مردِ درویش انور خان نیازی!(1949ء – 2022ء)

375

جماعت اسلامی کے مرکز منصورہ میں آنے والے مہمانان محمد انور خان نیازی کو دور سے دیکھتے تو کبھی کبھار ان کو شک گزرتا کہ قاضی حسین احمد صاحب ہیں۔ پھر سوچتے کہ وہ تو اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں۔ انہیں بتایا جاتا کہ یہ جماعت کے شعبہ نشرواشاعت کے ناظم ہیں اور ان کا نام انور خان نیازی ہے۔ بعض اوقات نیازی صاحب قراقلی ٹوپی سر پہ پہنتے تھے، قاضی صاحب کی طرح چہرہ سرخ و سفید، لباس سفید برّاق اور چہرے پر بھرپور سفید ریش مبارک! جن لوگوں کو اشتباہ ہوتا، وہ بلاوجہ نہیں تھا۔ بطور ہمہ وقتی کارکن مرحوم نیازی صاحب مرکز جماعت میں اس وقت تشریف لائے جب مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ امیر جماعت تھے۔ یہ 1969ء کی بات ہے۔ آپ کو مرشد مودودیؒ، میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ، سید منور حسنؒ اور (موجودہ) امیر سراج الحق صاحب کے ساتھ کام کرنے کا اعزاز حاصل رہا۔
محمد انور نیازی مسجد میں پانچوں نمازوں میں صفِ اوّل میں کھڑے ہوتے۔ ان کا معمول تھا کہ جونہی اذان کی آواز سنتے فوراً مسجد کی جانب لپکتے۔ ان کا یہ ذوق و شوق، سید منور حسن صاحب سے کافی حد تک ملتا تھا۔ نماز سے قبل اور بعد بھی اذکارِ مسنونہ ان کا معمول تھا۔ اس دوران بات چیت سے وہ مکمل احتراز کی کوشش کرتے۔ نماز کے اندر مرحوم کا انہماک اور خشو خضوع میاں طفیل محمدؒ مرحوم کی طرح نہایت قابل رشک ہوتا تھا۔ یہ طرز زندگی اور صحافت کے شعبے سے وابستگی دونوں ایک دوسرے سے خاصے متضاد ہیں، مگر اللہ کے کچھ بندے ایسے ہوتے ہیں جو وقت کے سانچوں میں ڈھل جانے کے بجائے ان سانچوں کو اپنی پسند و ناپسند کے مطابق ڈھال دیتے ہیں۔ ایسے لوگ قلیل تعداد ہی میں ہوتے ہیں۔
محمد انور خان نیازی ضلع میانوالی کے گائوں غیرت والا میں ایک کاشت کار خاندان میں 20مئی 1949ء کو پیدا ہوئے۔ اس بستی کا نام عظیم اور بامعنی ہے۔ آپ کے والد غلام حسن خان نیازی کا آبائی پیشہ کاشت کاری تھا۔ محمد انور نیازی کے چار بھائی اور ایک بہن تھیں۔ نیازی صاحب نے ابتدا سے لے کر گریجوایشن تک اپنے آبائی علاقے ہی میں تعلیم کی منازل طے کیں۔ گورنمنٹ کالج میانوالی سے بی اے پاس کیا۔ آپ کے سبھی بھائی سرکاری محکمہ تعلیم میں ٹیچر تھے، مگر آپ نے سرکاری ملازمت نہیں کی۔
1969ء میں تعلیم سے فارغ ہو کر کہیں ملازمت کی تلاش میں تھے۔ آپ نے بذریعہ خط و کتابت جماعت اسلامی کے مرکز اچھرہ سے رابطہ کیا۔ کالج کے زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ سے متاثر ہو چکے تھے اور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی کچھ کتابوں کا مطالعہ بھی کر لیا تھا۔ چناںچہ مرکز جماعت میںاسی حوالے سے ایک خط بھیجا۔ مرحوم خودبیان کرتے ہیں کہ وہ 1969ء میں بی اے سے فارغ ہوئے تو کسی کام کی تلاش میں تھے۔ ذہن جماعت اسلامی سے مطابقت رکھتا تھا۔ مرکز جماعت میں خط لکھا کہ اگر کوئی کام مل سکے تو وہ اپنی خدمات پیش کرتے ہیں۔ ڈاک سے جواب آیا کہ لاہور آئو، ہم تمہارا انٹرویو کریں گے۔ اگر تم ہمارے معیار پر پورے اترے تو آپ کو کہیں ایڈجسٹ کر لیں گے ورنہ آنے جانے کا کرایہ دے کر آپ کو واپس بھیج دیں گے۔
نیازی صاحب یہ خط ملنے کے بعد مرکز جماعت اچھرہ پہنچے، وہاں ناظم عمومی راجہ احسان الحق صاحب سے ملاقات ہوئی اور دو تین دن یونہی گزر گئے۔ آخر وہ مولانا مودودیؒ سے ملے اور اپنی آمد کا مقصد اور مرکز کا خط پیش کیا۔ مولانا ؒنے اس خط کے اوپر میاں طفیل محمد صاحب کے نام نوٹ لکھا کہ اس نوجوان سے ملاقات کر کے جانچ لیں اور مرکز میں کہیں کوئی کام ہو تو دے دیں۔ نیازی صاحب کہتے ہیں کہ میں میاں صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرا خط دیکھنے اور مدعا سننے کے بعد آپ نے بے ساختہ فرمایا ’’عزیزم کیوں اپنے آپ کو مشقت میں ڈالتے ہو ساری زندگی چکی پیسنا پڑے گی۔ تم گریجوایٹ ہو، جائو کہیں جا کر اچھی سی ملازمت تلاش کر لو‘‘۔ کہتے ہیں کہ میں نے کہا جناب میں چکی پیسنے کے لیے تیار ہوں تو میاں صاحب نے اپنی عینک اتار کر میز پر رکھی اور گہری سوچ میں پڑ گئے۔ پھر کہا یہ راستہ کٹھن اور مشکل ہے، خوب سوچ لو۔
میں نے کہا خوب سوچ کر ہی میں نے اپنے آپ کو پیش کیا ہے تو میاں صاحب نے شعبۂ نشرواشاعت کے نام نوٹ لکھا، ’’اس نوجوان کو آزمائشی طور پر نشرو اشاعت میں کام کا موقع دیا جائے اور اس کا معاوضہ سو روپے ماہانہ مقرر کر دیا جائے‘‘۔ نیازی صاحب کا کہنا ہے کہ بعد میں ایک مرتبہ جماعت کے ہمہ وقتی کارکنان کو معاوضہ جات میں کچھ اضافہ ملا تو میاں صاحب نے ناظم مالیات کو لکھا کہ میرے معاوضے میں سے دس روپے کم کر دیے جائیں اور محمد انور خان نیازی کے معاوضے میں دس روپے اضافہ کر دیا جائے۔ اس وقت دس روپے کی بھی قیمت (Value) ہوتی تھی۔ حقیقت یہ ہے کہ میاں صاحب ہر لحاظ سے تمام لوگوں سے اس میدان میں فائق تھے۔ خود عسرت میں ہونے کے باوجود دیگر ساتھیوں کے لیے ایثار ان کی پہچان تھی۔
نیازی صاحب نے شادی کے بعد رحمان پورہ میں ایک چھوٹے سے کوارٹر میں رہائش اختیارکی۔ جب منصورہ میں مرکز بن گیا تو 1974ء میں منصورہ میں تحریکی اسٹاف کے لیے جو گھر بنائے گئے تھے ان میں سے ایک فلیٹ میں مقیم ہوئے۔ 8دسمبر 2019ء تک منصورہ میں رہائش رہی۔ ہم بھی اپنا گھر بننے سے پہلے 1987ء تا 1995ء انہی فلیٹوں میں سے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ یوں اس خاندان سے ہمارا ہمسائیگی کا بھی تعلق تھا جو ہمیشہ نہایت خوشگوار رہا۔ آپ کا بیٹا شعیب نیازی اگست 1999ء میں کشمیر میں شہید ہوا تو پورے گھرانے کا صبر دیدنی تھا۔
جب نیازی صاحب کو شعبہ نشرواشاعت کی ذمے داریوں سے 2018ء میں فارغ کیا گیا تو آپ کی خواہش تھی کہ اسی فلیٹ میں رہائش پزیر رہیں اور مرکز جماعت جتنا کرایہ مناسب سمجھے وہ وصول کر لیا کرے۔ آپ کو جامع مسجد منصورہ اور منصورہ کے اندر مقیم اپنے پرانے دوستوں کے ساتھ ایسا لگائو تھا کہ جس کو بیان کرنا مشکل ہے۔ جماعتی فیصلے کے بعد خاصے پریشان ہوئے اور بالآخر یہ گھر چھوڑ کر سڑک کے پار گلزار منصورہ میں کرائے کے مکان میں منتقل ہونا پڑا۔ سڑک پر ٹریفک بے ہنگم ہوتی ہے۔ نیازی صاحب بڑی مشکل سے مسجد میں نمازوں کے لیے آتے۔ کافی دیر ہم دونوں آپس میں گفتگو کرتے اور پرانی یادیں تازہ ہوتیں۔
نیازی صاحب کو شوگر اور دل کا عارضہ چند سال سے لاحق تھا۔ آپ احتیاط تو برتتے تھے، مگر اس کے باوجود دن بدن کمزور ہوتے جا رہے تھے۔ جب منصورہ میں نماز کے لیے آنا ناممکن ہو گیا تو طبیعت اور زیادہ اداس ہو گئی۔ جمعہ اور بعض دیگر نمازوں کے لیے کوشش کر کے آتے اور سب دوستوں سے ملاقات سے شادکام ہوتے۔ صحت دن بدن مزید کمزور ہوتی جا رہی تھی۔ آپ کی اہلیہ کی وفات 2020ء میں گلزار منصورہ میں ہوئی اور ان کا جنازہ منصورہ میں ادا کیا گیا اور تدفین مصطفی ٹائون کے قبرستان میں ہوئی۔ نیازی صاحب زندگی کے آخری چند دن اسپتال میں رہے۔ بالآخر 5اپریل 2022ء کو رمضان المبارک کے مہینے میں بروز جمعرات سحری سے قبل 2 بج کر 45منٹ پر یہ مردِ درویش اللہ کو پیارا ہو گیا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اگلے دن منصورہ ہی میں ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی۔ سب دوست احباب غم زدہ تھے اور اپنی پرانی یادوں کا تذکرہ کرتے ہوئے مرحوم کا ذکرخیر کر رہے تھے۔ ان سب کی نیک گواہیاں ان شاء اللہ مرحوم کے حق میں نفع بخش ثابت ہوں گی۔ جنازے کے بعد تدفین کے لیے مرحوم کے جسدخاکی کو ان کے آبائی گائوں منتقل کیا گیا وہاں بھی نماز جنازہ ادا ہوئی جس میں بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی اور پھر آبائی قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔ میں منصورہ میں مرحوم کا جنازہ پڑھانے کے بعد جب ان کا دیدار کر رہا تھا تو بے ساختہ ان کے آخری ایام کا نقشہ سامنے آ گیا اور میں نے دل میں کہا ؎
دونوں جہان تیری محبت میں ہار کے
وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزار کے
ویراں ہے مے کدہ خم و ساغر اداس ہیں
تم کیا گئے کہ روٹھ گئے دن بہار کے!
اے اللہ ہم سب کے گناہوں کو معاف فرما اور اپنی خصوصی رحمت سے ہمیں اپنی رضا اور جنت عطا فرما۔ آمین