ہمارے ہاں وعظ کی کتابوں میں یہ حدیث درج ہے: ’’رسول اللہؐ نے ایک مرتبہ جبریلِ امین سے پوچھا: تمہاری عمر کتنی ہے، اُنہوں نے عرض کیا: یارسول اللہ! مجھے اپنی عمر کا صحیح اندازہ تو نہیں ہے، البتہ مجھے اتنا یاد ہے کہ اس کائنات کی تخلیق سے پہلے اللہ تعالیٰ کے حجاباتِ عظمت میں سے چوتھے پردے میں ایک ستارہ چمکا کرتا تھا، وہ ستارہ ستر ہزار سال کے بعد ایک مرتبہ چمکتا تھا اور میں نے اُسے بہتّر ہزار مرتبہ دیکھا ہے، یہ سن کر نبی کریمؐ نے فرمایا: اے جبریل! مجھے اپنے رب کی عظمت کی قسم! وہ ستارہ میں ہی ہوں‘‘۔
بعض واعظین اس حدیث کو محافل میں بیان کرتے ہیں، حالانکہ اس روایت کے متن وسند کا حدیث کی کسی کتاب حتیٰ کہ ضعیف اور موضوع روایات پر مشتمل کتابوں میں بھی ذکر نہیں ہے، اس کا ذکر گیارہویں صدی ہجری کے سیرت نگار علامہ نورالدین حلبی کی کتاب ’’اِنْسَانُ الْعُیُوْن فِیْ سِیْرَۃِ الْاَمِیْنِ الْمَامُوْن‘‘ میں ملتا ہے، انہوں نے اس روایت کو’’التَّشْرِیْفَات فِی الْخَصَائِصِ وْالْمعجزات‘‘ نامی کتاب کے حوالے سے ذکر کیا اور لکھا: ’’مجھے اِس کے مصنف کا نام معلوم نہیں ہوسکا، (ج: 1، ص: 47) ‘‘، یعنی اس کتاب کے مصنف نامعلوم شخص ہیں، نیز اصل مآخِذ میں بھی یہ حدیث کہیں نہیں پائی جاتی، لہٰذا اس حدیث کو بیان کرنے سے اجتناب ضروری ہے۔
بعض واعظین خلفاء ِ راشدین کی طرف یہ روایات منسوب کرکے بیان کرتے ہیں: سیدنا ابوبکر نے فرمایا: ’’جس نے میلاد پڑھنے میں ایک درہم خرچ کیا، وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا‘‘، سیدنا عمر نے فرمایا: ’’جس نے محفل ِ میلاد کی تعظیم کی، اُس نے اسلام کو زندہ کیا‘‘، سیدنا عثمان نے فرمایا: ’’جس نے میلاد پڑھنے میں ایک درہم خرچ کیا، گویا وہ غزوہ بدر وحنین میں شریک ہوا ‘‘، سیدنا علی نے فرمایا: ’’جس شخص نے میلادالنبیکی تعظیم کی اور میلاد شریف پڑھنے کا سبب بنا، وہ دنیا سے باایمان جائے گا اور جنت میں بغیر حساب کے داخل ہوگا‘‘۔
یہ روایات دسویں صدی ہجری کے مشہور عالم علامہ ابن حجرہیتمی کی طرف منسوب کتاب ’’اَلنِّعْمَۃُ الْکُبْریٰ عَلَی الْعَالَمِ فِیْ مَوْلِدِ سَیِّدِ وُلدِآدَم‘‘ میں پائی جاتی ہیں، اس کتاب کے علاوہ کتبِ احادیث وآثار اور کتبِ موضوعات وسِیَر میں کہیں ان روایات کا نام ونشان تک نہیں ہے، لہٰذا جب تک ان روایات کا اصل ماخَذ اور ان روایات کی اِسنادی اور فنّی حیثیت واضح نہیں ہوجاتی، اس وقت تک انہیں بیان کرنے سے اجتناب لازم ہے، احمد رضا قادری شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
’’اہل سنّت کے ہاں حدیث وہی معتبر ہے جو محدثین کی کتب احادیث میں صحت کے ساتھ ثابت ہو، ان کے ہاں بے سند حدیث ایسے ہی ہے جیسے بے مہار اونٹ، جو ہرگز قابلِ سماعت نہیں‘‘، شاہ صاحب کے کلام پر تعلیق کرتے ہوئے احمد رضا قادری لکھتے ہیں: ’’یہ قاعدہ عقائد واحکام کے باب سے تعلق رکھتا ہے، جبکہ باب تساہل (یعنی فضائل کے باب میں) کوئی ایک معتمد نقلِ سند کے ساتھ ہو، باقی اگرچہ بے سند ہوں‘‘، (فتاویٰ رضویہ) یعنی کم از کم اس کے ہم معنی ایک روایت تو سند کے ساتھ ثابت ہو، علامہ عبدالحکیم شرف قادری لکھتے ہیں:
’’علامہ ابن حجر مکی دسویں صدی ہجری میں گزرے ہیں، ظاہر ہے کہ اُنہوں نے مذکورہ بالا احادیث صحابہ کرام سے نہیں سُنیں، لہٰذا وہ سند معلوم ہونی چاہیے جس کی بنا پر احادیث روایت کی گئی ہیں، خواہ وہ سند ضعیف ہی کیوں نہ ہویا ان روایات کا کوئی مستند ماخَذ ملنا چاہیے، عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں: ’’اِسناد دین سے ہے، اگر سند کا التزام نہ کیا جائے تو جس کے جو جی میں آئے بیان کردے گا‘‘، (مقدمہ صحیح مسلم ) سیدنا ابوہریرہ بیان کرتے ہیں : نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’میری اُمت کے آخر میں ایسے لوگ ہوںگے جو ایسی حدیثیں بیان کریں گے، جو نہ تم نے سُنی ہوں گی اور نہ تمہارے آباء نے، تم اُن سے دور رہنا‘‘۔ (مسلم)
سوال یہ ہے کہ خلفائے راشدین اور دیگر بزرگانِ دین کے یہ ارشادات علامہ علی القاری، علامہ سیوطی، علامہ نبہانی، امام رَبّانی مجدِّدِ الفِ ثانی، شیخ عبدالحق محدّث دہلوی، احمد رضا بریلوی اور دیگر اکابرِامت سے کیوں پوشیدہ رہے، جبکہ ان حضرات کی وسعتِ علمی کے سب ہی معترف ہیں، خود ان اقوال کی زبان اور اندازِ بیان بتا رہا ہے کہ یہ دسویں صدی کے بعد مرتب ہوئے ہیں۔ میلاد شریف پڑھنے پر دراہم خرچ کرنے کی بات بھی خوب رہی، صحابہ کرام کے دور میں نہ تو میلاد شریف کی کوئی کتاب پڑھی جاتی تھی، نہ میلاد کے پڑھنے کے لیے اُنہیں دراہم خرچ کرنے کی ضرورت تھی، ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ صرف ربیع الاول کے مہینے میں ہی میلاد شریف مناتے تھے، بلکہ ان کی ہر محفل اور ہر نشست محفلِ میلاد ہوتی تھی، جس میں نبی کریمؐ کے حُسن وجمال، فضل وکمال اور آپ کی تعلیمات کا ذکر ہوتا تھا۔ علامہ یوسف نبہانی نے ’’جَوَاہِرُ البِحَار‘‘ کی تیسری جلد میں صفحہ 328 سے 337 تک علامہ ابن حجر مکی ہیتمی کے اصل رسالہ کی تلخیص نقل کی ہے جو خود علامہ ابن حجر مکی نے تیار کی تھی۔ اصل کتاب میں ہر بات پوری سند کے ساتھ بیان کی گئی تھی، تلخیص میں سندوں کو حذف کردیا گیا ہے۔ علامہ ابن حجر فرماتے ہیں: میری کتاب واضعین کی وضع اور ملحد ومُفتری لوگوں کے انتساب سے خالی ہے، جبکہ لوگوں کے ہاتھ میں جو میلاد نامے پائے جاتے ہیں، ان میں سے اکثر میں موضوع روایات موجود ہیں‘‘۔ (جواہر البحار)‘‘۔
اس کتاب میں خلفائے راشدین اور دیگر بزرگانِ دین کے مذکورہ بالا اقوال کا نام ونشان تک نہیں ہے، اس سے یہ نتیجہ نکالنے میں کوئی دشواری پیش نہیں آتی کہ یہ ایک جعلی کتاب ہے جو علامہ ابن حجر کی طرف منسوب کردی گئی ہے۔ علامہ ابن عابدین شامی کے بھتیجے علامہ سید احمد عابدین شامی نے اصل نعمتِ کبریٰ کی شرح ’’نَثْرُ الدُّرَرْ عَلٰی مَوْلِدِ ابْنِ حَجَر‘‘ لکھی، اس میں بھی خلفائے راشدین کے مذکورہ بالا اقوال کا کوئی ذکر نہیں ملتا، لہٰذا ضروری ہے کہ محافلِ میلاد میں سید عالمؐ کی ولادت باسعادت کے ساتھ ساتھ آپ کی سیرتِ طیبہ اور آپ کی تعلیمات بھی بیان کی جائیں، میلاد شریف کی روایات مستند اور معتبر کتابوں سے لی جائیں، مثلاً: اَلْمَوَاہبُ اللَّدُنیہ، خصائصِ کبریٰ، زُرْقَانِیْ عَلَی الْمَوَاہِبْ، مَدَارِجُ النُّبُوّۃ اور جَوَاہِرُ الْبِحَار وغیرہ، اگر صحاحِ ستّہ اور حدیث کی دیگر معروف کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو ان سے کافی ذخیرہ جمع کیا جاسکتا ہے‘‘۔ (مقالاتِ سیرتِ طیبہ)
لوگوں میں ایک روایت معروف ہے: گلاب کا پھول نبی کریمؐ کے پسینے سے پیدا ہوا ہے، سیدنا انس کے حوالے سے حدیث بیان کی جاتی ہے: نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’مجھے آسمانوں پر معراج کے لیے بلایا گیا تو زمین رونے لگی، جب میں معراج سے زمین پر واپس ہوا تو میرے پسینے کے قطرات زمین پر پڑے، اس سے گلاب کا پھول پیدا ہوا، اب جو شخص میری خوشبو سونگھنا چاہتا ہے، اسے چاہیے کہ گلاب سونگھے‘‘، اِس کی مثل ایک اور روایت ہے: ’’معراج کی شب سفید گلاب میرے پسینے سے پیدا کیا گیا، سرخ گلاب حضرت جبریلِ امین کے پسینے سے پیدا کیا گیا اور زرد گلاب براق کے پسینے سے پیدا کیا گیا ‘‘، ان روایات کے متعلق امام نووی فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث صحیح نہیں ہے‘‘، امام ابن عساکر فرماتے ہیں: ’’یہ حدیث موضوع ہے، ’’اَلدُّرَرُالْمُنْتَثِرَہْ فِی الْاَحَادِیْثِ الْمُشْتَہَرہ، علامہ سخاوی نے بھی ’’اَلْمَقَاصِدُ الْحَسَنَہ‘‘ میں اس حدیث کو شیخ الاسلام امام ابن حجر عسقلانی کے حوالے سے موضوع قرار دیا ہے اور علامہ علی القاری نے بھی ’’اَلْمَصْنُوْع فِیْ مَعْرِفَۃِ حَدِیْثِ الْمَوْضُوْع‘‘ میں اس حدیث کو حافظ ابن حجر کے حوالے سے موضوع قرار دیا ہے، نیز علامہ یوسف بن صالح شامی نے بھی ’’سُبُلُ الْہُدیٰ وَالرَّشَاد‘‘ میںاس حدیث کو باطل وموضوع قرار دیا ہے۔
دسویں صدی ہجری کے مجدّد، مفسرو محدّث، فقیہ ومؤرّخ اور تقریباً ایک ہزار کتابوں کے مصنف اور دولاکھ احادیث کے حافظ خَاتِمُ الْمُحَدِّثِیْن وَالْمُحَقِّقِیْن علامہ جلال الدین سیوطی شافعی اپنی ایک کتاب ’’تَحْذِیْرُ الْخَوَاصِّ مِنْ اَکَاذِیْبِ الْقَصَّاص‘‘ کی وجہ ِ تالیف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حال ہی میں مصر کے ایک معروف پیشہ ور خطیب کے متعلق مجھ سے سوال ہوا: ’’اس نے اپنے خطاب میں ایک حدیث بیان کی ہے، میں اس حدیث کو یہاں نقل کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں استغفار کرتاہوں، اگر مجبوری نہ ہوتی تو رسولِ کریمؐ پر گھڑے ہوئے جھوٹ کو ہرگز بیان نہ کرتا، اس جاہل خطیب نے کہا: ’’ جب یہ آیت نازل ہوئی: ’’ہم نے آپ کو تمام جہان والوں کے لیے صرف رحمت بناکر بھیجا ہے‘‘، (الانبیاء: 107) تو نبی کریمؐ نے جبریل امین سے فرمایا: جبریل! کیا میری رحمت سے تجھے بھی کوئی حصہ ملا ہے، انہوں نے عرض کیا: جی ہاں! یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ نے میری پیدائش سے پہلے ہزاروں فرشتوں کو پیدا کیا تھا اور ان سب کا نام جبریل رکھا تھا، ان میں سے ہر ایک سے یہ سوال فرمایا تھا: میں کون ہوں، لیکن ان میں سے کسی کو جواب معلوم نہیں تھا، چنانچہ سب پگھل گئے، پھر جب مجھے پیدا کیا گیا تو مجھ سے بھی یہی سوال ہوا، (الخ)‘‘۔
علامہ سیوطی فرماتے ہیں: میں نے فتویٰ دیا: ’’اس حدیث کی کوئی اصل نہیں ہے، یہ باطل ہے، اسے روایت کرنا ہرگز جائز نہیں ہے، اس خطیب پر لازم ہے کہ جو احادیث وہ محافل میں بیان کرنا چاہتا ہے، پہلے اُنہیں محدثین کے سامنے بیان کرکے ان کی تصحیح کرائے، اگر وہ اُسے بیان کرنے کی اجازت دیں تو بیان کرے، ورنہ اُنہیں بیان نہ کرے‘‘۔ جب میرا یہ فتویٰ اُس تک پہنچا تو قبول کرنے کے بجائے اس نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا اور شدید غصے کے عالم میں ِ منبر پر کہا: اب مجھ جیسا انسان اِن شیوخ الحدیث سے احادیث کی تصحیح کرائے گا اور یہ مجھے بتائیں گے کہ کون سی حدیث صحیح اور کون سی باطل ہے، جبکہ میں روئے زمین کا سب سے بڑا عالم ہوں، اُس نے اور بھی ہذیان بکا، پھر اس نے عوام کو میرے خلاف اس قدر بھڑکایا کہ ایک عظیم فتنہ پیدا ہوگیا اور لوگوں نے مجھے سَبّ وشَتْم کا نشانہ بنایا، بلکہ قتل اور سنگسار کرنے کی بھی دھمکیاں ملنے لگیں، جب میں نے یہ صورت حال دیکھی تو دوبارہ تحریر کیا: ’’اگر یہ شخص شیوخ الحدیث سے احادیث کی تصحیح نہ کروائے گا اور حق واضح ہونے کے باوجود ہٹ دھرمی سے رسول اللہؐ کی طرف جھوٹ منسوب کرکے اس باطل حدیث کو دوبارہ بیان کرے گا، تو میں اس پر کوڑے مارنے کا فتویٰ جاری کروں گا‘‘۔ لیکن اس نام نہاد خطیب پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوا، بلکہ مزید اشتعال انگیزی پر اُترآیا اور ساتھ ہی جاہل عوام بھی اس تعصب میں اس کا ساتھ دینے لگے، سو میں اس مسئلے پر: ’’تَحْذِیْرُ الْخَوَاصِّ مِنْ اَکَاذِیْبِ الْقَصَّاص‘‘ کے نام سے یہ کتاب لکھ رہا ہوں، اس کا معنی ہے: ’’واعظوں کی من گھڑت اور جھوٹی روایتوں اور قصے کہانیوں سے خواص کو خبر دار کرنا‘‘۔