…انقلاب تو آئے گا

548

سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک بڑا سوال اٹھا دیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں انقلاب دیکھ رہا ہوں بس سوال یہ ہے کہ بیلٹ سے آئے گا یا خونریزی سے۔ عمران خان نے یہ سوال نہ اٹھایا ہوتا اور سید منور حسن مرحوم نے اٹھایا ہوتا تو اس سوال سے بڑا طوفان اٹھ کھڑا ہوتا۔ ان سے معافی کا مطالبہ ہوتا، غداری کا فتویٰ لگ جاتا، ملک دشمنی کا الزام لگ جاتا اور جو سند بانٹنے والوں کے جی میں آتا لگا دیتے، لیکن چونکہ یہ سوال کسی اسلامی پارٹی کی طرف سے نہیں آیا اس لیے طالبان سے بھی نہیں جوڑا جاسکتا اور القاعدہ سے بھی نہیں جوڑ سکتے۔ لیکن سوال سنگین ہے۔ پاکستان کا قیام ہی ایک انقلاب کے خواب کے نتیجے میں عمل میں آیا تھا۔ خواب یہی تھا کہ ایک ریاست ہو جہاں مسلمان اسلام کے مطابق زندگی گزاریں اور وہ ساری دنیا کے لیے مثال ہو۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ حکمرانی کرنے والوں اور ان کو اُتارنے چڑھانے والوں نے ایک دن کے لیے بھی پاکستان کو سرکاری طور پر اسلامی ریاست نہیں بننے دیا۔ اس کا نام ضرور اسلامی جمہوریہ ہے لیکن یہاں اسلامی قوانین نافذ نہیں ہیں۔ کراچی سے خیبر تک اور گوادر سے کشمیر تک کسی پاکستانی سے پوچھ لیں ملک میں کون سا نظام چاہتے ہو تو جواب یہی ملے گا، اسلامی، لیکن یہ نظام کیوں نافذ نہیں ہوتا رکاوٹ کہاں ہے۔ کون راستہ روکتا ہے ذرا اس پر غور کرلیتے ہیں۔ اور یہ غور پاکستان کے اس نعرے سے شروع کیا جائے جس میں کہا گیا تھا پاکستان کا مطلب کیا لاالٰہ الا اللہ۔ چنانچہ پہلا حملہ تو اس بنیاد پر کیا گیا پاکستان کو اسلامی کے بجائے جمہوری ملک بنایا جائے۔ جب نظریے پر حملہ کرکے ابہام پیدا کردیا گیا تو دوسرا حملہ جمہوریت پر بھی کیا گیا۔ کیونکہ یہ حقیقت بھی سازش کرنے والے جانتے تھے کہ پاکستان کے عوام کی غالب اکثریت اس ملک میں اسلام ہی چاہتی ہے۔ لہٰذا جمہوریت کے ذریعے اسلام کا راستہ روکا جائے چنانچہ مسلم لیگ کو خالص سیکولر پارٹی بنا کر اس کو اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والوں کے سامنے کھڑا کردیا۔ جب وہ مقابلہ نہ کرسکی تو ایوب خان خود ڈنڈا سنبھال کر آگئے اور 11 سال گزار دیے۔
ایوب خان کے دور میں ملک اسلام کے نفاذ کے بجائے ترقی کی دوڑ میں لگ گیا۔ جب وہ گئے تو ذوالقفار علی بھٹو پک کر تیار ہوچکے تھے چنانچہ انہوں نے مزید ابہام پیدا کرنے کے لیے اسلام ہمارا دین، سوشلزم ہماری معیشت کا نعرہ دیا۔ یہ پہلا باقاعدہ حملہ تھا اسلام کے مکمل ضابطہ ٔ حیات پر۔ اسلامی نظام کا مطلب ہی معیشت، سیاست، معاشرت، تجارت، خارجہ تعلقات، فوج، عدالت، تعلیم وغیرہ سب کچھ تھا۔ لیکن بھٹو دور میں طاقت کا سرچشمہ اللہ کے بجائے عوام کو بنادیا گیا۔ اور معیشت سوشلزم کے حوالے کردی گئی اور آج تک بھٹو یہی نعرہ لیے زندہ ہے۔ عوام کی انقلاب کی خواہش کو اس عرصے میں تیس برس گزر چکے تھے اور ملک معاشی طور پر اتنا پیچھے جا چکا تھا کہ اب ملک چلانے کے لالے پڑ چکے تھے نظام کی بحث تو پیچھے چلی گئی لیکن پاکستان کے نظریے پر سب سے بڑا اور منظم حملہ جنرل ضیا الحق کے دور میں کیا گیا۔ پھر 11 سالہ دور تھا اور سارے غیر اسلامی کام اسلام ہی کے نام پر کیے گئے۔ پارلیمنٹ کا نام مجلس شوریٰ رکھا گیا اور فیصلے قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہوئے۔ قوم کو نظام مصطفی کے نفاذ کا خواب دکھایا جاتا رہا اور نبی کا جھنڈا تھامنے والوں کو دو حصوں اور بعد میں کئی حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ ہر اسلامی جماعت میں دراڑیں ڈالی گئیں۔ 11 سال گزرنے پر جو چیز سامنے آئی وہ یہ تھی کہ اب اسلام کے نام پر ووٹ بھی وہی لے گا جو اسلام کے خلاف کام کرے گا۔ چنانچہ بے نظیر، نواز شریف، پھر بے نظیر، پھر نواز شریف لائے گئے۔ نواز شریف اسلام کے ووٹ بھی لیتے رہے اور سودی نظام کے حق میں عدالت میں بھی کھڑے ہوتے رہے۔ ان دونوں کی کارکردگی سے لوگ بری طرح مایوس ہوگئے تھے اور قریب تھا کہ وہ اسلامی جماعتوں کی طرف مائل ہوجاتے اور کوئی انقلاب آ ہی جاتا۔ وہ بیلٹ سے بھی آسکتا تھا اور خونریزی سے لیکن اسلام کو اس ملک میں نافذ ہونے سے روکنے والے جانتے تھے کہ بازار میں کون سا سودا بک رہا ہے، اس لیے سب سے پہلے ان دونوں گروہوں کے خلاف چور چور کا شور مچادیا گیا اور تبدیلی کا نعرہ لگایا گیا۔ اور دونوں کو ناکام ثابت کرکے تیسری قوت کو لانے کی ضرورت محسوس کرائی جانے لگی۔ لیکن یہ تیسری قوت لانے یا تبدیلی کے لیے نہیں تھا بلکہ اسلام کا اور انقلاب کا راستہ روکنے کے لیے تھا۔ چنانچہ ان دونوں جماعتوں کے لوگ جمع کرکے تبدیلی والی پارٹی میں ڈال دیے گئے سب کو نیا چہرہ دکھایا گیا۔ تازہ دم گھوڑا نظر آیا لیکن پیچھے گاڑی وہی سال خوردہ تباہ حال خرابیوں سے بھرپور تھی۔ چنانچہ یہ تبدیلی بھی آگئی۔ ریاست مدینہ کا نعرہ لگایا گیا کیونکہ نعرہ دینے والوں کو معلوم تھا کہ کچھ ہوجائے پاکستان میں لوگ اسلام ہی چاہتے ہیں۔ بیلٹ کے ذریعے آئے یا خونریزی کے ذریعے اور کچھ قوتیں مسلسل اس کا راستہ روک رہی ہیں۔ شاید انہیں معلوم نہیں یا پھر یاد نہیں کہ جب ملک کی غالب اکثریت کوئی نظام چاہتی ہو تو وہ نظام ہر رکاوٹ توڑتا ہوا آگے بڑھتا ہے پھر کوئی رکاوٹ اس انقلاب کا راستہ نہیں روک سکے گی۔ یہ انقلاب پاکستان کا مقدر ہے۔ انقلاب وہی… جس میں ہر چیز پلٹ کر رکھ دی جاتی ہے کوئی جاری نظام کا پیوند نہیں لگاتا۔ بلکہ اسلامی انقلاب پورے کا پورا نظام لاتا ہے اسے کسی پیوند کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اور اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے جتنا دبایا جاتا ہے اتنا ہی یہ اُبھرتا ہے۔
بہرحال انقلاب تو آئے گا، کتنی مرتبہ بکتا ہوا سودا نئے نام سے بکے گا۔ کتنے جعلی اسلام کے دعویدار آئیں گے۔ مسلم نام کے ساتھ، اسلامی سوشلزم کے ساتھ، روشن خیال اسلام کے ساتھ، غیر سیاسی اسلام کے ساتھ اور ریاست مدینہ کے نعروں کے ساتھ۔ یہ سب ناکام ہیں، ناکام ہو کر رہیں گے۔ لیکن انقلاب تو پھر بھی آئے گا۔ گزشتہ 45 برس سے افغانستان میں اسلام ہی کا تو راستہ روکا جارہا تھا۔ دنیا بھر کا گولہ بارود جدید اور قدیم اسلحہ دنیا بھر کی فوجیں جھونک دی گئیں بیلٹ سے انقلاب کا تو وہاں امکان تھا نہ نظام… اور خونریزی ہی کے ذریعے آیا۔ جتنے لوگوں کو ان 45 برسوں میں افغان سرزمین پر مرنا تھا اتنے ہی مرے ایک بھی کم یا ایک بھی زیادہ نہیں، اگر بیلٹ کے ذریعے انقلاب آرہا ہوتا تو بھی اتنے ہی مرتے جس کو اس سرزمین پر مرنا تھا وہ کہیں سے بھی چل کر اپنے مقتل آجاتا۔ یہ تو مسلمان کا ایمان ہے ناں… تو پھر ڈر کیسا۔ اُٹھ باندھ کمر کیا ڈرتا ہے، پھر دیکھ خدا کیا کرتا ہے۔ یہ انقلاب تو آنا ہے اس کا لاکھ راستہ روکا جائے یہ آکر رہے گا۔ لیکن جو روک رہے ہیں وہ سوچ لیں کہ کیا کررہے ہیں۔ اور جو لوگ اس انقلاب کی راہ میں کام آجائیں تو وہ کامیاب۔ جو اس راہ کے محض راہی ہوئے وہ کامیاب اور جو منزل پر پہنچ گئے وہ کامیاب اور ان کے کیا کہنے۔ اور جس نے رکاوٹ نہ ڈالی وہ بھی کامیاب قرار پائے گا اصل سوال یہ ہوگا کہ کس قافلے کے ساتھ تھے۔ تو پھر اس انقلاب کا راستہ نہ روکا جائے۔ یہ آئے گا اور ضرور آئے گا۔ آج کے لوگ موجود نہ ہوں کل جو ہوں گے وہ اس کو دیکھیں گے اور فائدہ اٹھائیں گے۔ خان صاحب ہوں یا کوئی اور انقلاب کے خواب دکھانا چھوڑ دیں۔ جو انقلاب آئے گا وہ اپنا راستہ خود بنائے گا۔