قوم کی بیٹی کو واپس لائیں

921

کیوبا میں امریکی جیل گوانتا ناموبے سے معمر ترین قیدی سیف اللہ پراچہ کو آخر کار رہا کردیا گیا۔ سیف پراچہ کو 2003ء میں بینکاک ائرپورٹ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کی گرفتاری کے بعد اُن کے بڑے بیٹے عزیز پراچہ کو بھی نیویارک سے گرفتار کرلیا گیا تھا۔ 73 سالہ سیف اللہ پراچہ نے اپنی زندگی کے تقریباً دو عشرے قید میں گزارے۔ گوانتا ناموبے کے دیگر قیدیوں کی طرح سیف اللہ پراچہ پر اتنے برس قید میں رکھنے کے باوجود باضابطہ طور پر کوئی فرد جرم عائد نہیں کیا گیا نہ ہی انہیں اپنی حراست کو چیلنج کرنے کے لیے کوئی قانونی مدد فراہم کی گئی۔ برطانیہ کی انسانی حقوق کی تنظیم نے سیف اللہ پراچہ کو ’’ہمیشہ کا قیدی‘‘ قرار دیا تھا۔ مئی 2021ء میں آخر کا امریکی حکومت نے اُن کی رہائی کی منظوری دے دی۔ اس سلسلے میں جاری نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ سیف اللہ پراچہ امریکا کے لیے مزید کوئی خطرہ نہیں جب کہ امریکی حکومت نے اُن کی پوری قید کے دوران ان پر کسی جرم کا الزام ہی عائد نہیں کیا۔ اس دوران سیف اللہ پراچہ کے کتنے ہی پیارے دنیا سے رخصت ہوگئے۔ لیکن ان ناانصافیوں اور مظالم کے باوجود سیف اللہ پراچہ نے اپنے کردار کی خوشبو سے لوگوں کو متاثر کیا۔ یہاں تک کہ ان امریکیوں کو بھی جنہوں نے انہیں قید کیا اور ان کی زندگی کے بہت سے سال اُن سے چرا لیے۔ ان کی وکیل ’’شلبی سلووین ہینس‘‘ کہتی ہیں کہ میں ان کا بے حد احترام کرتی ہوں، وہ میرے لیے میرے والد کی طرح ہوگئے تھے۔ ان کی عدالتی کارروائیوں کے دوران ان کو جذباتی انداز میں دیکھتی ہوں‘‘۔ شلبی کا مزید کہنا تھا کہ ’’سیف اللہ پراچہ کا رویہ قیدیوں کے ساتھ اچھا تھا بلکہ ان امریکی فوجیوں کے ساتھ بھی ان کا رویہ اچھا تھا جو اُن پر کوئی فرد جرم عائد کیے بغیر ان کو قید میں رکھے ہوئے تھے۔
یہ ایک پکے سچے مسلمان کے کردار کی خوشبو ہے جس نے تمام مظالم اور بے انصافیوں کے باوجود اپنے اخلاق سے دیار مغرب کو زیر کیا۔ دوسری طرف اخلاقی لحاظ سے حکمرانوں کا جائزہ لیا جائے تو پاکستان کا یہ حال ہے کہ ہمارے وزیرخارجہ بلاول سیف اللہ پراچہ کی رہائی پر بیان دیتے ہیں کہ خوشی ہے کہ بیرون ملک قید پاکستانی آج اپنے خاندان کے ساتھ ہے۔ بلاول صاحب آپ نے تو رہائی کے لیے کوئی کوشش ہی نہیں کی۔ ارے صاحب آپ پاکستان کے وزیرخارجہ ہیں، آپ کا اپنے شہری کو اتنے سال قید رکھنے پر امریکا سے کچھ تو کہنا بنتا تھا لیکن نہیں ہمارے ملک کے حکمرانوں میں تو غیرت اور حمیت نام کو ہی رہ گئی۔ یہاں تو خود گرفتار کرکے حوالے کیا گیا ہے، اعتراف بھی کیا گیا ہے کہ ہم نے پانچ پانچ ہزار میں لوگ امریکی حکومت کے حوالے کیے ہیں۔ پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں تحریری طور پر اعتراف کیا، وہ اپنی یادداشت پر مبنی کتاب ’’in the line of fire‘‘ میں اعتراف کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم نے امریکی ہدایات پر چھے سو اناسی افراد کو گرفتار کیا جن میں سے تین سو انسٹھ افراد کو جن میں خواتین شامل تھیں امریکا کے حوالے کیا۔ ان افراد کے عوض کئی ملین ڈالرز کے انعام وصول کیے۔ پرویز مشرف کے گرفتار اور امریکا کے حوالے کیے جانے والے افراد میں اکثریت ان عام افراد کی تھی جو افغانستان میں تعلیمی و فلاحی یا نجی کاموں سے گئے تھے۔ ان افراد کو امریکا نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا، اکثریت بے گناہ تھی، گوانتا ناموبے میں یہ بے گناہ برسوں بدترین تشدد کے بعد اس اعتراف کے بعد رہا کردیے گئے کہ یہ بے گناہ ہیں۔ پرویز مشرف نے ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو بھی گرفتار کرکے امریکا کے حوالے کیا، یعنی ڈالروں کے عوض امریکیوں کو فروخت کردیا۔ گرفتاری کے وقت ان کے ساتھ ان کے معصوم بچے بھی تھے۔ جن میں سے ایک دوران گرفتاری شہید ہوگیا۔ جو محض چند ماہ کا تھا۔ 2003ء میں عافیہ کو گرفتار کیا گیا، تیرہ سال جیلوں میں اذیت ناک دن گزارنے کے بعد 2010ء میں امریکی عدالت نے چھیاسی سال کی قید کی سزا سنائی۔ یہ اتنی کھلی بے انصافی تھی کہ خود امریکا میں اس کو امریکی محکمہ انصاف اور عدالتوں پر بدنما سیاہ داغ قرار دیا گیا۔
افسوس تو پاکستان کے حکمرانوں پر ہے، پرویز مشرف نے عافیہ صدیقی کو امریکا کے حوالے کیا تو باقی سیاسی حکمرانوں نے بھی ان کی رہائی کے لیے کوئی کوشش نہیں کی، البتہ ان کو ایک سیاسی نعرہ کے طور پر ضرور استعمال کیا۔ نواز شریف، زرداری، عمران خان 2010ء کے بعد تینوں ہی اقتدار میں آئے، اپنی تقریروں میں عافیہ کی رہائی کے لیے جدوجہد کا اعلان کیا لیکن حکومت ملتے ہی انہیں بھول گئے۔ ان کی والدہ اور بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی یاد دلاتی رہیں۔ لیکن قوم کی بیٹی کے لیے اُن کی غیرت نہ جاگی۔ دو دفعہ اُن کی رہائی کا موقع آیا، ایک دفعہ صدر اوباما کے دور حکومت کے اختتام پر جب صدر اپنی صوابدید پر انہیں رہا کرسکتے تھے لیکن پاکستان کے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف نے خط نہ لکھا اور دوسری مرتبہ دسمبر 2021ء میں جب سزا کی معافی کی درخواست دی گئی، ان کی بہن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کہتی ہیں کہ دونوں مرتبہ حکومت نے ان کی رہائی کے لیے کوئی خاطر خواہ اقدامات کی کوشش نہیں کی۔ ڈاکٹر عافیہ کی والدہ اپنی بیٹی کی راہ دیکھتے دیکھتے 2 جولائی 2022ء کو اپنے خالق حقیقی سے جا ملیں۔ آج بھی قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی امریکی جیل میں قید بے گناہی کاٹ رہی ہیں۔ کیا آج کے حکمران شہباز شریف اُن کی رہائی کی طرف توجہ دیں گے، ہوسکتا ہے وہ اس میں کامیاب ہو کر قوم کو ایک بڑی خوشخبری دینے میں کامیاب ہوجائیں اور ایک باہمت غیرت مند حکمران کی صورت میں عوام کے دلوں کو جیت لیں۔