درد کا درماں،میرا گلستاں

736

 محبت، چاہت، پسند، خیال رکھنا، احساس کرنا کیا ہے یہ سب کچھ؟؟ ہر دوسرے شخص کے واٹس ایپ، فیس بک کے اسٹیٹس پر ٹنگے ہوئے یہ الفاظ اپنی ارزانی پر نوحہ کناں لگے۔ کہیں کسی بے چارے رشتے نے محبت کی ہے تو رشتے داروں نے ناقدری کر دی، خلوص کا جواب خلوص سے نہیں دیا گیا، چاہت کے عوض چاہت نہ ملی، پسند کے بدلے میں جوابی سند نہ ملی، احساس کرنے والوں کی دل شکنی کر دی گئی اور افراد کا شکوہ بھلا بتائیں ایسا بھی کبھی ہوتا ہے؟؟ کوئی تو جاکر ان افراد سے پوچھے کہ کیا محبت چاہت پسند، احساس پانی اور نمک کا فارمولا ہے یا حساب کتاب کے سمندر میں ایک کا پہاڑہ ہے کہ جواب میں ایک ہی ملے گا ویسے کا ویسا ہی ملے گا؟؟ یا کسی کسان کی بوئی ہوئی فصل ہے کہ آم کی گٹھلی پر آم کی فصل مل جائے؟؟ ببول کے عوض ببول، گندم کے بدلے گندم اور چنے کے بدلے چنا؟؟ پھر تو محبت اور احساس نہ ہوا گویا بنیے کا کاروبار ہو گیا۔ یہاں تو بیچارے اصل کو رو رہے ہیں اور وہاں سود بیاج کے سوالات کھڑے ہوئے جاتے ہیں ابن ِ انشاء کو بھی عمر کے آخری ایام میں ہی خیال آیا تھا کہ
اب عمر کی نقدی ختم ہوئی
اب ہم کو اُدھار کی حاجت ہے
ہے کوئی جو دیون ہار بنے
ہے کوئی جو ساہو کار بنے
کچھ سال مہینے دن لوگو
پر سود بیاج کے بن لوگو
عمر رفتہ کی بے رفتگی پر اُدھار درکار تو تھا مگر سود بیاج کے بنا!! کہ زندگی کے سفر کی اخیری گھڑیوں میں وہ بھی اس بھید کو پا بیٹھے تھے کہ جیسے کو تیسا کبھی نہیں ملتا البتہ تیسے کو جیسا مل سکتا ہے مثلاً ہوشیار کو ڈیڑھ ہوشیار ملنا، سو کو سوا ملنا، مرے پر ایک نہیں پورے کے پورے سو درے، صنم آشنا کو ستم آشنا ملنا کہ فیض بھی بلبلا اٹھے کہ
ستم سکھلائے گا رسم وفا ایسے نہیں ہوتا
صنم دکھلائیں گے راہ خدا ایسے نہیں ہوتا
گنو سب حسرتیں جو خوں ہوئیں تن کے مقتل میں
میرے قاتل! حساب خوں بہا ایسے نہیں ہوتا
اب اتنے بڑے بڑے شعراء کرب نارسائی کو بھگتے بیٹھے ہیں اور جگ ہنسائی کو روتے ہیں ایسے میں ہمارے جیسے عمومی افراد کے اسٹیٹس پر ناقدری اور بے وقعتی پر ماتم بزعم خود اک بیوقوفی ہی محسوس ہوتی ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ تمام جہانوں کو پالنے والے صرف ایک ہی خالق رب العالمین کی دی ہر ایک نعمت، چاہت، محبت سے مستفید ہوتے ہیں مگر ویسے کا ویسا بدلا دینے پر تو قادر ہی نہیں مگر شکر گزاری کے احساس سے ہی عاری ہوتے ہیں کفرانِ نعمت کے بڑے بڑے عادی افراد کے اسٹیٹس پر ناقدری کے دکھوں کا پرچار ایسا ہی لگتا ہے کہ جیسے ان بیچاروں کی اپنی زندگی تو ہر اک کی قدر دانی کرتے گزری مگر ان کو خود سارے ناقدرے ہی ملے۔
من حیث القوم ہم میں سے ہر ایک کو یہ جاننا چاہیے کہ کہیں نہ کہیں، کسی نہ کسی مقام پر میں خود ناقدری کے اس جرم کا شکار ہوں جبھی تو یہ رویہ دیوار پر پڑنے والی بال کی طرح اسی شدت سے پلٹ کر میری طرف آ رہا ہے اپنے بالکل سامنے والی دیوار پر نہ سہی کہیں کسی دوسری دیوار پر میں نے پوری قوت سے ناقدری کے بھرپور زور کے ساتھ اپنے حصے کی بال دے ماری تھی جو بازگشت کی طرح آ کر مجھ سے لپٹ گئی اس کا زبان زد عام پرچار کوئی فائدہ نہ دے گا بلکہ یہ کرب نارسائی کا دکھ ہم دوسروں کے دلوں میں اجاگر کرنے کا باعث بن رہے ہیں جبکہ ہم نے تو امید بننا ہے اور اپنے معاشرے کے افراد کو نارسائی کے جنگلات سے محنت کے وسیع سمندر میں تیرنا سکھانا ہے۔
جماعت اسلامی کی جانب سے بنو قابل پروگرام میں نوجوانوں کے اس جم غفیر کو دیکھ کر میں نے یہی سوچا کہ کیسے ہیں یہ لوگ بلدیاتی انتخابات کے تیسری بار التوا کی خبر فقط ایک ہی دن پہلے اہل کراچی پر بم بن کر گری تھی پورا کراچی اپنی ناقدری اور نارسائی پر ماتم کناں تھا اور یہ جماعت اسلامی والے بھی ناں عجیب مٹی سے بنے ہوئے ہیں اسی تندہی سے ایک کامیاب پروگرام کی تیاری کا عہد کرکے میدان عمل میں اُترے اور کامیاب نہیں کامیاب ترین پروگرام منعقد کراکر شان سے جلسہ عام کی تیاری میں جت گئے جی کرتا ہے سلطان راہی بن کر ان سے سے پوچھا جائے
’’او کون لوگ او تسی اوئے تھکدے وی نئیں‘‘
آپس کی بات ہے سلطان راہی بن کر تو نہیں اپنی ہی منمناتی آواز میں پوچھا تو میں نے بھی تھا ایک جماعتی سے تو جواب ملا ’’تھکنے کے لیے ہی تو کر رہے ہیں یہ سب تاکہ جب تھک کر چور ہو کر رب العالمین کے سامنے پیش ہوں تو وہ جلدی سے جنت ہمارے پاس کردے کہ میرا بندہ تھک کر آیا ہے اب دیر نہ کرو‘‘۔
اس جواب نے مجھے جواب دے دیا کہ کوئی آپ کی محبت ٹھکرا دے یا آپ کے خلوص کو درخور ِ اعتنا ہی نہ جانے آپ کی پسند پر چار حروف بھیج دے یا سرے سے آپ کو تسلیم ہی نہ کرے کچھ بھی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ہم سب کی قدردانی کرنے والا ایک ہی خالق حقیقی ہے اور اس ربّ العالمین کے لیے کیا جانے والا ہر اک عمل خواہ وہ رائی کے دانے برابر ہی ہو رائیگاں نہیں جائے گا ضرورت اس امر کی ہے کہ صرف اسی کے لیے ان سب کے ساتھ بھی اچھا کیجیے جو آپ کے ساتھ کبھی بھی اچھا نہیں کرتے بلکہ کر ہی نہیں سکتے کیونکہ مہریں لگ چکی ہیں شکر کیجیے کہ آپ کے دل ابھی نرم ہیں اس پر ربّ العالمین کے لیے کیے جانے والے خالص اعمال کی فصل اُگا لیجیے یقین کیجیے عن قریب گلستان تیار ہو کر رہے گا۔