مولانا مودودی ؒ کی شخصیت کے چند پہلو

406

مولاناؒ اسلامی سیاسی نظام کے سلسلے میں نہایت واضح سوچ رکھتے تھے۔ وہ جمہوریت کے حامی ضرور تھے لیکن وہ جمہوریت جو مغرب زدہ یا ملحدانہ سوچ کی حامل ہے، اس کے کہیں سے کہیں تک قائل نہ تھے۔ مغرب یا ملحدانہ نظامِ جمہوریت کا بنیادی فلسفہ یہ ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ عوام ہوتے ہیں۔ جبکہ اسلام کا فلسفہ یہ ہے کہ اقتدارِ اعلیٰ اللہ کے سوا اور کسی حاصل نہیں اور زمین پر جس کو حکمرانی کرنے کا حق رکھتا ہے وہ اس کا نائب ہوتا ہے۔ وہ جو بھی فیصلہ کرے گا اللہ تعالیٰ کے احکامات کی روشنی میں کرے گا۔ مغربی طرزِ جمہورت میں فیصلہ اور حکم وہی مانا جائے گا جس کو عوام کی اکثریت مانتی ہو۔ مولاناؒ اس قسم کی جمہوریت جو آج کل مروج ہے اسے ایک غیر اسلامی اور اللہ کے احکامات سے بغاوت قرار دیتے ہیں۔ جناب آصف علی اپنی تحریر میں لکھتے ہیں کہ ’’سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے سیاسی فلسفے کی بنیاد یہ ہے کہ وہ اسلام کو ایک مکمل نظامِ حیات سمجھتے ہیں جو عبادات و معاملات سے لیکر معاشرت، معیشت اور سیاست تک تمام معاملات میں رہنمائی کرتا ہے۔ اپنی سیاسی فکر میں وہ سب سے پہلے دین و سیاست کے تعلق پر بحث کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اسلام اللہ اور بندے کے درمیان انفرادی تعلق کا ہی نام نہیں بلکہ انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں میں رہنمائی فراہم کرتا ہے جس میں سیاست اور ریاست بھی شامل ہے۔ جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ اسلامی ریاست کیسی ہوگی تو سید مودودی واضح کرتے ہیں کہ ’’مغربی جمہوریت میں جہاں لوگوں کو قانون سازی کا اختیار حاصل ہے وہیں اسلامی نظام میں بندے رب تعالیٰ کے بنائے گئے قوانین و ضوابط ہی کو نافذ کریں گے‘‘۔ آصف صاحب مزید حوالہ دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ’’اسی طرح وہ (مولانا) پاپائیت پر بھی تنقید کرتے ہوئے اسے اسلام کے خلاف قرار دیتے ہیں کہ اس نظام میں مذہبی طبقہ قانون سازی کرتا ہے اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتا ہے‘‘۔
کسی بھی دور میں کتابوں کا مطالعہ ایک تھکا دینے والا کام رہا ہے۔ پھر ایسی کتابیں جن کا تعلق مذہبی تعلیمات سے ہو، ان کو پڑھنا اور بھی مشکل کام یوں ہے کہ ایک جانب تو پڑھنے والے کو اس میں ’’خشکی‘‘ بہت محسوس ہوتی ہے تو دوسری جانب عام طور پر تقریباً تمام محققین اور معلمین جس قسم کی تحریریں کتابی شکل میں پیش کرتے ہیں اس میں ادبی چاشنی نا ہونے کے برابر ہوتی ہے، ایک تو مذہب جیسا خشک موضوع (عامیانہ سوچ رکھنے والوں کے مطابق) ہو اور وہ الفاظ کے حسین اتار، چڑھاؤ، چناؤ اور موزوں انتخاب سے بھی محروم ہو تو کسی کا ایسی تحریریں پڑھنے کا دل کیونکر چاہے گا۔ مولانا کی تمام تحریریں حتیٰ کے قرآن کا ترجمہ و تشریح تک اتنی مرصح، بامحاورہ، لفظوں کے خوبصورت امتزاج اور واقعات کے مطابق الفاظ کے اتار چڑھاؤ کے چناؤ سے آراستہ ہونے کے ساتھ ساتھ اتنی آسان فہم و سہل ہوتی ہیں کہ پڑھنے والے کو کسی مقام پر بھی طبعیت میں گرانی محسوس نہیں ہوتی اور اس کا سہل اور عام فہم ہونا پڑھنے والے کو ایک ایک لفظ اور جملے کا مطلب صاف صاف سمجھاتا چلا جاتا ہے۔
مولانا کی تحریر کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ جو بھی بات کہنا یا سمجھانا چاہتے ہیں وہ نہایت تحقیق کے بعد کہتے اور سمجھاتے ہیں یعنی ان کی بیان کردہ ہر بات نہایت مدلل اور پُر تاثیر ہوتی ہے۔ مولاناؒ جہاں ضرورت محسوس کرتے ہیں وہاں اپنی رائے کا اظہار بھی ضرور کرتے ہیں۔ اپنی رائے کا اظہار کرنے کے بعد بیش تر علما و فقہا کی طرح وہ اسے کبھی حتمی قرار نہیں دیتے بلکہ اپنے پیروکاروں کو نصیحت کرتے ہیں کہ کہ وہ ان کی رائے کو حتمی اور آخری سمجھ کر نہ مانیں بلکہ چاہیں تو اس سے بہتر کوئی اور راہ دکھائی دے تو اس کا انتخاب کرلیں۔
عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ علمائے کرام اپنے بہت سارے انداز ایسے اختیار کر لیتے ہیں جو عام لوگوں سے بہت زیادہ مختلف ہوتے ہیں۔ لباس کی تراش خراش سے لیکر بول چال کا انداز ہو یا ہنسنے، مسکرانے، بات چیت کرنے، اٹھنے بیٹھنے، حتیٰ کہ ملنے جلنے کے سارے طور طریق، وہ عام معاشرے سے اس حد تک مختلف ہوجاتا ہیں کہ عام فرد ان کے پاس آتے، بات چیت کرتے، ان کے ساتھ بیٹھتے، مختلف تقاریب میں شانہ بشانہ شریک ہوتے یا ان کی ضیافت میں عام انسانوں کی طرح جاتے سے گھبراہٹ محسوس کرتا ہے۔ مولاناؒ اپنی آخری عمر تک ان سب باتوں سے بہت دور تھے۔ احباب بتاتے ہیں کہ ایک مرتبہ مولاناؒ سے ملنے کا شوق ان کو اچھرہ لے گیا۔ دن چڑھ چکا تھا، خیال یہی تھا کہ مولاناؒ جاگ رہے ہوں گے۔ پہلی حیرت تو ان سب کو یہ ہوئی کہ گھر کے دروازے پر دستک دینے تک کوئی ایک فرد بھی انہیں ایسا نہیں ملا جس کو محافظ کے طور پر پایا ہو یا راستے میں کسی نے اجنبیوں کو دیکھ کر مولاناؒ کے
گھر کی جانب جاتے دیکھ کر ٹوکا ہو۔ دوسری حیرت یہ ہوئی کہ دروازے پر دستک دیتے ہی فوراً جواب ملا، دروازہ کھلا، پوچھا گیا کہ کیا کام ہے، جواب میں جب یہ کہا کہ ہمیں مولاناؒ سے ملنا ہے تو فوراً ہی ڈرائنگ روم کا دروازہ کھول دیا گیا۔ احباب نے یہ سن رکھا تھا کہ مولاناؒ مہمانوں سے ملنے میں تاخیر نہیں کیا کرتے اس لیے (ان کے حساب سے) مولاناؒ غیر معمولی تاخیر سے تشریف لائے، سب احباب کو سلام کیا اور ان کے سامنے بیٹھنے کے ساتھ ہی معذرت چاہی کہ وہ عام طور پر لکھنے لکھانے کا کام رات دیر گئے تک کرتے ہیں اور فجر کی نماز کے بعد اپنی نیند پوری کرنے کے لیے دوبارہ سو جاتے ہیں۔ جس وقت آپ لوگ آئے میں گہری نیند میں تھا۔ گھر والوں نے بیدار کرکے کہا کہ آپ سے کچھ مہمان ملنے آئے ہیں تو میں بیدار ہوکر ہاتھ منہ دھونے لگا جس کی وجہ سے مجھے تاخیر ہوئی۔ احباب کہتے ہیں کہ معذرت خواہ ان کو ہونا چاہیے تھا کہ وہ آرام میں مخل ہوئے لیکن دنیا کا اتنا بڑا عالم اور مجدد ہم سے معذرت خواہ تھا۔ واللہ کیا عاجزانہ انداز تھا۔
احباب نے ان کو پان کھاتے دیکھا تو کہا مولاناؒ آپ اتنا بہت تمباکو کیوں کھاتے ہیں تو دلکش مسکراہٹ کے ساتھ فرمایا کہ میں ہر کام بہت کرنے کا عادی ہوں۔
مولاناؒ قریب کی مسجد میں عصر کی نماز کے بعد لوگوں تک کچھ دین کی باتیں پہنچایا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ لوگوں تک کچھ باتیں پہنچا رہے تھے کہ ایک موٹر سائیکل سوار نہایت کریہہ آواز کے ساتھ مسجد کے قریب سے گزرا۔ شور کی وجہ سے مولاناؒ خاموش ہو گئے۔ جب سوار گزر گیا تو نہایت تمکنت سے فرمایا کہ موٹر سائیکل کی سواری ہے تو چھوٹی لیکن شور اتنا مچاتی ہے جیسے آسمان سر پر اٹھایا ہوا ہو۔
(جاری ہے)