زندگی خوبصورت ہے

801

ہر آنے والا بچہ انسانیت کے لیے اُمید کی کرن ہوتا ہے کہ اللہ ربّ العزت اب بھی اتنا ہی رحیم و کریم اور مہربان ہے جیسا کہ ہمیشہ سے تھا۔ لہٰذا اس نے اُسی طرح انسانوں کو نوازنے کا ارادہ قائم رکھا ہے جیسا کہ ہمیشہ سے تھا۔ اب بھی وہ دُنیا پر رحمتوں اور نعمتوں کی بارش برسانے کے لیے آمادہ ہے۔ سو ایسے عالم میں مایوسی کفر نہ ہو تو کیا ہو؟؟

لیکن عالم یہ ہے کہ نوجوانوں میں مایوسی بڑھتی جارہی ہے، اس مایوسی کی وجوہات کا جائزہ لیا جائے تو بہت سی وجوہات میں ایک بڑی وجہ خصوصی تکنیکی اور پیشہ ورانہ تعلیم و تربیت سے محرومی ہے جس کے باعث بیروزگاری، مالی وسائل میں کمی کے باعث نوجانوں میں شدید مایوسی اور احساس محرومی جنم لے رہا ہے۔ اکثر نوجوانوں کے پاس اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے مواقعے نہیں اور جن کے پاس ہیں وہ مناسب نوکریوں اور کاروباری موقعوں میں کمی سے پریشان ہیں۔ ہمارا نظام تعلیم لارڈ میکالے کی نظریات پر کھڑا ہے، نصاب قدیم ہے، طریقہ تعلیم میں خرابی ہے، لہٰذا نتائج میں نوجوانوں کے بڑھتے جرائم، خودکشی کے گراف میں اضافہ، منشیات اور اخلاقی بے راہ روی ہیں۔ روح کی پاکیزگی کیسے حاصل ہو، اقبال کہتے ہیں۔

رہے نہ روح میں پاکیزگی تو ہے ناپید
ضمیر پاک و خیال بلند و ذوقِ لطیف

اب تو یہ حال ہے کہ روح کی بلندی کے معنی نوجوان ہوائوں میں اُڑنے کو خیال کرتے ہیں اور اس کے لیے سریع الاثر ذریعہ منشیات کو سمجھتے ہیں۔ حال یہ ہے کہ اس وقت پاکستان میں منشیات تک رسائی میں اضافہ ریکارڈ حد تک بڑھ گیا۔ کراچی کے بارے میں تو ’’پروسیس ری ہیبلیٹیشن سینٹر‘‘ کے منیجنگ ڈائریکٹر محمد علی رئوف بتاتے ہیں کہ نیویارک کے بعد کراچی دُنیا کا سب سے زیادہ منشیات استعمال کرنے والا شہر ہے، منشیات میں چرس سب سے زیادہ استعمال ہونے والا نشہ ہے۔ اس کے علاوہ شراب، ہیروئن، کرسٹل، میتھ، کوکین، گانجا وغیرہ سمیت ہر قسم کی منشیات آج اتنی آسانی سے دستیاب ہیں کہ کوئی بھی انہیں آن لائن آرڈر کرکے گھر پر وصول کرسکتا ہے۔

اینٹی نارکوٹکس فورس کے ایک اہلکار کہتے ہیں کہ منشیات کی بڑھتی ہوئی دستیابی کی ایک وجہ ان کی کم قیمتیں ہیں، منشیات استعمال کرنے کی اوسط عمر اٹھارہ سال ہے، لیکن چھوٹے بچے بھی اس کے عادی ہورہے ہیں کیوں کہ یہ عمر ایسی ہوتی ہے کہ منشیات فروش آسانی سے انہیں اپنا شکار بنالیتے ہیں۔ وجوہات تو بہت سی ہیں سب سے زیادہ والدین کی عدم توجہ، تعلیم سے عدم دلچسپی، صحت مند مشاغل کی عدم موجودگی اور روزگار کا نہ ملنا ہے۔ یہ نوجوانوں میں فرسٹریشن اور ڈپریشن کا باعث بنتے ہیں پھر نتیجہ میں وہ منشیات کی طرف راغب ہوجاتے ہیں۔ ان حالات میں جماعت اسلامی الخدمت نے کراچی میں نوجوانوں کے لیے تعلیم اور آئی ٹی کی مہارت حاصل کرنے کا انتہائی اہم اور دور رس اثرات کا حامل پروگرام ’’بنو قابل‘‘ کے نام سے شروع کیا ہے۔ اس پروگرام کی بہترین بات یہ ہے کہ الخدمت کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں کوشش ہوگی کہ چھے ماہ میں نوجوان مہارت حاصل کرکے باعزت طریقہ سے روزگار کمانا شروع کرسکیں۔ جماعت اسلامی الخدمت نے اس سال کے شروع میں بھی ہنر مندی سکھانے کے لیے ایک ادارہ قائم کیا تھا جس میں ٹیلرنگ، الیکٹریشن، پلمبنگ وغیرہ کی تربیت کا انتظام ہے۔ ضرورت ہے کہ ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں تعلیم کے ساتھ ہنر مندی سکھانے کا انتظام کیا جائے۔ اس بات کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ دوران تعلیم اگر طلبہ اپنی آمدنی میں اضافے کے لیے یہ کام بھی کرتے رہیں تو اُن کی پاکٹ منی میں اضافے کا سبب ہوگی، پیسے اور وقت کی اہمیت سمجھ میں آئے گی۔ اس بات کی بھی سمجھ آئے گی کہ زندگی خوبصورت ہے، لیکن یہ خودبخود خوبصورت نہیں بنتی اس کی تعمیر روزانہ کی بنیاد پر کرنی ہوتی ہے۔ زندگی ہمارے اردگرد رواں ہے، پرندوں کی ڈار کی ڈار صبح شام بھوکے پیٹ آشیانے چھوڑتے ہیں اور شام کو رب رحیم انہیں بھرے پیٹ واپس لاتا ہے۔ اس کا حکم زمین و آسمان اور ساری کائنات میں جاری و ساری ہے۔ کس کو کس طرح نوازنا ہے؟ کس کی رسی دراز رکھنا ہے اور کس کی رسی کھینچ لینا ہے؟ کوئی نہیں جو اُس کے کاموں میں ایک ذرہ برابر بھی دخیل ہو۔ کون سا پتا کب کس شاخ سے گرے گا، کون سا پھول کب کس شام کھلے گا، اُس کو ہر چیز کی خبر ہے۔ پھر کسی اور سے توقع اپنی ہی ہستی پر ظلم نہیں تو کیا ہے؟ بزرگ ہوں یا جوان سب کو سمجھنا چاہیے کہ مسئلہ یہ بھی نہیں کہ فلاں اور فلاں چیز کیوں نہ حاصل ہوئی، مسئلہ یہ بھی نہیں کہ مال اور زندگی کے نقصان سے کیسے فرار حاصل کیا جائے؟ بلکہ اصل فکر مندی تو یہ ہے کہ دنیا کے تمام بکھیڑوں میں رب کی محبت کو کیسے نشوونما کے قابل رکھا جائے تا کہ وہ مرگ و بار کے قابل ہوسکے۔ معجزات زندگی صبح و شام نظروں سے گزرتے ہیں۔ دن رات کی تبدیلی، بارش کا برسنا، زمین سے کونپل کا پھوٹنا، دعوت ِ فکر دیتے چلے جارہے ہیں، کرنا تو بس اتنا ہے کہ سوچ کے رنگین دھاگوں کو الجھنے نہ دیں، لوگوں کا خوف اور ان کی توقعات خاندانی معاملات، دل کی دنیا کا اجڑنا اور بننا روز مرہ کے قصے ہیں۔ اہم تو بس یہ ہے کہ سوچ کی رو، اور فکر کی ڈور جب واپس پلٹے تو اس کا دامن خوف خدا نیکی کی پیاس اور خدا ترسی کے جذبے سے لبریز ہو۔ رب نے یہ دنیا یوں ہی کھیل تماشے کے طور پر تو نہیں بنائی نا۔ اور نہ انسان خود بازپرس سے آزاد ہے، اگر نفس یہ دھوکا دیتا ہے کہ ابھی نیکیوں کے لیے عمر پڑی ہے تو نیا کیا کرتا ہے۔ اس کا تو کام ہی یہ ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جنت بس دو قدم کے فاصلے پر ہے، جان لیں پہلا قدم نفس پر تو دوسرا جنت میں ہوگا۔ ان شاء اللہ۔