شروع شروع جب پاکستان میں کمپیوٹر اتنا عام ہونے لگا کہ گھروں کے دروازوں پر اس کی دستک سنائی دینے لگی تو مجھے اس بات کی تو بے حد خوشی ہوئی کہ اس میں نہ صرف ہر فرد کے مزاج کے مطابق بہت کچھ دیکھنے، سننے اور پڑھنے کے بصارتی، صوتی اور تحریری لوازمات موجود ہیں بلکہ ہر قسم کی تحریریں، کتابیں، اخبارات اور رسائل بھی ہیں جن کو دیکھ کر، سن کر اور مطالعہ کرکے بہت کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے لیکن دکھ اس بات کا ہوا کہ اردو کے زبان و ادب سے تعلق جوڑنے والے بہت بڑے بڑے ذخیرے دور دور تک دکھائی نہیں دیا کرتے تھے۔ اب اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہر قسم کی علمی معلومات مکڑی کی اس جالے، جس کو ویب سائیڈ اور انٹرنیٹ کے نام سے پکارا جاتا ہے، میں دیکھی، سنی اور پڑھی جا سکتی ہیں۔ بے شک اب بھی کسی بھی قسم کے اردو ادب کا تمام تر ذخیرہ تو موجود نہیں لیکن پھر بھی لائقِ ستائش ہیں وہ لوگ جو اردو کے علمی ذخیرے کو جدید دور کے مکڑی کے جالے میں محفوظ کرنے میں رات دن کوشاں ہیں اور اگر ان کی کوششیں بنا تکان جاری رہیں تو ایک دن وہ ضرور آئے گا جب ہر عام و خاص اپنے ذوق کے مطابق ہر قسم کی معلومات اپنے لیپ ٹاپ، کمپیوٹر یا موبائل فون وغیرہ پر جب اور جہاں سے چاہے گا حاصل کر سکے گا۔
پاکستان میں عام طور پر ہر مسلک اور فرقے سے تعلق رکھنے والے علمائے کرام سخت تنقید کی زد میں رہے ہیں لیکن مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ایک ایسے مجدد اور عالم ہیں جن کی قدر اور عزت نہ صرف پاکستان میں ہے بلکہ ان کی علمیت اور قابلیت کا اعتراف صرف پورا عالم اسلام کرتا ہے۔ ان کی قابلیت اور ان سے عقیدت رکھنے والوں کا اندازہ لگانے کے لیے صرف یہی بات بہت ہے کہ دنیا بھر میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتب آپ ہی کی تحریر کردہ ہیں جن میں مقبول ترین کتاب قرآنِ کریم کا وہ ترجمہ و تشریح ہے جس کو تفہیم القرآن کے نام سے دنیا بھر میں جانا اور پہچانا جاتا ہے۔
آج اگر ہم مولانا ؒ کی شخصیت پر معلومات حاصل کرنا چاہیں تو مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ مکڑی کے اس جالے میں اسلام سے محبت رکھنے والوں نے مولانا کی ذاتی زندگی سے لیکر ان کی اسلامی خدمات کے متعلق اتنی معلومات فراہم کردی ہیں کہ کوئی طالبِ علم ہو، کوئی ان کا عقیدت مند ہو، کوئی اسلام کی والہانہ محبت سے سر شار ہو، کوئی ایسا فرد جو اسلام کے سیاسی، سماجی، معاشی اور اسلام کے حقیقی نظامِ زندگی کے متعلق آگاہی حاصل کرنا چاہے تو یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ سید ابوالاعلیٰ مودودی کے علمی ذخائر کو نظر انداز کرکے گزر جائے۔ میں ذیل میں کچھ محققین کی تحریروں میں سے چند اقتباسات ضرور تحریر کرنا چاہوں گا تاکہ اس بات کا اندازہ لگایا جا سکے کہ دنیا مولاناؒ کی علمی شخصیت کو کس زاویہ نگاہ سے دیکھتی ہے۔
مجھے اس بات کا علم تو نہیں لیکن لکھنے والے نے مولاناؒ کی سوانح حیات کے بارے میں اجمالاً کچھ اس طرح لکھا ہے کہ ’’سید ابوالاعلٰی مودودی کا سنِ ولادت 1321ھ بمطابق 1903ء ہے۔ جائے پیدائش اورنگ آباد دکن ہے اور آبائی تعلق سادات کے ایک ایسے خاندان سے ہے جو ابتداء میں ہرات کے قریب چشت کے معروف مقام پر آکر آباد ہوا تھا۔ اس خاندان کے ایک مشہور بزرگ خواجہ قطب الدین مودود چشتی تھے جو خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے شیخ الشیوخ تھے۔ سید مودودی کا خاندان خواجہ مودود چشتی کے نامِ نامی سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلا تا ہے۔ انہوں نے جس گھرانے میں آنکھ کھولی وہ ایک مکمل مذہبی گھرانا تھا۔ ان کے والدِ محترم اور والدہ ماجدہ دونوں کی زندگی مذہبی رنگ میں رنگی ہوئی تھی۔ سید مودودی کی تربیت ان کے والد نے خاص توجہ سے کی۔ وہ انہیں مذہبی تعلیم خود دیتے تھے۔ اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ ساتھ فقہ اور حدیث کی تعلیم بھی اتالیق کے ذریعے گھر پر دی جانے لگی۔ تعلیم کے ساتھ اخلاقی اصلاح کا بھی وہ خاص خیال رکھتے تھے۔ اسی لیے سید مودودی کے والد نے انہیں کسی مدرسے میں داخل نہیں کرایا، بلکہ گھر پر ہی پڑھاتے رہے۔ ابتدائی دور کے پورے گیارہ برس انہوں نے اپنے بیٹے کو براہِ راست اپنی نگرانی میں رکھا اور کسی مکتب یا مدرسہ میں بھیجنا گوارہ نہ کیا بلکہ ان کی تعلیم کا گھر پر اتالیق رکھ کا انتظام کیا تاکہ مدرسے اور اسکول میں زمانے کی بگڑی ہوئی رو سے وہ اپنے بچے کو بچا سکیں‘‘۔ ماخوز انٹر نیٹ۔
آگے چل کر وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’’سید صاحب کو گیارہ سال کی عمر میں گھریلو تعلیم کی مناسب تکمیل کے بعد مدرسہ فرقانیہ اورنگ آباد کی آٹھویں جماعت میں براہِ راست داخل کیاگیا۔ اس وقت ان کی معلومات تمام مضامین میں اپنے ہم جماعتوں سے بہت زیادہ تھیں، حالانکہ وہ آٹھویں جماعت میں سب سے چھوٹی عمر کے طالب علم تھے۔ مولوی کلاس میں آنے کے بعد سید صاحب کو جدید علوم کیمیا، طبیعیات، ریاضی وغیرہ سے واقفیت اور دلچسپی پیدا ہوئی۔ اور پھر جدید معلومات میں بھی وسعت پیدا ہوتی چلی گئی‘‘۔
جیسا کہ میں بیان کر چکا ہوں کہ مولاناؒ صرف پاکستان میں ہی معروف نہیں تھے بلکہ ان کے علمی ادبی ذوق اور اسلام پر دسترس کے قائل مغربی و اسلامی ممالک کے محققین بھی تھے۔ شاہ عمران حسن (نئی دہلی) لکھتے ہیں کہ ’’میرا وجود دنیا میں قائم ہونے سے بہت پہلے مولانا مودودی کی وفات ہو چکی تھی۔ اس لیے انہیں دیکھنے یا سننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ تاہم میں اِس تعلق سے چند باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ طالب علمی کے زمانہ میں جن اصحابِ قلم کی تحریروں اور تخلیقی ایجادوں نے راقم الحروف کو متاثر کیا اور جن کے فکر وخیالات نے میرے ذہن میں غورو فکر کا مادّہ پیداکیا۔ اُن اصحاب قلم میں مولانا سید ابواعلیٰ مودودی کا نام بھی خاص اہمیت کا حامل ہے۔ مولانا مودودی کی اسلامی انقلاب کی تحریک بیسوی صدی عیسوی کے نصف اوّل میں شروع ہوئی اور صدی کے آخرتک پوری دنیا میں پھیل گئی۔ جس کے دوررس نتائج سامنے آئے۔ مولانا مودودی نے اپنی وسعت نظری سے بہت کم عمری میں ہی ہندوستان میں بدلتے ہوئے حالات اور ہونے والے تغیرات کو بھانپ لیا تھا۔ جس وقت اُنہوں نے اپنے قلم کو جنبش دینی شروع کی اس وقت خلافت اسلامیہ کا زوال اور اشتراکیت کاعروج ہو رہا تھا‘‘۔
آگے چل کر شاہ عمران حسن (نئی دہلی) لکھتے ہیں کہ ’’اس وقت ہندوستان کی تاریخ کا ہم جائزہ لیں تو ملت اسلامیہ ہندیہ کے گہن لگے ہوئے معاشرہ میں مولانا مودودی آفتاب کی مانند نمودار ہوئے اور کفر اور الحاد، جنسیات و لغویات میں مبتلا اور الجھی ہوئی قوم کے درمیان دین کی شمع روشن کرنے کی کوشش کی، اور اس میں وہ کافی حدتک کامیاب ہوئے۔ اور جب ماہنامہ ترجمان القرآن کے ذریعہ دینی آواز کو عوام کے سامنے پیش کیا توعوام کی ایک بہت بڑی تعداد نے ان کی آواز پر لبیک کہا‘‘۔
(جاری ہے)