لاہور: امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے تمام پارلیمانی جماعتوں کو آئین کی بالادستی کے قیام، انتخابی اصلاحات اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں مداخلت ختم کرنے کے تین نکاتی ایجنڈے پر مذاکرات کے آغاز کی دعوت دی ہے۔
منصورہ میں مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد نائب امراء لیاقت بلوچ، پروفیسر ابراہیم اور سیکرٹری اطلاعات قیصر شریف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے امیر جماعت نے کہا کہ چونکہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاست سے مکمل غیر جانبداری کا قوم سے وعدہ کیا ہے اب سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ادارہ کو اپنے عہد کی پاسداری پر قائم رکھنے کے لیے طریقہ کار تشکیل دیں اور اگر اس کے لیے قانون سازی کی ضرورت ہو تو بھی تاخیر نہ کی جائے۔
سراج الحق کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی عیادت کے موقع پر ان سے تمام امور پر گفتگو بھی ہوئی، جماعت اسلامی دیگر جماعتوں سے بھی تین نکانی ایجنڈے پر مذاکرات کے آغاز پر آمادگی حاصل کرنے کے لیے بات چیت کا آغاز کرے گی۔ آئیے مل کر ایک نیا سوشل کنٹریکٹ کرلیں اور اس بات کو یقینی بنالیں کہ کس طرح سیاست کو اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل سے ہمیشہ کے لیے محفوظ بنانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کی تجویز ہے کہ انتخابات متناسب نمائندگی کے اصول پر ہوں تاکہ مقامی جاگیردار اور وڈیرے کا ووٹر پر اثر و رسوخ ختم ہو جائے، دنیا کی کئی جمہوریتوں نے یہ اصول اپنایا ہوا ہے جو کامیابی سے جاری ہے۔ ہم آئین و قانون کی بالادستی چاہتے ہیں، ہمارے پیش نظر الیکشن کمیشن کو مالی و انتظامی لحاظ سے بااختیار بنانا ہے۔ الیکشن میں دولت کے اثرورسوخ کو مکمل طور پر ختم ہونا چاہیے۔
امیر جماعت اسلامی کا کہنا تھا کہ افسوس اس بات پرہے کہ حکمران جماعتوں کے طرزِ عمل سے نہیں لگتا کہ وہ اداروں کو مضبوط بنانا چاہتی ہیں بلکہ ان کی خواہش ہے کہ عدالتیں اور الیکشن کمیشن انہی کے زیراثر ہوں اور اسٹیبلشمنٹ ان کی سرپرستی کرے، ساری لڑائی اسی لیے ہے۔ اگر موجودہ حالات میں اصلاحات کے بغیر الیکشن ہوتے ہیں تو وہ متنازعہ ہو جائیں گے، کوئی انہیں تسلیم نہیں کرے گا، مزید بے چینی پھیلے گی۔ ماضی میں سیاستدانوں کی لڑائیوں سے مارشل لاء لگے، نہیں چاہتے کہ مزید کوئی سانحہ ہو۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کے آپس میں برسرِپیکار ہونے سے سارا نقصان غریب کا ہورہا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری نے عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہے، روپیہ کی قیمت ہر آئے روز نیچے جارہی ہے، تجارتی خسارہ بے قابو، خزانہ خالی اور ملک پر قرضوں کا ہمالیہ ہے۔ سفید پوش آدمی فکر مند ہے کہ وہ بجلی گیس کا بل دے یا بچوں کے اسکول کی فیس ادا کرے۔ پی ٹی آئی، پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی حکومت میں ہیں، اور آج سے نہیں سالہاسال سے ہیں، یہ لوگ بتائیں کہ اداروں کی مضبوطی کے لیے کیا کارنامہ سرانجام دیا، عوام کی بہتری کے لیے کیا کام کیا؟ حقیقت یہ ہے ملک کی موجودہ صورتحال سے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا، یہ جاگیردار، وڈیرے اور دولت کے انبار پر بیٹھے سرمایہ دار ہیں جن کی حکومتیں مافیاز کے زور پر چلتی ہیں۔ حکمران جماعتیں اسٹیبلشمنٹ کی چھتری کے حصول کے لیے جنگ لڑ رہی ہیں۔
امیر جماعت کا کہنا تھا کہ مارشل لاز اور نام نہاد جمہوری ادوار کے تجربات ناکام ہو چکے ہیں، ملک کو اسلامی نظام کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت کا سود کے حق میں اپیلیں واپس لینے کا اعلان خوش آئند ہے، اس کا خیر مقدم کرتے ہیں، اب حکومت وفاقی شرعی عدالت کے فیصلہ کی روشنی میں ملک میں سود کے خاتمے اور اسلامی معیشت کے نفاذ کا روڑ میپ دے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ جماعت اسلامی کے 30 اکتوبر کو مینار پاکستان گراؤنڈ میں ہونے والے یوتھ لیڈر شپ کنونشن میں ملک بھر کے نوجوانوں کی ہزاروں کی تعداد میں شرکت سے واضح ہوگیا کہ ملک کا نوجوان حقیقی تبدیلی کے لیے بے چین ہے اور فرسودہ نظام سے چھٹکارا چاہتا ہے۔ ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کے لیے جماعت اسلامی کو عوام اور خصوصی طور پر نوجوانوں جو ملک کی آبادی کا چونسٹھ فیصد ہیں کا بھرپور تعاون درکار ہے۔