وزیراعلیٰ سندھ کے نام ابن آدم کا کھلا خط

453

اے ابن آدم آپ کے روز بروز بڑھتے ہوئے مسائل کو دیکھ آج سوچا کہ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ صاحب کو ایک خط لکھ کر اُن مسائل پر روشنی ڈالوں جن سے اندرون سندھ اور کراچی کے عوام گزر رہے ہیں۔ مراد علی شاہ سابق وزیراعلیٰ سندھ عبداللہ شاہ کے صاحبزادے ہیں۔ اُن کے والد کے دور میں کراچی میں لسانیت اپنے عروج پر تھی، آپ سونے کا چمچہ لے کر پیدا ہوئے ہیں اس لیے عام آدمی کے حالات سے شاید بے خبر ہیں۔ آپ اور آپ کی پارٹی کو سندھ پر حکومت کرتے ہوئے 14 سال تو گزر گئے مگر آپ کی حکومت تو 14 سال سے ایک ہی مقام پر کھڑی ہے۔ صوبے میں ترقی ہونے کے بجائے صوبہ اور صوبے کے عوام روز بروز مسائل میں گھرتے جارہے ہیں۔ میں یہ بات جانتا ہوں کہ اگر آپ کے دماغ میں کچھ اچھا بھی ہے تو وہ آپ کر نہیں سکتے کیوں کہ آپ بااختیار نہیں ہیں، اختیارات کی اصل طاقت کے محور تو آصف علی زرداری اور بلاول زرداری ہیں۔ میں کوئی سلیم صافی نہیں ہوں جو سابق وزیراعظم عمران خان کو چیلنج کرے، میں تو بس آپ سے کچھ سوالوں کے جوابات چاہتا ہوں اور مسائل کا حل چاہتا ہوں۔ آپ سے سوال یہ ہے کہ آپ نے بلدیاتی قانون میں ترمیم کرکے تمام اختیارات ایڈمنسٹریٹر کراچی جو آپ کی حکومت کے ترجمان بھی ہیں کو دے دیے 3 مرتبہ آپ کی حکومت نے بلدیاتی الیکشن ملتوی کروائے۔ جماعت اسلامی نے عدالت میں مقدمہ کیا جگہ جگہ مظاہرے کررہی ہے کہ فوری طور پر بلدیاتی الیکشن کا انعقاد کیا جائے۔ آپ کی حکومت کراچی کو تباہ کررہی ہے اور اس تباہی پر اگر کوئی جماعت آواز حق بلند کررہی ہے تو وہ صرف جماعت اسلامی اور اس کے امیر کراچی حافظ نعیم الرحمن ہیں۔ ایم کیو ایم تو آپ کی گود میں بیٹھ کر دونوں ہاتھوں میں سونے کے لڈو لے کر مستی میں مست ہے۔ ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن تو سندھ حکومت کے لاڈلے بنے ہوئے ہیں۔ مہاجر ووٹ کا جس طرح سے ایم کیو ایم نے سودا کیا ہے ضمنی انتخابات کے نتائج نے ایم کیو ایم کو سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ وہ اب بھی کوئی ایسا بڑا فیصلہ کرلے کہکم از کم بلدیاتی الیکشن میں کچھ سیٹیں حاصل کرسکے۔
خیر آپ تو صوبے کے اس وقت مالک ہیں جس کی ناک کے نیچے سب کام چل رہے ہیں۔ آپ کے پاس مشیروں کی لائنیں لگی ہیں مگر وہ سب پیداگیری اور سیاست چمکانے میں لگے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے اس وقت شہر کا کیا حال ہے؟ آپ کو کیا کے غریب پر کیا گزر رہی ہے۔ کراچی میں دودھ 200 روپے کلو میں فروخت ہورہا ہے درمیانی ڈبل روٹی 110 روپے، پاپے سو روپے، گوشت مرغی 450، گوشت گائے 800 سے 900 روپے کلو میں فروخت ہورہا ہے۔ شہری انتظامیہ خاموش جب کہ کمشنر کراچی نے سرکاری دودھ کی قیمت 120 روپے کلو مقرر کی تھی۔ ڈیری فارمرز نے سرکاری نرخ نامہ ہوا میں اُڑا دیا، یہ کمزوری کس کی ہے؟ آج آپ نے ہر بڑی پوسٹ پر سندھی بھائی کو لگا رکھا ہے جب کہ اردو بولنے والے قابل ترین افسران صوبے میں موجود ہیں، میں نے ایک ایسی کالج کی پرنسپل کراچی میں دیکھی جو وزیراعلیٰ ہائوس کی سفارش پر آئی۔ شکارپور سے شاید ان کا تعلق ہے ان کو نہ تو انگریزی لکھنی آتی ہے نہ وہ دفتری انگریزی کو پڑھ پاتی ہیں۔ ان کے شوہر روزانہ ان کے ساتھ کالج تشریف لے کر آتے ہیں تمام سرکاری فائلوں کا مطالعہ کرتے ہیں جواب لکھتے ہیں پھر بیگم سے کہتے ہیں اب دستخط کردیں یہ تو حال ہے۔
کراچی کی تمام سڑکیں ٹوٹ چکی ہیں کوئی ایک سڑک ایسی نہیں ہے جس پر گڑھے نہ پڑے ہوں ابھی حال ہی میں برسات کے بعد آپ کو کراچی والوں پر رحم آیا اور جہاں سڑکیں ٹوٹی ہوئی تھیں وہاں پر ڈامر ڈال کر ان کو بھر دیا گیا ہے یہ کام کررہی ہے آپ کی حکومت اور بلدیہ، 14 سال میں آپ کی حکومت نے کوئی ایک نئی مضبوط سڑک بنائی؟ پیپلز بس سروس آپ کی حکومت کا ایک اچھا اقدام ہے مگر آپ کی سڑکیں اس معیار کی ہیں کہ ان پر یہ بس
زیادہ دن تک چل سکے۔ 2 سال میں بس کا بیڑہ غرق ہو جائے گا اور عوام کا یہ پیسہ پانی پانی ہو جائے گا۔ آپ نے ناظم آباد بورڈ آفس سے اورنگی ٹائون 5 نمبر تک پل بنایا اور وہاں اورنج بس چلائی جس میں کوئی نہیں بیٹھتا کیوں کہ اس کا کرایہ 50 روپے اور چنگچی کا کرایہ 20 سے 30 روپے جس جگہ یہ پل ختم کیا ہے وہاں سے تو اصل اورنگی ٹائون شروع ہوتا ہے یہ آپ کی اسکیم فیل ہوچکی اور اربوں روپے کا عوام کا نقصان الگ ہوا۔ ایک اچھا کام جو محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی زندگی میں کیا تھا آپ کے دور حکومت میں اس پر عملی کام شروع ہوچکا ہے۔ 1996ء میں محترمہ نے تھرکول پاور پروجیکٹ کی بنیاد ڈالی تھی اس پروجیکٹ کی تکمیل کے بعد صوبے میں جو توانائی کا بحران چل رہا ہے اس سے نجات حاصل ہوجائے گی۔ آپ تھوڑی توجہ تعلیم اور صحت کے محکمے کی طرف بھی کریں محکمہ بورڈز و جامعات سندھ کی 10 سرکاری جامعات کے مستقل وائس چانسلرز اور 5 تعلیمی بورڈز میں مستقل چیئرمین کے عدم تقرر کے بعد جامعات کے ڈائریکٹر فنانس کے تقرر میں بھی ناکامی نظر آرہی ہے۔ دلچسپ امر تو یہ ہے کہ سندھ کے 8 تعلیمی بورڈز گزشتہ 5 برس سے مستقل کنٹرولرز اور سیکرٹریز سے محروم ہیں اور ان اہم عہدوںپر سفارشی یا جیالے جونیئر اور دوسرے محکموں کے افسران تعینات ہیں جس کی وجہ سے صوبہ بھر میں میٹرک اور انٹر کے نتائج متاثر ہوئے۔
سندھ حکومت کا ایک ادارہ ایسا ہے جس کا کام پرائیویٹ اسکولوں کی لوٹ مار کو روکنا ہے اس محکمے نے کبھی کوئی کام نہیں کیا مگر پہلی بار ایک ایماندار اور قابل افسر پروفیسر سلمان رضا کو ڈی جی پرائیویٹ انسٹیٹیوشنز لگایا۔ انہوں نے والدین کی طرف سے موصول ہونے والی شکایت پر فوری ایکشن لینا شروع کردیا۔ پروفیسر سلمان رضا کا تعلق ایک بڑے تعلیمی گھرانے سے ہے آپ نے جب پرائیویٹ اسکولوں کے خلاف کارروائی شروع کی تو پرائیویٹ اسکول والوں نے ان کے خلاف شور شروع کردیا۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ جب کوئی کام کرنے والا ایماندار افسر آجاتا ہے تو کرپٹ عناصر شور شروع کردیتے ہیں۔ میری درخواست ہے کہ ان کو ہٹایا نہ جائے نہیں تو پرائیویٹ اسکول مافیا کی لوٹ مار کو کوئی نہیں روک سکتا۔ سندھ کے ہر محکمے میں کرپشن اپنے عروج پر ہے بغیر رشوت کوئی کام کرنے کو تیار نہیں۔ کے ڈی اے، ایم ڈی اے، ایچ ڈی اے، ایس بی سی اے میں کوئی کام بغیر رشوت کے ہو ہی نہیں سکتا۔ سفارش کے باوجود بھی رشوت دینی ہی پڑتی ہے۔ کراچی والوں کو آپ کی پارٹی کس جرم کی سزا دے رہی ہے، اس کو تو دبئی کی طرح خوب صورت ہونا چاہیے تھا۔
کسی بھی شہر کی تعمیر و ترقی کے لیے 15 سال کم نہیں ہوتے مگر کراچی ان 15 سال میں کھنڈر بن گیا۔ سعید غنی فرماتے ہیں اب کراچی کا میئر پیپلز پارٹی کا ہوگا اور میں یہ کہتا ہوں کہ اس مرتبہ جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے امیدوار کامیاب ہوں گے اور حافظ نعیم الرحمن میئر کراچی منتخب ہونے کے بعد کراچی کی تعمیر کرکے دکھائیں گے کیونکہ آپ کے سیاسی ایڈمنسٹریٹر نے اب تک کوئی کارنامہ انجام نہیں دیا۔ شکایات تو لامحدود ہیں مجھے نہیں بلکہ سندھ کے عوام کو مگر میں بھی کس کس چیز کا نوحہ پڑھوں یا لکھوں کاش آپ ان 15 سال میں اگر تھوڑا بہت بھی کام کرتے تو آپ مزید 5 سال اور وزیراعلیٰ رہتے۔ 2023ء آپ کا آخری سال ہوگا اور کوئی نیا وزیراعلیٰ آپ کی جگہ لے لے گا۔ آپ ہمت کریں اور بلدیاتی الیکشن کی تاریخ کا اعلان کروائیں پھر دیکھیں جماعت اسلامی کو کوئی آنے سے نہیں روک سکتا۔ سیلاب زدگان آپ کی حکومت کو بددعائیں کیوں دے رہے ہیں آپ نے کبھی معلوم کرنے کی کوشش کی اندرون سندھ الخدمت نے متاثرین کے لیے کتنا کام کیا ہے۔ کل سکھر میں امیر جماعت اسلامی سراج الحق صاحب نے دوٹوک الفاظ میں کہا کہ پیپلز پارٹی نے سندھ کو تباہ کیا ہے۔ صرف سراج الحق صاحب ہی نہیں بلکہ ہر ذی شعور یہ بات کہتا نظر آتا ہے۔ آج سندھ کے محکوم آپ کو ووٹ دینے والے آپ کی حکومت کو گالیاں دے رہے ہیں۔ آپ کی پارٹی اوپر جانے کے بجائے زوال کی طرف جارہی ہے آپ کی تھوڑی سی محنت اور توجہ پارٹی کو زوال سے بچا سکتی ہے۔