عمران خان آخر چاہتے کیا ہیں؟

634

عمران خان نے سیاسی مہمات کے دوران جو بھی دعوے کیے یا بیانیے بنائے ان میں سے کوئی دعویٰ یا بیانیہ ایسا نہیں تھا جس پر پاکستان کے عوام لبیک کہنے پر مجبور نہیں ہو سکتے ہوں۔ ان کا لوگوں تک اس بیان کو بار بار پہنچانا کہ اس ملک کے جتنے بھی بے ایمان لوگ ہیں ان کا نہ صرف کڑا احتساب ہونا چاہیے بلکہ ان سب کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونا چاہیے۔ یہ کہنا کہ جب تک ملک میں کرپٹ ٹولہ حکمرانی کرتا رہے گا، ملک کبھی ترقی نہیں کر سکے گا۔ جب تک ملازمتوں کے اتنے وسائل پیدا نہیں کیے جائیں کہ لوگ کم پڑ جائیں لیکن مواقعے ختم ہو کر نہ دیں، غربت کا خاتمہ ممکن نہیں، ملک میں جب تک ہر خاندان کے لیے پکی چھتیں میسر نہیں ہوں گی اس وقت تک عوام عزت کی زندگی نہیں گزار سکتے، پاکستان جب تک ایسی ریاست کی شکل اختیار نہیں کرتا کہ اس کی مثال ریاست ِ مدینہ سے دی جانے لگے اس وقت تک ان مقاصد کی تکمیل ممکن نہیں جس کے لیے یہ خطہ زمین حاصل کیا گیا تھا، ہم دنیا سے دوستی چاہتے ہیں لیکن ایسا برابری کی بنیاد پر ہو نہ کہ آقا و غلام جیسا معاملہ ہو، موجودہ کرپٹ ٹولہ کیونکہ دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کا غلام ہے لہٰذا ہم اس ملک کے عوام کو ہر قسم کی غلامی سے نجات دلانے کے لیے جہاد کریں گے اور اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھیں گے جب تک عوام کو اندرونی و بیرونی ممالک کی غلامی سے آزاد نہیں کرالیں گے، یہ سارے بیانیے ایسے ہرگز نہیں جن کو سننے کے بعد پاکستانی عوام لبیک لبیک یا عمران کہنے اور گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آنے پر مجبور نہ ہو جائیں۔
نعروں اور دعوں میں بہت فرق ہوا کرتا ہے۔ یہ یا ان سے پہلوں نے جو جو بھی دعوے اور اللہ و عوام کے سامنے وعدے کیے، اللہ نے سب کی خواہشات پوری کیں اور ان کو کم از کم ایک موقع ضرور فراہم کیا تاکہ ان کا جھوٹ اور سچ عوام کے سامنے آ سکے۔ پاکستان بننے سے پہلے لاکھوں جانوں کی قربانی مسلمانوں نے اس لیے پیش کی تھیں کہ ان کے رہنماؤں نے قوم سے وعدہ کیا تھا کہ اس سرزمین پر اللہ اور اس کے رسول کے نظام کو رائج کریں گے۔ خواہش بطور آزمائش پوری کی گئی لیکن پاکستان بنتے ہی رہنماؤں نے خلیفہ کہلانے کے بجائے گورنر جنرل، وزیر ِ اعظم اور صدر کہلائے جانے کو فوقیت دی اور نظامِ مصطفی کی قبا لیر لیر کر کے رکھ دی۔
عمران خان سے قبل جتنی بھی سویلین حکومتیں بنیں ان کو جو طاقتیں بھی لیکر آئیں، ان کے ساتھ اس حد تک بھی کھڑی نہیں ہوئیں کہ وہ کیپ لگا کر حکمرانوں کے سامنے جائیں اور سلوٹ کریں لیکن عمران خان پاکستان کے وہ خوش قسمت حکمران تھے جن کی حکمرانی کے پیج پر پاکستان کے سارے ادارے کھڑے تھے اور جو عزت ان کو عطا ہوتی رہی، آج تک کسی حکمران کے حصے میں نہیں آ سکی۔ تمام اداروں کا مکمل تعاون حاصل ہونے کے باوجود نہ تو احتسابی عمل کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ سکا اور نہ کرپشن کے آگے بند باندھے جا سکے۔ نہ تو ملک آگے کی جانب محو ِ سفر رہ سکا اور نہ ہی وہ سب وعدے جو انتخاب سے پہلے قوم سے کرتے رہے ان کی تکمیل تو تکمیل، آغاز تک نہ ہو سکا بلکہ کوئلے کی اس دلالی میں ان کے تمام رہنما، ورکر اور وہ خود اپنا اپنا منہ کالا کراتے رہے اور الزامات مع ثبوت و شواہد اپنے سر چڑھاتے رہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لانے والے شدید بدنام ہوئے اور مجبور ہو گئے کہ ریاست کو مزید تباہی سے بچانے کے لیے ان سے ساری ’’عطائیں‘‘ چھین لی جائیں۔
ایسا پاکستان میں پہلی مرتبہ تو ہوا نہیں تھا لیکن باہر نکلنے کے بعد کسی بھی سیاسی پارٹی نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا جو غیر آئینی و غیر قانونی ہو بلکہ سیاسی و آئینی حدود میں رہتے ہوئے اپنی اپنی مہمات جاری رکھیں لیکن عمران خان نے اپنی بے پناہ مقبولیت کا فائدہ اٹھا کر، حکومت میں رہتے ہوئے بھی اور باہر ہوجانے کے بعد بھی، پوری قوم کی ذہن سازی اس طرح کی کہ لوگ اداروں ہی کے نہیں ریاست کے خلاف بھی بروز شمشیر سب کچھ حاصل کرنے کے لیے پاگل پن کی ساری حدیں تک توڑنے کے لیے تیار ہو گئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ماضی قریب میں ایسا ممکن ہوتا رہا ہے لیکن اس کی مثال صرف ایرانی انقلاب ہے لیکن وہ خون کی ندیوں والا انقلاب شہنشاہیت کے خلاف تھا نہ کہ کسی آئینی اور قانونی حکومت کے خلاف۔ ممکن ہے کہ پاکستان میں بھی کچھ ایسا ہوجائے لیکن اب نہ تو دنیا اس قسم کے کسی فسطائی انقلاب کو ماننے کے لیے تیار ہے اور نہ ہی اس قسم کی کسی تحریک کا ریاست پر کوئی اچھا اثر پڑ سکتا ہے البتہ فوج تقسیم ہو یا نہ ہو، عوام تقسیم در تقسیم کے اس حد تک شکار ہو سکتے ہیں کہ گلی گلی خون خرابہ برپا ہو جائے۔
جنگ کے ہزاروں محاذ کھول لینا کسی بھی سالار کا طریقہ نہیں رہا ہے یہاں تک کہ ہمارے رسول نے بھی دورانِ جنگ، جنگ نہ کرنے کے معاہدات یہودیوں تک سے کیے۔ عمران خان نے نہ تو سیاسی پارٹیوں کو چھوڑا اور نہ ہی مذہبی راہنما ان کی شرارتوں سے محفوظ رہ سکے، حد یہاں تک پہنچی کہ اب وہ براہِ راست اداروں سے بھی ٹکرانے اور ان کو تقسیم کا شکار کرنے کے درپے ہیں۔ کیا ان کی چو طرفہ محاذ آرائی ریاست یا اپنی پارٹی کے لیے مفید ہے یا پھر تباہی و بربادی کی جانب اٹھایا جانے والا ایک خطرناک ترین ایسا قدم جو پورے پاکستان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دینے کے مترادف ہے؟۔ اس بات پر عمران خان، ان کے رہنماؤں اور ان کے اقتدا میں چلنے والوں کو نہایت سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے ورنہ شاید ہم سب کو سوائے کفِ افسوس ملنے کے اور کچھ ہاتھ نہ آسکے۔