۔60 سال پہلے کا لاہور، اب وہ لاہور نہیں رہا

793

سال دو سال بعد لاہور جانا ہو تو 60 سال پرانا لاہور آنکھوں میں پھرجاتا ہے۔ ہائے کیا سرسبز و شاداب، روشن روِش باغات سے گھرا، پرشکوہ، تاریخی عمارتوں سے سجا، شاعروں، ادیبوں اور فنکاروں سے بھرا، کشادہ، روشن اور پُرفضا لاہور جسے دیکھنے کو اب آنکھیں ترستی ہیں۔ بلاشبہ لاہور نے بہت ترقی کی ہے یہ چاروں طرف سے اس طرح پھیلا ہے کہ ایک شہر میں کئی شہر آباد ہوگئے ہیں اور ان شہروں میں لاہور کہیں گم ہو کر رہ گیا ہے۔ شہر میں انڈر پاسز اوور ہیڈ برج کی بھرمار ہے یقینا اس سے ٹریفک کی روانی میں آسانی پیدا ہوئی ہے لیکن اس سے لاہور کا اصل چہرہ غائب ہوگیا ہے۔ کچھ پتا نہیں چلتا کہاں سے چلے تھے کہاں پہنچ گئے ہیں۔ ہمارے جیسے عمر رسیدہ لوگ جنہیں لاہور سے جدا ہوئے پچاس سال ہوگئے ہیں جب اس شہر میں قدم رکھتے ہیں تو اس کے نئے چہرے میں پرانا چہرہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہمت ہار بیٹھتے ہیں۔ لاہور کی ساری مجلسیں خواب و خیال ہوگئی ہیں۔ پہلے اس شہر میں میٹرو بس چلی تو اس کے راستے میں آنے والے کئی قدیم علاقے اپنی شناخت کھو بیٹھے پھر اورنج ٹرین آئی تو اس نے متعدد تاریخی آثار اور عمارتوں کو نگل لیا۔ اب لاہور وہ لاہور نہیں رہا جس پر اہل لاہور فخر کیا کرتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ ’’لاہور‘‘ لاہور ہے جس نے لاہور نہیں دیکھا سمجھو وہ پیدا ہی نہیں ہوا‘‘۔
ہم 1949ء کے اوائل میں ہجرت کرکے لاہور آئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب پاکستان اور بھارت کے درمیان نقل مکانی کا سلسلہ جاری تھا۔ دونوں نو آزاد ملکوں کے درمیان فسادات اور تبادلہ ٔ آبادی کا خون آشام ریلا تو گزر چکا تھا لیکن لوگوں کی آمدو رفت جاری تھی۔ ابھی دونوں ملکوں کے درمیان ویزا سسٹم قائم نہیں ہوا تھا، البتہ لوگوں کے داخلے اور مستقل یا عارضی قیام کے لیے سرکاری طور پر پرمٹ (اجازت نامے) جاری کیے جاتے تھے ہم بھی اس نیت سے اپنا بھرا پُرا گھر چھوڑ کر لاہور آئے تھے کہ پسند نہ آیا تو واپس چلے جائیں گے لیکن لاہور ایسا راس آیا کہ یہیں کے ہو کر رہ گئے۔ الٰہ آباد میں محلے کی مسجد میں پڑھتے تھے عمر کوئی چھے سات سال تھی لاہور آئے تو بھائی جان نے ریلوے کے پرائمری اسکول میں داخل کرادیا جہاں ٹاٹ کا ایک ٹکڑا ساتھ لے کر جانا پڑتا تھا۔ بستہ ٹاٹ کے اس ٹکڑے میں لپیٹ لیتے تھے اور کلاس میں جا کر اسے کھول کر بیٹھ جاتے تھے۔ دوسرے ہم جماعت بھی ایسا ہی کرتے تھے۔ البتہ ماسٹر صاحب کرسی پر بیٹھتے تھے۔ پرائمری تک یہی صورت حال رہی، پرائمری پاس کرکے مڈل اسکول میں پہنچے تو بیٹھنے کو بنچ مل گئے اور ٹاٹ سے جان چھوٹ گئی لیکن ٹاٹ پر بیٹھ کر جو کچھ سیکھا اور پڑھا وہ تعلیم کی پختہ بنیاد ثابت ہوا۔ اردو لکھنا بھی آگیا اور پڑھنا بھی آگیا۔ اُس زمانے میں محلوں میں آنہ لائبریری کا رواج تھا، بڑوں کے لیے ایک آنے میں ایک کتاب جاری ہوتی تھی جسے پڑھنے والا ایک ہفتہ اپنے پاس رکھ سکتا تھا۔ اس لیے زیادہ دن رکھتا تو ایک پیسہ یومیہ کے حساب سے جرمانہ دینا پڑتا تھا۔ بچوں کے لیے پیسہ لائبریری سیکشن بھی اسی لائبریری میں ہوتا تھا جہاں بچوں کے پڑھنے کے لیے جنوں، بھوتوں، پریوں، شہزادوں، شہزادیوں اور بزرگوں کے قصے کہانیوں کی کتابیں ایک پیسے میں ملتی تھیں۔ اب تو انٹرنیٹ نے بچوں میں پڑھنے کا شوق ہی ختم کردیا ہے۔ ہمارے زمانے میں ذہین بچے بہت پڑھاکو ہوا کرتے تھے، ہم زیادہ ذہین تو نہ تھے لیکن پڑھاکو ہونے میں ہمارا بھی کوئی جواب نہ تھا۔ ہر چھپی ہوئی تحریر کو پڑھنے کی ٹھرک تھی، اس ٹھرک نے ہمیں پیسہ لائبریری کا ممبر بنادیا تھا لیکن روزانہ ایک پیسہ خرچ کرنا ہمیں بہت اکھڑتا تھا۔ اُس زمانے میں سکّے کا اعشاری نظام ابھی رائج نہیں ہوا تھا۔ روپے میں سولہ آنے ہوتے تھے اور ہر آنے میں چار پیسے اس طرح روپے میں چونسٹھ پیسے ہوتے تھے۔ آنے، دو آنے، چار آنے اور آٹھ آنے کے سکّے کو اکنّی، دونّی، چونّی اور اٹھنّی کہتے تھے۔ ایک پیسے سے لے کر اٹھنّی تک ایسی دولت تھی جو ہمارے طبقے کے بچوں کو بہت کم میسر آتی تھی، ہمیں گھر سے روزانہ اِکنّی ملتی تھی جسے بھُنا کر ہم چار پیسے کرلیتے تھے۔ ایک پیسہ لائبریری کے لیے وقف تھا لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے لکھا ہے کہ یہ ایک پیسہ خرچ کرنا ہمیں بہت اکھرتا تھا۔ چناں چہ ہم نے لائبریری والے سے بات کی کہ وہ کہانی کی ایک کتاب روزانہ دے دیا کرے، ہم لائبریری میں بیٹھ کر اسے پڑھ لیا کریں گے اور اس کے عوض کتابوں کی جھاڑ پونچھ اور انہیں سلیقہ سے رکھنے میں اس کی مدد کریں گے۔ یہ کوئی سرکاری لائبریری تو تھی نہیں نجی لائبریری تھی جو ایک کمرے میں قائم تھی اور اس میں ایک بنچ اور دوکرسی پڑی ہوئی تھی، ایک کرسی پر لائبریری والا بیٹھتا تھا اس کے سامنے ایک چھوٹی سی میز بھی تھی جس پر کتابوں کے اندراج کا رجسٹر رکھا رہتا تھا۔ یہ اس شخص کا پارٹ ٹائم کام تھا۔ لائبریری شام چار بجے کھلتی تھی اور چھے بجے بند ہوجاتی تھی۔ بہرکیف وہ شخص راضی ہوگیا اور ہم مفت کتابیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کے معاون بن گئے۔ گھر میں اماں، ابا اور بھائیوں کو بھی بتادیا کہ ہم دو گھنٹے لائبریری میں بیٹھا کریں گے۔ اس طرح ہم نے لائبریری میں موجود ساری کتابیں آہستہ آہستہ چاٹ ڈالیں۔
کتاب پڑھنے کے ساتھ ساتھ لکھنے کا شوق بھی پیدا ہوگیا۔ ابتدا میں جنوں، بھوتوں اور پریوں کی کہانیاں لکھنے پر ہاتھ صاف کیا لیکن بہت جلد اس سے طبیعت اُکتا گئی اور میٹرک تک پہنچتے پہنچتے سنجیدہ مضامین لکھنے لگے۔ کالج کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ملازمت کی ضرورت پیش آئی تو لکھنے پڑھنے کو اپنا کیریئر بنانے کا فیصلہ کیا۔ ہمارے مضامین ہفت روزہ چٹان اور ایشیا میں باقاعدگی سے شائع ہورہے تھے۔ لائبریری میں مولانا مودودیؒ کی کتابوں سے بھی شناسائی ہوئی ان کی شستہ و شائستہ نثر نے دل موہ لیا اور اپنی تحریروں میں اس کی تقلید کرنے کی کوشش کرنے لگے۔
مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی
ہاں یہ ضرور ہوا کہ زبان صاف ہوگئی اور لکھنے کا کچھ کچھ سلیقہ آگیا۔ ہاں تو ہم یہ عرض کررہے تھے کہ ملازمت کی تلاش شروع ہوئی تو نظر انتخاب ہفت روزہ ایشیا پر پڑی جو اگرچہ برصغیر کے ممتاز اخبار نویس کالم نگار اور شاعر ملک نصر اللہ خان عزیز کی ادارت میں شائع ہورہا تھا لیکن اس کے کرتا دھرتا اور مدیر منتظم ممتاز افسانہ نگار جیلانی بی اے تھے۔ بی اے کرنا اب تو بچوں کا کھیل بن گیا ہے لیکن ایک زمانے میں بی اے کی ڈگری بھی تعلیمی سند کی معراج سمجھی جاتی تھی اور لوگ بڑے فخر سے اس کا اظہار کرتے تھے۔ جیلانی صاحب اسی زمانے کے گریجویٹ تھے۔ ’’گریجویٹ‘‘ پر اکبر الٰہ آبادی کا ایک شعر یاد آگیا۔
میں بھی گریجویٹ ہوں تم بھی گریجویٹ
علمی مباحثے ہوں ذرا پاس آکے لیٹ
اگرچہ اس شعر میں ابتذال موجود ہے لیکن یہ زمانے میں بدلتی ہوئی قدروں کا پتا دے رہا ہے۔ اکبر الٰہ آبادی زوال پزیر قدروں کے نوحہ خواں تھے۔ خیر چھوڑیے اس بحث کو، ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ ہم نے ایک خط کے ذریعے ’’ایشیا‘‘ میں کام کرنے کی خواہش ظاہر کی تو جیلانی صاحب نے فوری طور پر ہمیں بلالیا وہ ایشیا کے منتظم ہونے کے علاوہ جماعت اسلامی لاہور کے امیر بھی تھے۔ لاہور میں ایوب آمریت کے خلاف سیاسی سرگرمیاں زوروں پر تھیں اور اس اعتبار سے جیلانی صاحب کی مصروفیات کا کوئی ٹھکانا نہ تھا انہیں ایک آدمی کی اشد ضرورت تھی جو ایشیا میں ان کے معاون کے طور پر کام کرسکے۔ جیلانی صاحب سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے ہمارا تفصیلی انٹرویو کیا اور اپنی توقعات کے عین مطابق پایا۔ انہوں نے مزید چھان بین کے لیے ہمیں ملک نصراللہ خان عزیز صاحب کے پاس بھیج دیا۔