کیا کسی کو کچھ معلوم ہے؟

784

کتنے لوگ ہوں گے جنہیں 8 اکتوبر 2005 کا بدترین زلزلہ یاد ہوگا، ان دنوں رمضان المبارک کا مہینہ تھا اور پانچواں روزہ تھا، اسلام آباد میں مارگلہ ٹاور گرا، پوری طرح منہدم ہوگیا، مظفر آباد، باغ، مانسہرہ، ایبٹ آباد اور دیگر بالائی علاقے زلزلہ کی زد میں آئے ایک اہم حکومتی شخصیت سے جب جسارت نے اگلے روز انٹرویو کیا تو کہتے ہیں کہ جب زلزلہ آیا تو وہ اس وقت ناشتہ کر رہے تھے، جی ہاں بالکل یہی کہا، انہیں یاد دلایا کہ رمضان المبارک میں ناشتہ؟ اور وہ بھی صبح آٹھ بجے؟، پھر کہنے لگے، نہیں نہیں اس بات کو یہیں چھوڑ دیں، بہر حال اس روز کے حوالے سے جنرل مشرف کا بیان ریکارڈ پر ہے کہ انہیں دن ساڑھے تین بجے تک کوئی اطلاع نہیں تھی کہ آزاد کشمیر میں کیا نقصان ہوچکا ہے، جس ملک کی قیادت ایسی ہو، وہ ترقی کیسے کرے گا؟ خوشحالی کہاں سے آئے گی؟ حالیہ سیلاب بھی کیا کوئی کم نقصان لے کر آیا، ساڑھے تین کروڑ افراد بے گھر ہوئے، فصلیں تباہ ہوئیں، سڑکیں اور ریل کی پٹڑی سیلاب میں بہہ گئی، کہا جارہا ہے کہ پوری طرح بحالی میں چھے ماہ کا عرصہ لگ جائے گا، اللہ کرے یہ کام چھے ماہ میں ہوجائے، یہاں تو حالات یہ ہیں کہ زلزلہ کے متاثرین آج تک بحالی کے منصوبوں کی راہ دیکھ رہے ہیں، بالاکوٹ میں ایک نیا شہر آباد کرنا تھا، اعلان ہوچکا ہے، اور ابتدائی منصوبہ بھی بن چکا ہے، مگر… کسی سوال کا جواب نہیں ہے… بس انتظار فرمائیے کا بورڈ لگا ہوا ہے۔
آج کیا ہورہا ہے؟ حکومت دعویٰ کر رہی ہے کہ سائفر کہانی کا ایک ایک پہلو سامنے لائے گی، مگر کس طرح؟ ان ویڈیو لیکس نے پاکستان کی سیاست میں زلزلہ برپا کر دیا ہے اور اس کے آفٹر شاکس بڑھ رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ یہ بات درست ہی ہو کہ عمران خان کے پیروکاروں کا اب اعتماد اٹھ رہا ہے لیکن وہ اپنی بات پر قائم ہیں کیونکہ ان کی سیاسی بقاء اسی میں ہے، ابتدائی طور پر جھوٹ چھپانے اور خفت مٹانے کے لیے طرح طرح کے جواز پیش کیے گئے لیکن سائفر اور اس میں کیے جانے والے ردوبدل اور جعلسازی کی نفی کرنے اور اس کے لیے بولے جانے والے جھوٹ کو چھپانے میں ناکام رہے دونوں آڈیو لیکس عمران خان کی سیاست کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہزیمت اٹھانے کے ساتھ ساتھ انہیں اقتدار سے ہٹانے کے لیے امریکی سازش کا بیانیہ بے نقاب ہو گیا ہے اب وفاقی وزراء شاہ محمود قریشی اور اسد عمر کے علاوہ پرنسپل سیکرٹری اعظم خان بھی ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوں گے بتانا پڑے گا ایک جعلی میٹنگ کے منٹس تیار کیے گئے جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کے تمام منصوبے سامنے لانا پڑیں گے خان صاحب کو معاملے کی نزاکت کا احساس ہو چکا ہے اور یہ بات سمجھ میں آ گئی ہے کہ ان سے ایسی غلطی سر زد ہو گئی ہے جسے درگزر نہیں کیا جا سکتا۔
ٹمپرڈ سائفر کی اصل کاپی غائب ہو گئی کیونکہ حکومت نے اس خود ساختہ خط کا فرانزک کرانے کا فیصلہ کر لیا تھا اس بار معافی کی کوئی گنجائش معلوم نہیں ہوتی خان صاحب بھی تو توہین عدالت کے کیس سے فارغ ہوئے ہیں جج محترمہ زیبا چودھری کی عدالت میں معافی مانگنے کے لیے بنفس نفیس پیش ہوئے لیکن جج صاحبہ عدالت میں موجود نہیں تھیں حکومت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو اس حساس معاملے کی تحقیقات کرنے کی ذمے داری سونپ دی ہے ہدایت کی ہے کہ تمام متنازع اور جواب طلب معاملات کی تحقیقات کرے جو دنیا میں بدنامی اور شرمندگی کا باعث بنے ہیں۔ شاہ محمود قریشی، اسد عمر سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان شامل تفتیش کیے جائیں گے وزیراعظم ہائوس اور وزارت خارجہ کے ان ملازمین کے خلاف تحقیقات کی جائیں گی جنہوں نے سرکاری اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہوئے اس جعلسازی میں عمران خان، شاہ محمود قریشی، اسد عمر اور اعظم خان کی معاونت کی اب اس بیانیہ کی گھن گرج کہ ’’کوئی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتا‘‘ کے زور کا پتا چلے گا۔