تین مضامین، ایک کالم

678

زیر ِ نظر کالم اپنے اندر تین مختلف موضوعات لیے ہوئے ہے، پہلا موضوع ہے ’’سانحات پہ الزامات سے گریز کی ضرورت‘‘۔ اس سلسلے میں یہ دہرانے کی ضرورت نہیں کہ سینئر صحافی ارشد شریف کا بہیمانہ قتل بلاشبہ ایک سانحہ ہے۔ ایک ذہین صحافی سماج کی آنکھ اور کان ہوتا ہے اور یوں اس قیمتی زندگی کا اچانک اور اس طرح بے دردی سے ختم ہوجانا بلاشبہ رنج والم کا باعث ہے۔ ارشد شریف کا قتل جن حالات میں ہوا پاکستانی عوام اس بارے حقائق سے پوری طرح آگاہ نہیں۔ جو کچھ کینیا کی پولیس کی جانب سے مختلف بیانات میں کہا گیا ہے اس سے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ یہ بھیانک واقعہ پولیس کی غلطی کا نتیجہ تھا؛ تاہم کینیا ہی کے صحافتی حلقے وقوعے کے حالات و واقعات کا جائزہ لینے کے بعد جو سوال اٹھا رہے ہیں اس سے پولیس کے بیان پر شبہات ظاہر ہوتے ہیں، ان شبہات کے ازالے کے لیے اس وقوعے کی جامع تفتیش ضروری ہے۔ دوسری جانب اس اندوہناک واقعے کو بنیاد بنا کر قیاس آرائی اور الزام تراشی سے گریز بھی اتنا ہی ضروری ہے۔ پاک فوج کی جانب سے بھی حکومت سے اس افسوسناک واقعے کی مکمل تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی چینل سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تحقیقات ان حالات ہی کی نہیں ہونی چاہئیں کہ وہاں پر کیا ہوا بلکہ ان حالات کی بھی ہونی چاہئیں کہ ارشد شریف کو پاکستان سے کیوں جانا پڑا کس نے ان کو جانے پہ مجبور کیا اور کیسے گئے اور اس دوران کہاں پر رہے۔ یہ سبھی نکات یقینا اس کیس کے حوالے سے بہت اہم ہوں گے اور جامع تحقیقات ہی سے اصل صورتحال سامنے آ سکتی ہے جو اس دلخراش واقعے کا سبب بنی۔ اس وقوعے پر قیاس آرائیوں اور الزام تراشی کا سلسلہ بھی نہایت افسوسناک ہیں۔ سیاسی قیادت کی ذمے داری ہے کہ اس معاملے میں سنجیدگی اور ذمے داری کا ثبوت دیا جائے۔

سوشل میڈیا اس جدید دور میں پروپیگنڈا کا سب سے موثر ہتھیار ہے سیاسی رہنمائوں سے یہ ڈھکا چھپا نہیں؛ چنانچہ سیاسی قیادت کا فرض ہے کہ ان حالات میں ایسا بیانیہ اختیار کیا جائے جو پروپیگنڈے کا توڑ کرے اور سماج میں اعتماد حوصلہ اور ہم آہنگی کے فروغ کا سبب بنے۔ اگر مخالف دھڑے کے لوگوں پہ یہ بات موثر اثر نہ بھی کرے مگر اپنے طرف داروں کے لیے تو یقینا یہ اثر رکھتی ہے اس لیے جب کسی جماعت کی قیادت کی جانب سے کوئی قیاس آرائی یا بے بنیاد بات کی جاتی ہے تو سماج کے لیے اس کا اثر زیادہ خطرناک ہوجاتا ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ معاشی اور سیاسی لحاظ سے وطن عزیز کو نامساعد حالات کا سامنا ہے مگر غور سے دیکھا جائے تو یہ حالات صرف یہیں نہیں کساد بازاری اور افراطِ زر کا مسئلہ کئی مضبو ط معیشتوں کی جڑیں ہلا چکا ہے مگر دانش مند سیاسی قیادت ایسے حالات کو احتیاط سے سنبھالنے کی کوشش کرتی ہے جبکہ جذباتی اور موقع کی تاک میں رہنے والے فائدہ اٹھانے کی غرض سے حقائق اور واقعات کا استحصال کرتے ہیں۔ اگر کل ملا کر دیکھا جائے تو یہ سوچ اور عمل ملک معاشرے اور سیاست سبھی کے لیے نقصان دہ ہے۔ خاص طور پر پاکستان جیسے ممالک میں جہاں کی آبادی اور مسائل زیادہ اور گمبھیر ہیں ایسے حالات خوفناک نتائج کا سبب بن سکتے ہیں۔

ہمارا دوسرا موضوع وطن ِ عز یزمیں ڈینگی کے پھیلائو اور اس کے لیے ادویات کی نایابی ہے۔ ایک عرصے سے جاری سیاسی کشمکش کی بناء پر ڈینگی پہ توجہ نہ دیے جانے کی وجہ سے ملک میں اس خطرناک بیماری میں اضافہ ہوئے جا رہا ہے تو دوسری طرف قیمت میں اضافے کے باوجود بخار کی دوا مارکیٹ سے تاحال غائب ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران ملک میں ڈینگی بخار کے کیسوں میں 30 فی صد اضافہ ہو چکا ہے۔ ڈینگی بخار کے پھیلائو اور پیراسیٹا مول کی عدم دستیابی نے مریضوں کی مشکلات میں اضافہ کر دیا ہے۔ گو اس وقت قیمتوں میں رد و بدل کو دوا کی قلت کا جواز بتایا جا رہا ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ ڈینگی کے سیزن میں عمومی طور پر بخار کی دوا مارکیٹ سے غائب کر دی جاتی ہے اور اس کے پیچھے بلیک مارکیٹنگ کی سوچ کارفرما ہوتی ہے۔ ڈینگی کے بڑھتے مرض اور دوا کی طلب کو مدنظر رکھتے ہوئے حکام کو فوری طور پر بخار کی دوا کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہیے۔ عوام کو صحت کی سستی اور معیاری سہولتوں کی فراہمی حکومت کی بنیادی ذمے داری ہے جسے بجا طور پر پورا کیا جانا چاہیے۔

قارئین کرام، اب ایسا بھی نہیں کہ وطن ِ عزیز میں سب برے ہی کی خبر ہے۔ محب ِ وطن
ہونے کے ناتے وطن کے بارے میں کوئی اچھی خبر مل جانے پر میرا حق ہے اور آپ سے شیئر کرنا میرا فرض۔ وہ اچھی خبر کچھ یوں ہے کہ تیل اور گیس کی دریافت کے شعبے کی سرکاری کمپنی او جی ڈی سی ایل نے پنجاب کے ضلع اٹک میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر دریافت کیے ہیں۔ یہ دریافت اٹک میں کمپنی آپریٹڈ ویل توت ڈیپ ون سے ہوئی ہے۔ اس کنویں سے یومیہ 882 بیرل تیل اور 0.93ملین کیوبک فٹ یومیہ قدرتی گیس حاصل ہوگی۔ یہ خبر خوش کن ہے کہ ان ذخائر سے ملکی ضروریات کے لیے سستا تیل نظام میں شامل ہوگا لیکن تیل کی دریافت کی ایسی خبریں آئے روز سننے کو ملتی ہیں۔ رواں مہینے کے آغاز ہی میں پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ نے سندھ کے ضلع سانگھڑ میں تیل اور گیس کے نئے ذخائر کی دریافت کی خوش خبری سنائی تھی۔ اس سے قبل رواں سال جون میں بھی او جی ڈی سی ایل نے پنجاب اور سندھ میں تیل اور گیس کے بڑے ذخائر کی دریافت کا اعلان کیا تھا۔ ہر سال ملک میں تیل کے بیش تر ذخائر دریافت ہوتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اگرملک میں تیل اور گیس کے ذخائر موجود ہیں تو انہیں پوری طرح بروئے کار کیوں نہیں لایا جاتا۔ کیوں ملک کی توانائی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدات پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ دنیا میں تیل اور گیس کی مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں کے پیش نظر مقامی طور پر تیل کی دریافت کسی نعمت سے کم نہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت تیل اورگیس کی مقامی پیداوار میں اضافے کی سعی کرے تا کہ درآمدات پر انحصار کم کرکے نہ صرف قیمتی زرمبادلہ بچایا جاسکے بلکہ عوام کو بھی سستے تیل کی صورت میں کچھ ریلیف میسر آ سکے۔