عوام مہنگائی سے پریشان نہیں

575

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عوام مہنگائی سے پریشان نہیں تو آپ یقینا ہمیں پاگل ہی سمجھیں گے یا پھر اتحادیوں کا اتحادی کہیں گے مگر یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ عوام مہنگائی سے پریشان نہیں بلکہ بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان ہیں جو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ خصوصاً اشیا خورو نوش کو تو جیسے پَر لگے ہیں آج جو چیز جس دام مل رہی ہے کل کسی دام ملے گی اس کا اندازہ ہی نہیں لگا سکتے۔ خصوصاً تنخواہ دار طبقہ اس چیز سے پریشان ہے کہ مہینے کا بجٹ کیسے بنائے۔ اب دودھ کو ہی لے لیجیے کوئی چھے ماہ قبل جب اس کے سرکاری نرخ 90 روپے تھے تو یہ 120 روپے فروخت ہورہا تھا پھر انتظامیہ اور ڈیری فارمر کے درمیان یہ طے ہوا کہ سرکاری نرخ 120 ہوں گے سرکاری نرخ تو 120 روپے ہوگئے مگر دودھ 140 میں فروخت ہونے لگا سرکاری خاموشی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے دودھ کے نرخ 150 روپے (صرف دو ماہ بعد) کردیے گئے۔ عوام مجبور تھے اور اس مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پھر سے دو ماہ بعد دودھ 170 روپے فی لیٹر فروخت ہونے لگا، عوام کو اسی طرح تقسیم کردیا گیا ہے کہ وہ 170 روپے میں بخوشی استعمال کرتے رہے مگر دودھ فروشوں کو عوام کی یہ خوشی ایک آنکھ نہ بھائی اور صرف ایک ماہ بعد ہی 10 روپے اضافے سے دودھ کے نرخ خود ہی 180 روپے مقرر کردیے۔ عوام نے اس حرکت کو بھی دل سے قبول کیا اور پھر دو ماہ بعد ہی انتظامیہ کی ملی بھگت سے دودھ کے نرخ میں 20 روپے کا اضافہ کردیا اور یوں دودھ کی ڈبل اور دہی کی ٹرپل سنچری مکمل ہوگئی۔
جب پریس اور میڈیا نے اس کامیابی پر کمشنر کراچی کو مبارکباد پیش کی تو ان کی آنکھ کھلی اور پھر روایتی پکڑ دھکڑ اور دکانیں بند کراکے عوام کی پریشانی میں اضافہ کردیا۔ روایتی پکڑ دھکڑ کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ڈسٹرکٹ ملیر جو رقبے کے لحاذ سے کراچی کا سب سے بڑا ضلع ہے۔ خبر آئی ہے کہ ڈپٹی کمشنر ملیر نے تین دکانیں سیل کرکے مالکان کو گرفتار کرلیا (یعنی تقریباً تین ہزار میں سے تین) ڈیری فارمرز نے اس کا حل یہ نکالا کہ دودھ شارٹ کردیا اور عوام کو 200 روپے لیٹر بھی قطار بنا کر خریدنا پڑا۔ عوام کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ کوئی پوچھنے والا نہیں اور اگر کوئی پوچھ بھی رہا ہوتا ہے تو وہ ضابطے کی کارروائی ہوتی ہے۔ ابھی مذاکرات کا عمل جاری ہوگا مگر سرکاری ریٹ کچھ بھی ہو اب دودھ 200 روپے ہی میں فروخت ہوگا، عوام الناس یہ بات نوٹ کرلیں۔ اگرچہ دودھ دہی کا کاروبار ایک کچا کاروبار ہے اور اس کو قابو کرنا کوئی مشکل نہیں مگر گھر آئی دولت کسے بری لگتی ہے۔ اب دکانوں کے چالان ہوں گے کہ نرخ آویزاں نہیں ہیں جیسا کہ ماضی میں مرغی والوں کے ساتھ ہوا، پہلے کمشنر کراچی روزانہ پولٹری لسٹ کا پرچہ جاری کرتا تھا اور جس دکان پر آج کی تاریخ کا پرچہ نہ ہو اس کا چالان مرغی کس بھائو فروخت ہورہی ہے اس سے غرض نہیں مگر اب یہ اختیار بھی پولٹری فارمر کو منتقل کررہا ہے جنہوں نے سیلاب کا بہانہ بنا کر انڈے مرغی کے ریٹ ڈبل کردیے کہ سیلاب میں لاکھوں مرغیاں بہہ گئیں مگر نہ کوئی چکن شاپ بند ہوئی اور نہ ہی انڈے ختم ہوئے۔ چکن کے ٹرک اسی انداز میں آرہے اور انڈے والوں کو دکان پر کریٹ کے کریٹ رکھے ہیں جب کہ ہول سیل والے کی دکان میں انڈے رکھنے کی جگہ کم پڑ رہی ہے۔ عوام اسی چیز سے پریشان ہیں سخت گرمی میں انڈا 20 اور 22 روپے کا فروخت ہورہا ہے غضب خدا کا اور کوئی پوچھنے والا نہیں؟ کسی زمانے میں بسوں، ویگنوں کے کرائے کمشنر کراچی اور ٹرانسپورٹرز کے درمیان مذاکرات کے بعد طے کیے جانے تھے پھر کمشنر صاحب لسٹ جاری کرتے تھے جو گاڑیوں میں آویزاں کی جاتی تھی مگر اب کمشنر صاحب نے کام کی زیاتی کی وجہ سے یہ اختیار بھی ٹرانسپورٹرز کے حوالے کردیا۔ اختیارات کی منتقلی کی بات آئی تو کمشنر صاحب نے قصابوں کو بھی بااختیار بنادیا، گلی گلی کوچہ کوچہ مذبح کھلے ہوئے جہاں ہر قسم کے جانور ذبح کیے جارہے ہیں اور خود مہر لگا کر اپنی پسند کے ریٹ سے فروخت کررہے ہیں کوئی 800 روپے بیچ رہا ہے تو کسی نے 1000 روپے کے ریٹ مقرر کررکھے ہیں اور جو 500 روپے اور 600 روپے فروخت کررہا ہے اس کے گوشت پر آپ اعتبار نہیں کرسکتے۔ پانی والا گوشت ابھی بھی ہر جگہ دستیاب ہے، عوام اس چیز سے پریشان ہیں ادھر نان بائی نے بھی ہاتھ کھڑے کردیے جب آٹے نے سنچری مکمل کی تھی تو نان بائی نے 15 والی روٹی 20 روپے کی کردی اور اب جگہ آٹا ہوٹل والوں کو 100 روپے سے کم ہی میں مل رہا ہے اچانک سے روٹی 25 روپے کی کردی یعنی سو روپے کی صرف چار روٹی اور وزن کا کوئی پیمانہ نہیں اگر ہوگا تو وہ صرف کمشنر صاحب کے علم میں ہوگا مگر ان کو بھی علم نہ ہو کہ یہ عالموں کی بات اور کمشنر صاحب ٹھیرے عالم فاضل۔ اب آئیے ایک دلچسپ حقیقت سے آگاہ کرتے عالمی منڈی میں خام تیل کے اتار چڑھائو کی وجہ سے ہمارے ملک میں بھی پندرہ روزہ نرخ مقرر کرنے کا نظام نافذ ہے پہلے یہ ماہانہ بنیاد پر ہوتا ہے پھر یہ پٹرول ڈیلرز کی فرمائش پر پندرہ روزہ کردیا کہ پٹرول ڈیزل کی قیمت میں اضافہ روپوں میں اور کمی پیسوں میں ہوتی اور وہ بھی بعض اوقات عوام کو دینے کے بجائے ایڈجسٹ کرلی جاتی ہے اور یوں پمپ مالکان صرف ایک رات میں لاکھوں کما لیتے ہیں کیوں کہ زیر زمین ٹینک ہر وقت بھرے ہی رہتے ہیں، جب کہ مضافات کے پمپ نرخ میں اضافے کی بھنک کے ساتھ ہی سپلائی بند کردیتے ہیں مگر ہم نے جس حقیقت کا ذکر کیا ہے وہ ہے مٹی کا تیل جس کے نرخ بھی پٹرول اور ڈیزل کے ساتھ مقرر کیے جاتے ہیں مگر مٹی کا تیل اس قیمت پر فروخت نہیں ہوتا اس وقت مٹی کے تیل کے نرخ 199 روپے ہیں مگر یہ دکانوں پر 300 اور 350 روپے میں فروخت ہورہا ہے۔ عوام اس لاقانونیت سے پریشان ہیں۔ اس بڑھتی ہوئی مہنگائی میں میڈیا کے کردار کو فراموش کرنا میڈیا کے ساتھ زیادتی ہوگی جہاں دو روپے کی ٹافی پانچ روپے کی سپاری اور دس روپے کے بسکٹ کے لیے بھی لاکھوں کے اشتہارات مختلف چینلوں پر شام کے سات بجے سے رات بارہ بجے تک مسلسل دکھائے جاتے، ہزاروں اور لاکھوں والی اشیا کی بات تو سمجھ میں آتی ہے مگر ان اشتہارات کی بھرمار سے لاگت میں تو اضافہ ہوتا ہے جو عوام ہی سے وصول کیا جاتا ہے اور فائدہ چینل مالکان اٹھا رہے ہیں ایسے ہی تو صرف ایک نیوز چینل سے ابتدا کرنے والے پانچ پانچ چینلوں کے مالک بنے بیٹھے ہیں۔ سب کوئی اپنے مفادات کی فکر ہے عوام کا خیر خواہ کوئی نہیں پھر عوام کو تو پریشان ہونا ہی ہے مہنگائی عوام کی پریشانی نہیں مہنگائی کو قابو میں کرنے کی کوئی تدبیر نہیں؟
ابھی ہم اس تحریر کے اختتام پر ہی تھے کہ خبر آئی ٹیٹرا پیک (ڈبے والا دودھ) فروخت کرنے والی کمپنیوں نے ایک لیٹر ڈبے کی قیمت 220 مقرر کردی ہے جب کہ ان دونوں کمپنیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کے اپنے کیٹل فارم ہیں تو پھر اضافہ کیوں؟ مگر ان سے کوئی نہیں پوچھے گا کہ یہ جی ایس ٹی اور سیلز ٹیکس عوام کی جیبوں سے نکال کر حکومت کو دے رہے ہیں اگر صرف ان کو ہی قابو میں کرلیا جائے تو ڈیری فارم کی بدمعاشی خود بخود ختم ہوسکتی ہے مگر کرے گا کون؟ عوام کی پریشانی کی کسی کو فکر نہیں کچھ حکومت گرانے اور کچھ بچانے میں مصروف ہیں عوام کی کسی کوئی فکر نہیں عوام مہنگائی سے پریشان نہیں بڑھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان ہیں جب کہ مہنگائی تو ایک عالمی مسئلہ ہے!!!