ایران میں فسادات کے آخری دن قریب ہیں،نائب وزیرداخلہ

573
ایران میں فسادات کے آخری دن قریب ہیں،نائب وزیرداخلہ

تہران:ایرانی نائب وزیر داخلہ ماجد المرحمادی نے کہا ہے کہ مہسا امینی کی حراستی ہلاکت کے باعث پھوٹنے والے فسادات اپنے اختتامی دنوں کے قریب ہیں۔

سولہ ستمبر کو بائیس سالہ کرد ایرانی لڑکی کی حراستی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج اور ہنگاموں کا یہ سلسلہ چھٹے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔

ایرانی نائب وزیر داخلہ ماجد المرحمادی نے کہا ہے کہ مہسا امینی کی حراستی ہلاکت کے باعث پھوٹنے والے فسادات اپنے اختتامی دنوں کے قریب ہیں۔

سولہ ستمبر کو بائیس سالہ کرد ایرانی لڑکی کی حراستی ہلاکت کے بعد شروع ہونے والے احتجاج اور ہنگاموں کا یہ سلسلہ چھٹے ہفتے میں داخل ہو چکا ہے۔

انسانی حقوق گروپ کے ایک حالیہ مرتب کردہ رپورٹ کے مطابق اس دوران 244 افراد ہلاک ہو گئے ہیں جن میں بچے اور ایرانی سکیورٹی اہلکار بھی شامل ہیں۔

تاہم ہلاک ہونے والوں کی اکثریت مظاہرین کی ہے۔ اب تک ساڑھے بارہ ہزار سے زائد مظاہرین گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

ایران کے سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق نائب وزیر داخلہ ماجد المرحمادی نے کہا ہے ‘ مختلف یونیورسٹیوں میں احتجاجی طلبہ کی تعداد میں ہر روز کمی ہورہی ہے اور فسادات اپنے آخری دنوں کی طرف بڑھ رہے ہیں۔’

ان کے مطابق صوبوں میں بھی صورت حال بہتر ہے ، ایسے حالات نہیں ہیں کہ شہری زندگی ان فسادات کی لپیٹ میں ہو ، البتہ جنوب مشرقی صوبہ سیستان بلوچستان جو پاکستان اور افغانستان کی سرحدوں سے جڑا ہوا ہے کا معاملہ مختلف ہے۔

‘ان کے مطابق ‘ اس میں مقامی سنی مسلمان علما کی طرف سے جمعہ کے خطبوں میں اشتعال انگیز تقریروں کی وجہ سے تشدد کے تازہ واقعات رپورٹ ہوئے ہیں ،ماجد المرحمادی نے کہا ‘ زاہدان کا معاملہ سیستان والی وجوہ نہیں رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا صوبائی دارالحکومت چند سنی اکثریت علاقوں میں سے ہے لیکن ایران کے شہروں کی غالب اکثریت تو شیعہ ہے۔ زاہدان میں مولوی عبدالحمید کا خطبہ جمعہ بڑا اشتعال انگیز تھا۔

‘150 ٹھگوں نے عوام کی جائیدادوں کو نشانہ بنایا ہے ، حتی کہ ان جائیدادوں میں سنی مسلمانوں کی دکانیں بھی شامل تھیں۔نائب وزیر داخلہ نے کہا ‘ جب زاہدان میں ہم نے اشتعال انگیز خطبے نہیں ہوں گے تو ہم زاہدان میں امن دیکھیں گے۔

‘ زاہدان کی مکی مسجد جس کے پیش امام مولوی عبدالحمید ہیں وہ بد امنی کی ایک بنیادی وجہ بنے تھ یجو 30 ستمبر کے دیکھنے میں آئی تھی، اس واقعے میں کئی لوگ مارے گئے تھے یہاں تک کہ پاسداران کے اہلکار بھی اس میں مارے گئے تھے۔

‘واضح رہے ایران کے ریاستی میڈیا نے پولیس تھانے پر حملہ کرنے والوں کو شرپسند کہا تھا ‘ دوسری جانب مولوی عبدالحمید کا کہنا ہے کہ ‘ لوگ ایک نو عمر لڑکی کی پولیس اہلکاروں کے ہاتھوں عزت پامال کیے جانے کے خلاف غم وغصے کے اظہار کے لیے نکلے تھے جن پر سکیورٹی فورسز نے گولی چلائی تھی۔

یہ وجہ اشتعال بنی تھی۔ ‘مولوی عبدالحمید نے اپنے خطبہ جمعہ میں کہا ‘ زاہدان میں جو کچھ بھی ہوا اس کے ذمہ دار ملک کے امور چلانے والے ہیں۔’