ہے۔ اس رابطے کا لوگوں پر نہایت خوشگوار اثر ہوا اور اجتماع کی رونق بڑھ گئی۔ یوں اردگرد کی آبادیوں میں جماعت اسلامی کے خلاف اشتعال پیدا کرنے کی جو سازش کی گئی تھی وہ خودبخود دم توڑ گئی۔
(جاری ہے)