محسن انسانیت

543

پوری دنیا تاریکی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ انسانیت اپنے میعار سے گر چکی تھی۔ طاقت کو خدائی کا درجہ حاصل ہو چکا تھا۔ وحشت حاوی ہو گئی۔ شرک و بت پرستی کی لعنت عام تھی۔ دین حنیف کی جگہ من گھڑت کئی مذاہب نے اپنے پنجے گاڑ رکھے تھے۔ بادشاہ خدا بنے بیٹھے تھے۔ مذہبی عناصر کی ادیان میں من مانیاں چل رہی تھیں۔ دین امیروں و بااختیاروں کی ذاتی جاگیر بن چکا تھا اور اس میں من پسند تحریفات زوروشور سے جاری تھیں۔ نظر بازی، بدکاری، جوا، شراب، لوٹ کھسوٹ نے ماحول کو آلودہ کر رکھا تھا۔ دنیا کے اکثر خطوں میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا۔ ہنگامہ آرائیاں و کشت و خون عروج پر تھے۔ یونان، مصر، ہندوستان، نینوا، بابل، چین کی تہذیبیں ماند پڑ کر اپنا وجود کھو چکی تھیں۔ اس دور کی سپر پاورز ایران اور روم کے تصادم میں عام آدمی پس رہا تھا۔ جس کا غلبہ ہوتا وہ اپنی تہذیب نافذ کر دیتا پچھلی دم توڑ دیتی۔ بادشاہوں کے ادل بدل، خون ریز جنگوں، نئے فاتحین کے ظہور کے نتیجے میں جو حالات پیدا ہوتے اس کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا۔ یہ کبھی ایک حکومت کے قبضے میں چلے جاتے اور کبھی دوسری کے۔ ان کے لیے ہر نئے آنے والے ایک دوسرے سے زیادہ ظالم ثابت ہوتے۔ اسی طرح دنیا میں خانگی حالات بھی خود ساختہ و ظالمانہ رسم و رواج میں جکڑ کر طوفانی موجوں میں ہچکولے کھا رہے تھے۔ جاہلی نظام ِ حیات زوروں پر تھا۔ شرم و حیا مفقود ہو چکی تھی۔ اخلاقیات روبہ زوال تھے۔ نکاح، طلاق، وراثت کے کوئی واضح اصول موجود نہ تھے۔
پھر رحمتِ الٰہی سے ایسی تاریک اور پر فتن نگری میں ہدایت کے نور کی شمع لے کر محسن انسانیت حضرت محمدؐ عرب کے ایک ممتاز، مہذب، اعلیٰ روایات رکھنے والے خاندان اور سلیم الفطرت والدین کے گھر یتیمی کے سائے میں پیدا ہوئے۔ کچھ سال بعد والدہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئیں پھر دادا کے سائے سے محروم ہو کر چچا کی کفالت میں چلے جانا تو گویا بچپن سے ہی آپؐ کو مادی سہاروں سے یکے بعد دیگرے محروم کر کے نبوت کی گراں ذمے داری اٹھانے کے لیے تیار کیا جا رہا تھا۔ آپؐ کا بچپن بھی سنجیدہ مزاجی میں گزرا۔ جوانی انتہائی فاسد ماحول میں بھی بے داغ گزری، ہمیشہ تقوی کے اعلیٰ ترین معیار پر رہے۔ لوگوں میں صادق و امین کا لقب پایا۔ غار حرا کی خلوتوں میں مدتوں اپنے اندرون کا بھی مطالعہ کیا اور بیرونی عالم پر بھی غوروفکر کیا لیکن جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے لوگوں کو توحید کی طرف دعوت کا حکم آیا تو فوراً اُٹھ کھڑے ہوئے۔ آغاز اپنے خاندان سے کیا اور فرمایا۔
’’اگر میری وہ دعوت قبول کر لو جسے میں پیش کر رہا ہوں تو اس میں تمہاری دنیا و آخرت دونوں کی بہتری ہے۔ (سیرت ابنِ ہشام)
اور یہ دعوت تھی ’’لا الہ الااللہ‘‘ کی۔ کفر وشرک اور من گھڑت عقائد کے درمیان اس دعوت کو قبول کروانا اور اس کا نظام نافذ کروانا مشکل ترین کام تھا۔ یہاں نظام زندگی کے ایک دو جُزنہیں بلکہ پورے ڈھانچے کی تبدیلی مقصود تھی۔ تمام دنیا کے مشرکین کے اپنے بنائے ہوئے جاہلی نظام حیات کو ختم کر کے ان کے تمدن کا درست کرنا اور نظامِ قسط کا قائم کرنا مشن تھا اور یہ سب لا الہ الااللہ کا کلمہ پورے ظاہر و باطن سے اپنانے سے ہی ممکن تھا۔ ابتدائی دور کے ایک موقع پر آپؐ نے فرمایا۔
’’بس وہ ایک کلمہ ہے اسے اگر مجھ سے قبول کر لو تو اس کے ذریعے تم سارے عرب کو زیرِ نگین کر لو گے اور سارا عجم تمھارے پیچھے چلے گا‘‘۔ (ابنِ ہشام)
دعوت کا حکم ملنے کے بعد آپؐ بھی چین سے نہیں بیٹھے۔ میلوں میں، بازاروں میں جا کر، حج کے موقع پر قبائل کے کیمپوں میں جا جا کر دعوت دی۔ آپؐ کی والہانہ کارکردگی، دعوت کی لگن سے متاثر ہو کر بنو عامر کے سردار بحیرہ بن فراس نے آپؐ سے ایک سودا گانٹھنا چاہا کہ وہ حضورؐ کو اپنا تعاون اس قیمت پر پیش کرے گا کہ جب آپؐ کو مخالفین پر غلبہ حاصل ہو جائے تو آپؐ کے بعد اقتدار انہیں حاصل ہو۔ لیکن آپؐ محض ایک واعظ اور مبلغ ہی نہ تھے اور نہ ہی حکومت و قیادت اور سیاست کو دین سے الگ سمجھتے تھے۔ آپؐ نے یہ سودا منظور نہ کیا اور فرمایا ۔
’’اقتدار کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے۔ وہ جس کے قبضے میں چاہے گا رکھے گا‘‘۔ (سیرت ابن ہشام)
پھر اللہ تعالیٰ کی طرف سے قرآن کریم جیسی لازوال و آفاقی کتاب ہمیں آپؐ کے توسط سے ملی۔ جس کا نزول وقت اور ضرورت کے ساتھ ساتھ آیات کی صورت میں ہوا اور آپؐ نے اسے صحابہ کرام کے دلوں میں ایسا پیوست کیا کہ جس پر عمل پیرا ہو کر مسلمانوں نے وقت کی سپرپاورز کو اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ ان کے اخلاقیات ایسے سنور گئے کہ غیر مسلم بھی ان پر آنکھیں بند کر کے اعتبار کرنے لگے۔ ایک ایک عادت و اطوار سنوارنے والی احادیث کا بے مثال خزانہ ملا جن میں ہمارے لیے سیاست، قیادت، تجارت و معیشت اور معاشرت کے سنہری رہنما اصول موجود ہیں بلکہ آپؐ کی اپنی حیاتِ طیبہ بھی بہترین مشعلِ راہ ہے۔ نعیم صدیقی صاحب لکھتے ہیں کہ ’’آپؐ کی سیرت کے مدرسے سے ایک حاکم، ایک امیر، ایک وزیر، ایک افسر، ایک ملازم، ایک آقا، ایک سپاہی، ایک تاجر، ایک مزدور، ایک جج، ایک معلم، ایک واعظ، ایک لیڈر، ایک ریفارمر، ایک فلسفی، ایک ادیب، ہر کوئی یکساں درس حکمت و عمل لے سکتا ہے‘‘۔ (محسن انسانیت)
آپؐ نے اپنے گرد جمع ہونے والے لوگوں کو صوفی، درویش، راہب، جوگی، پادری اور سادھو نہیں بنایا۔ نہ ہی غالب قوتوں سے خوف کھانے والے، دولت و اقتدار سے مرعوب ہونے والی ذہنیت دی، بلکہ انہیں باشعور، بصیرت مند، جری، بے باک، خوددار، غیور، ذہین اور زیرک، فعال اور متحرک بنایا۔ انہیں مظلوم بننا نہیں بلکہ ظلم کا خاتمہ کرنے والا بنایا۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگ آپؐ کی بہترین تربیت پا کر، آپؐ کی بہترین قیادت میں جا کر ایک ناقابلِ شکست قوت بن گئے۔ اخلاقی قوت سے سرشار ایک چھوٹی سی جماعت ہونے کے باوجود ان سلیم الفطرت لوگوں نے اپنے سیاسی نصب العین کی طرف ضروری اقدام اٹھانے میں ذرا تامل نہیں کیا اور باطل قوتوں کو پاش پاش کر کے وقت کی سپرپاور بن گئے۔
مشرکین آج پھر اپنے جاہلی نظام کو برقرار رکھنے میں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ ان سے بچیں اور آپؐ کی دی گئی ’’لا الہ الااللہ‘‘ کی دعوت کے مفہوم کو سمجھیں۔ مسلمانوں کے موجودہ حالات کے پیش نظر آج پھر وقت کی ضرورت ہے کہ ہم آپؐ کی تربیت کی طرف رجوع کریں اور اس کا اثر نفوذ بھی اپنے اندر ڈالیں۔ اتحاد بین المسلمین کو اپنا شعار بنائیں۔ آپؐ کے حکم کے مطابق اللّہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں جو کہ قرآن و سنت ہے۔ آپؐ کی تعلیم کے مطابق صرف عبادت نہیں بلکہ معاملات پر بھی توجہ دیں۔ اس روئے زمین پر اللہ تعالیٰ کے قانون کے غلبے کو اپنا مشن بنائیں پھر انشاء اللہ مسلمان نہ صرف اخلاقیات بلکہ سیاست و قیادت میں بھی ایک بار پھر وقت کی سپر پاور ہوں گے۔